خبرنامہ

حکمران مسلم لیگ میں نقب نہیں لگائی جا سکی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

حکمران مسلم لیگ میں نقب نہیں لگائی جا سکی….اسداللہ غالب
کان پھٹ گئے ہیں یہ سن سن کر کہ مسلم لیگ ن انتشار کا شکار ہو گئی۔ کسی نے کہا کہ نوے ارکان چودھری نثار کے ساتھ ہیں، کسی نے کہا کہ چالیس ارکان، کوئی کہتا رہا کہ اسی ارکان بغاوت کر چکے ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر کچھ معلوم نہیں مگر کہا گیا کہ نواز اور شہباز میں دوری پیدا ہو گئی، یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب میں حمزہ کا راج ہے اور صوبائی انتظامیہ سے کہہ دیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان کے فون مت سنو، یہ بھی کہا گیا کہ نارووال کی ضلعی انتظامیہ وزیر داخلہ احسن ا قبال کو گھاس نہیں ڈالتی، کسی سے یہ بھی کہتے سنا کہ اگلے الیکشن میں صوبا ئی ٹکٹ تو ن لیگ سے لیں گے اور قومی اسمبلی کے لئے آزاد ٹکٹ پر لڑیں گے۔ میں سنی سنائی ساری باتیں نہیں لکھ سکا۔ نہ لکھ سکتا ہوں۔ مگر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن نے پھر میدان مار لیا۔
میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا منفی پوائنٹ نکالے جائیں گے ، جو لوگ کیڑے نکالنے کے فن میںماہر ہیں وہ یہ دور کی کوڑی نکال ہی لائے کہ ووٹنگ میں ن لیگ کے بائیس ارکان نے حصہ نہیں لیا، ان میں احسن ا قبال بھی تھے، خواجہ آصف بھی تھے اور اسحق ڈار بھی تھے، اتحادیوں میں مولانا فضل الرحمن غیر حاضر رہے اور اچکزئی بھی نظر نہیں آئے، بائیس ارکان میں ایک ظفراللہ جمالی بھی ہیں جنہوںنے اپوزیشن کے حق میں ووٹ دیا۔ کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو، جمالی صاحب کو پیپلزپارٹی کی یاد ستانے لگ گئی ہو گی۔ تو اسحق ڈار کو کیا ہوا، وہ تو لندن کے ہسپتال سے اٹھ کر چلے آتے، احسن اقبال گنتی سے پہلے ہی اٹھ کر کیوں چلے گئے، ضرور دال میں کچھ کالا ہے مگر جب معاملہ کھنگالا گیا تو پتہ چلا کہ شاہ محمود اور انوشہ رحمن کی لمبی تقریروں کی وجہ سے اجلاس طوالت اختیار کر گیا تو احسن ا قبال ایک اعلیٰ سطحی چینی وفد سے ملنے چلے گئے، یہ ملاقات طے تھی، نازل نہیں ہوئی تھی، نہ کوئی بہانہ تھی، پہلے سے شیڈول کاا علان ہو چکا تھا۔
باتیں جتنی چاہے بنا لو مگر قصہ یہ سامنے آیا کہ حکمران لیگ اسی طرح ثابت قدم ہے جیسے نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کے دور میں تھی اور ان کے ساتھ کھڑی تھی بلکہ اس وقت تو کچھ ارکان ناراض بھی تھے کہ وزیر اعظم ملاقات کے لئے وقت نہیں دیتے، چودھری نثار نے ٹی وی کے سامنے گلہ کیا کہ تین ماہ سے کسی مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا مگر یہی چودھری نثار ووٹنگ کے دوران کئی بار ٹی وی کیمروں کا فوکس رہے۔ کیمرہ مین بہت ذہین ہوتے ہیں، لوگوں کو ضرور بتاتے ہیں کہ جس شخص پر شک تھا وہ تو صف اول میں براجمان ہے۔
جب کسی پر برے دن آتے ہیں یا کوئی افتاد نازل ہو جاتی ہے تو شاعر کہتا ہے کہ سایہ بھی جدا انساں سے ہوتا ہے۔ جدائیاں اور دوریاں تو یہاں بھی دیکھنے کو آئیں، زرداری صاحب نے نظریں بدل لیں اور اپنی توپوں کا رخ نواز شریف کی طرف کر دیا، بلاول بھی ایک عرصے سے زہر اگل رہا تھا۔
اسی پر بس نہیں، ن لیگ کو کارنر کر نے کے لئے نت نئی سیاسی چالیں دیکھنے میں آئیں۔کراچی میں یک دم محبت کے زمزمے بہہ نکلے اور ایک دوسرے کو دن رات گالیاں دینے والی ایم اکیو ایم کے دونوں دھڑے جو اب الگ الگ پارٹی کا روپ دھار چکے تھے، گلے ملتے نظر آئے، ایک نام ، ایک نشان اور ایک جھنڈے کا نعرہ بلند ہوا، مگر صرف چند لمحوں کے لئے کیونکہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار چولھے پر نہیں چڑھائی جا سکتی اور بیچ چوراہے میں پھوٹ جاتی ہے، اب یہ دونوں دھڑے ایک دوسرے کے خلاف پھر سے جوتم پیزار ہیں اور وہ گند سامنے آ رہا ہے کہ خدا کی پناہ! رینجرز اگر انہی الزامات کی تحقیقات پر لگ گئے تو معلومات اگلی دو صدیا ں اس پر صرف ہو جائیں گی مگر نتیجہ پھر بھی کچھ نہ نکلے گا۔
ایم کیو ایم کے اتحاد سے بھی ن لیگ کو پریشان نہ کیا جاسکا تو مشرف کی بلا نازل ہوئی اور اس نے دو درجن سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا اعلان کر دیا۔ یہ ساری جماعتیں کاغذی تھیں۔ اس لئے اتحاد بھی کاغذی تھا ۔ شاعر کہتا ہے کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے۔ یہ سارے اتحاد صفر جمع صفر مساوی صفر کے مترادف تھے۔
میں یہ بات بھی ذاتی معلومات کی بنا پر نہیں کہتا بلکہ یہ سنی سنائی کہانیاں ہیں کہ نواز شریف عدلیہ اور فوج سے بر سر پیکار ہیں، عدلیہ پر تو نواز شریف ضرور معترض تھے کہ پانچ شخص پوری قوم کی تقدیر کے کیسے مالک بن گئے۔ لیکن انہوں نے فوج کے خلاف شاید ہی براہ راست کوئی حملہ کیا ہو، پس پردہ قوتوں کی باتیں تو کی جاتی ہیں مگر یہ پس پردہ کون ہے، اس کا نام نہیں لیا گیا مگر اپوزیشن لیڈروں اور میڈیا کے مخصوص اینکروں اور تجزیہ کاروںنے عدلیہ اور فوج کو باور کرا دیا ہے کہ نواز شریف آپ کا مخالف ہے اورا س طرح نفسیاتی طور پر ایک ایسی پروپیگنڈہ یلغار کی گئی کہ عدلیہ اور فوج سے نوازشریف کو کبھی ہمدردی نہ مل سکے۔ فوج اور نواز شریف کی مخاصمت کی تاریخ بڑی پرانی ہے مگر مل کر چلنے کی تاریخ اس سے بھی زیادہ پرانی،ا س لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نئی پروپیگنڈہ مہم سے فوج نے کیا اثر قبول کیا ، اور کیاا س نے نواز شریف کا ورقہ پھاڑ دیا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فوج نے ایک ادارے کے طور پر اس ساری لڑائی کو نظر انداز ہی کئے رکھا ہو مگر چونکہ فوج اب بولتی بہت کم ہے اور ا سکے ترجمان کہہ چکے ہیں کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہو تی ہے ۔ اس بیان کا کچھ بھی مطلب لیا جاسکتا ہے ا ور اپوزیشن نے اس سے اپنا مطلب نکالا اور نواز شریف اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں خوب خوب کردار ادا کیا مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فوج نے اس مہم کا کیا اثر لیا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فوج نے ایک ادارے کے طور پر اسے سرے سے نظر انداز کر دیا ہو کہ ا سکی ساری توجہ دہشت گردی کے خاتمے، کراچی ا ور بلوچستان میں آپریشن اور سی پیک کی پیش رفت پر مرکوز ہے،ان پہاڑ جیسے کاموں کے ہوتے ہوئے سیاسی جھگڑوںمیں پڑنے کے لئے فوج کے پاس وقت نہیں ہونا چاہئے۔
اپوزیشن نے اپنے پتے ظاہر کر دیئے، وہ کھل کر نواز شریف کے خلاف میدان میں اتر چکی ہے، عدلیہ کے تیور بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں ایک فوج کے رویئے کا اندازہ نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اپوزیشن کھل کھلا کر نواز اور فوج میں مخاصمت کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
اس طرح ساری خدائی ایک طرف اور اکیلا نواز شریف ایک طرف ، اس کے کچھ اتحادی بھی کھسکنے کے موڈ میں ہیں مگر آفرین ہے پھر بھی ایک سو تریسٹھ ارکان ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں، وہ مضبوط قدموں کے ساتھ کھڑے ہیں، ثابت قدم دکھائی دیتے ہیں، بڑے اور چھوٹے بھائی کے مابین دشمنی بھی سامنے نہیں آئی۔اگر ہوتی تو اپوزیشن بل پر شکست کے بعد یہ نہ کہتی کہ پنجاب کی ساری انتظامیہ اور صوبائی بجٹ ارکان قومی ا سمبلی کے تصرف میں دے دئیے گئے تھے۔
اس وقت نہ صرف ہاﺅس آف شریف متحد ہے بلکہ مسلم لیگ ن بھی متحد ہے اور اس کے ا تحادی بھی سینہ تانے ساتھ کھڑے ہیں، نواز شریف کا بال تک بیکا نہیں کیا جاسکا، نواز شریف روایتی طور پر فائٹر ہیں، وقتی طور پر ہار جائیں تو اور بات ہے مگر انہوں نے کبھی ہار سے حوصلہ نہیں ہارا، نہ قدم ڈگمگائے۔ وہ ایک نظریاتی شخص ہیں اور یقین رکھئے نظرئیے کو شکست نہیں دی جا سکتی، چار برس سے ان کا گھیراﺅ جاری ہے ، یہ گھیراﺅ نواز شریف کا نہیں پاکستان کا ہے، پارلیمنٹ کا ہے، جمہوریت کا ہے اور نظام کا ہے۔ ترکی میں نظام کو شکست نہیں دی جا سکی تو پاکستان میں کیسے دی جا سکتی ہے، اس کی بنیاد کسی اتاترک نے نہیں ، قائداعظم نے رکھی اور شہیدوں نے اپنے لہو سے اسے سینچا ہے۔