خبرنامہ

حکومت سازی مکمل، بڑی جمہوری پیش رفت

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

حکومت سازی مکمل، بڑی جمہوری پیش رفت

پنجاب اور بلوچستان کے لئے کابینہ کے ارکان کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وفاق، سندھ ا ور خیبر پی کے کی حکومتوں کا عمل پہلے مکمل ہو چکا ہے۔ اس طرح پاکستان نے ایک نئے جمہوری سفر کاا ٓغاز کر دیا ہے۔
کون کہہ سکتا تھا کہ یہ دن دیکھنا نصیب ہو گا۔ صرف آرمی چیف اور چیف جسٹس کہہ رہے تھے کہ الیکشن بر وقت ہوں گے اورا سکے مینڈیٹ پر عمل ہو گا۔باقی پورا ملک افواہوں کی زد میں تھا، میاں نواز شریف کو ہٹایا گیاا ور وہ جی ٹی روڈ پر یہ سوال کرنے کے لئے نکلے کہ مجھے کیوں نکالا تو لوگ شش و پنج میں پڑ گئے کہ کہیں کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ کہیں جمہوری سفر کی منزل کھوٹی نہ ہو جائے۔ کوئی کہتا کہ فوج ٹیک اوور کے لئے تیار ہے، کوئی کہتا کہ ٹیکنو کریٹس کی دوسالہ حکومت آ رہی ہے۔ کوئی کہتا کہ پہلے احتساب ہو گاا ور پھر انتخاب، جتنے منہ اتنی باتیں،حتی کہ فوج کے ترجمان کی میڈیا بریفنگ میں ایک صحافی نے سوال داغ دیا کہ اگر عمران خان جیت بھی گیا تو سناہے کہ اسے اقتدار منتقل نہیں کیا جائے گا۔ فوج کے ترجمان نے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا کہ قوم جسے وزیر اعظم منتخب کرے گی، وہ ملک، قوم اور فوج سب کا وزیر اعظم ہو گا، کوئی طعنہ دیتا کہ ایک پارٹی کی مدد کے لئے خلائی مخلوق کردار ادا کر رہی ہے، کوئی جیپ کے نشان والوں پر سوال اٹھاتا، کوئی آزاد امیدواروں کے جم غفیر کو شک کی نظر سے دیکھتا،کوئی آخری لمحات میں الیکٹ ایبلز کی پی ٹی آئی میں دھڑا دھڑ شمولیت پر اعتراض کرتا۔
یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں تھا۔ اس ملک میں شب خون مارے جاتے رہے ہیں، اس ملک میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی روائت موجود ہے۔اس ملک میں ایجنسیوں کا کردار بڑا واضح رہا ہے۔ اصغر خان مر گئے مگر ان کے کیس کا فیصلہ تیس برس سے لٹکا چلاا ٓرہا ہے۔اس پس منظر میں لوگ شکی تھے۔ میڈیا شکی تھا اور سیاست دان شکی تھے۔ مگر کسی نے ایک نکتے پر غور نہیں کیا کہ تمام بحرانوں کے باوجودجنرل کیانی، جنرل راحیل اور جنرل باجوہ نے جمہوریت کی کامیابی میں اہم اور سرگرم کردار ادا کیا ہے، دو منتخب حکومتیں اپنی ٹرم پوری کر چکی ہیں۔تو پھر تیسری منتخب حکومت کے قیام میں کسی رکاوٹ کا خیال دلوں میں نہیں آنا چاہئے تھا اور اگر آہی گیا تھا تو آج ثابت ہو گیا کہ یہ سب واہمے تھے۔ اب لگتا ہے کہ ا س ملک میں جمہوریت کی جڑیں راسخ ہو چکی ہیں۔ اب اباؤٹ ٹرن ممکن نہیں رہا۔ اب قوم کو آگے ہی آگے بڑھنا ہے اور یہ سفر اب یوں آگے کی طرف رواں دواں ہے کہ الیکشن ہو گئے۔ اس کے مینڈیٹ پر عمل ہو گیا اور اگرچہ حکومت سازی میں کچھ تاخیر ہوئی مگر اب یہ عمل مکمل ہو چکا،۔ تاخیر بلا جواز نہ تھی۔ تحریک انصاف پہلی مرتبہ اکثریتی مینڈیٹ لے پائی ہے مگر اسے پھر بھی اتحادیوں کا سہارا لینا پڑا۔ اتنے اتحادی ہوں اورا ٓزاد امیدواروں کا ہجوم ہو تو حکومت سازی معمولی کام نہیں۔ اس کے لئے دماغ سوزی کرناپڑتی ہے، مختلف دھڑوں کو راضی کرنا پڑتا ہے تاکہ حکومت بن جانے کے بعد کوئی تماشہ نہ چل نکلے۔ اپوزیشن اور میڈیا یک زبان تھے کہ پی ٹی آئی میں جوتیوں میں دال بٹے گی مگر ہم نے دیکھا کہ جوتیوں میں دال تو ضرو ربٹی مگر اپوزیشن کی بٹی ہوئی صفوں میں بٹی،یہ وزیر اعظم کے لئے متفقہ امیدوار نہ لا سکی۔ پتہ نہیں صدر کے امیدوار کا فیصلہ بھی کر پاتی ہے یا نہیں،ان سطور کی اشاعت کے ساتھ یہ حقیت بھی کھل جائے گی۔ الیکشن سے ذرا پہلے بلاول نے بڑ ہانکی تھی کہ اتحادی حکومت چلانے کے لئے زرداری بہترین امید وار ہیں۔ انہیں اتحادی حکومت چلانے کا اچھا تجربہ ہے۔ اس تجربے میں بھی قاتل لیگ کے سامنے سر جھکاناپڑا تھا۔ یہی پرویز الٰہی کام ا ٓئے تھے جنہیں نائب وزیر اعظم بنایا گیا۔ مگر زرداری کو اپوزیشن اتحاد چلانے کا تو ذرا بھی تجربہ نہیں۔ انہوں نے نوبزادہ نصراللہ خان کو بھی حکومت ہی میں شامل کیا۔ مگر ان سے اپوزیشن چلانے کے گر نہ سیکھے۔ اس لحاظ سے زرداری نام کے زردار تو ہیں مگر کام کے مفلس نکلے۔ جبکہ دوسری طرف ابھی تک پی ٹی آئی اور اس کے ا تحادیوں کے درمیان کوئی رسہ کشی نظر نہیں آئی۔ عمران خان کو سیاست کا تجربہ نہیں تھا مگر اس کے ارد گرد سب گھاگ سیاست دان ہیں، آپ کہتے رہیں کہ وہ پرویزمشرف کے ساتھی تھے یا کچھ نواز شریف کے ساتھ تھے مگر اب وہ عمران کے ساتھ ہیں اور ساتھ وہ ہوتا ہے جو نبھا کر دکھایا جائے۔ پنجاب میں محمود الرشید، اعجاز چودھری اور ڈاکٹر یاسمین راشد کو ایک بزدار پر قناعت کرنا پڑی۔ میں سوچتا تھا کہ میرے دوست علیم خان کے ساتھ کیسے انصاف ہو گا۔ اب جو فہرست سا منے ا ٓئی ہے تو وہ سینیئر منسٹر بنا دیئے گئے۔ سینیئر منسٹر بھی چیف منسٹر ہی ہوتا ہے۔ بندہ ا نصاف کرنا چاہے اور تحریک انصاف کے لئے انصاف کرنا کچھ مشکل نہیں، وہ کوئی راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں، علیم خان کو سینئروزیر بنا دیا، میرے لئے وہی چیف منسٹر ہوں گے ا ور ہمارے دیرینہ دوست راجہ بشارت وزیر قانون بن گئے۔ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ستر کے عشرے سے یاد اللہ ہے، انہیں اسپیکر کا جلیل القدر منصب دے دیا گیا، جب گورنر نہ ہو تووہ گورنر ہاؤس سنبھال لیتے ہیں، جس روز ن لیگ کے جیالوں نے کارگل پر دشمنی نکالنے کے لئے میرا ایک گھٹنا توڑا تو اس روز بھی پرویز الٰہی قائم مقام گورنر ہی تھے۔ملک میں نواز شریف بھی نہ تھے۔ شہباز شریف بھی نہ تھے اور گورنر پنجاب بھی نہ تھے۔ اسی لئے پیچھے سے اندھیر نگری مچا دی گئی۔ میں نے اپنے کالموں میں جب کبھی گھٹنا توڑنے پرا حتجاج کیا تو ن لیگ والوں نے دھمکی دی کہ دوبارہ آئے تو دوسرا گھٹنا بھی توڑ دیں گے۔ ن لیگ دوبارہ آئی مگر خیریت ہی گزری۔ انہیں اپنی دھمکی کوعملی جامہ پہنانے کی جرات نہ ہوئی،ا س لئے نہ ہوئی کہ میں مرشد مجید نظامی کی پناہ میں آ چکا تھا۔ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے توا سے بھولا نہیں کہتے۔ مرشد مجید نظامی نے مجھے بے پناہ عزت دی اور لکھنے کی آزادی بھی جو اب تک قائم ہے۔
یہ سخن گسترانہ بات تھی۔ اب نئی حکومت آئی ہے۔ اس کے لئے حکومت کرناایک نیا تجربہ ہے مگر شروعات تو نیک ہیں اور جہت درست دکھائی دیتی ہے۔ سادگی اور کفایت شعاری پر زور ہے۔ وزیر اعظم نے بیرونی سفر کے لئے اپنا جہاز استعمال نہ کرنے کا علان کیا ہے مگر آج کے اخبارات میں دیکھا کہ شہباز شریف راولپنڈی سے نجی طیارے میں لاہورآئے، یہ طیارہ ان کے پاس کہاں سے آیا اور اگر ہے بھی تو پی آئی اے کیوں ناپسند ہے۔وہ زمانہ لد گیا جب وہ انتہائی مصروف تھے، ایک سیکرٹری نے ہنس کر بتایا تھا کہ صبح دو بجے کے بعدمیسیج شروع کر دیتے ہیں۔ مگر اب تو فراغت ہی فراغت ہے، نہ کام نہ کاج۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو کوئی بھی چلا سکتا ہے۔ اس لئے نجی جہاز کی ا ڑان میری سمجھ سے باہر ہے۔ ویسے اگر حکومت سادگی سے کام لے رہی ہو تو عام آدمی کو بھی سادگی کی طرف آ جا نا چاہئے۔ سادگی اور شہزادگی کاا ٓپس میں دور پار کا واسطہ بھی نہیں۔ اکیلی حکومت کی سادگی سے ملک نہیں چلے گا۔، اللے تللے بند کرنے ہیں تو ہر ایک کو بند کرنا ہوں گے۔ جس کام کی توقع عمران سے نہ تھی، وہ انہوں نے کر دکھایا اور اب فضولیات کے قصے ہیں جو ن لیگ کی حکومت سے جڑے ہوئے ہیں، ان کا ایک عام سا شخص خزانے کو بیس کروڑ سے زائد کا ٹیکہ لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کا فیصلہ چیف جسٹس کے پاس محفوظ ہے، دیکھئے میگا منصوبوں کی فرانزک رپورٹس سامنے ا ٓتی ہیں تو کہیں اربوں کھربوں کے گھپلے سامنے نہ آ جائیں۔دیانت داری صرف پروپیگنڈے کا نام نہیں۔ روکھی سوکھی کھانے کا نام ہے۔ ہیلی کاپٹروں پر نہاریاں منگوانے کا نام سادگی نہیں۔ شہباز شریف کو کبھی فرصت ملے تو اس روز کی نواز شریف کی تقریر دوبارہ پڑھ لیں جب انہوں نے ایٹمی دھماکے کئے تھے اور یہی ایجنڈا دیا تھا جس پر آج عمران چل نکلا ہے اور ن لیگ اسے بھول چکی ہے۔