خبرنامہ

خدمت خادم کا ایمان۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ…کالم نگار فقرہ ضائع نہیں کرتا، بندہ ضائع کر بیٹھتا ہے، اسی طرح وہ کوئی نادر فقرہ دیکھے تو کالم لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا جعلی، اس پر نجانے کتنے ہی کالم لکھے گئے۔
اب رمضان المبارک شروع ہوا تو اخبارات میں ایک اشتھار شائع ہوا، جوٹی وی چینلز پر بھی تواتر سے نشر ہو رہا ہے،اس میں ایک فقرہ ہے جسے میں نےء کالم کا عنوان بھی بنایا ہے ، اگریہ فقرہ یوں ہوتا کہ۔۔ خدمت خادم کا اعلان۔۔ تو یقین کیجئے اس پر میرا دھیان بھی نہ جاتا کیونکہ حکومت اعلانات تو ہرروز کرتی ہے اور بعض اعلان تو ضرب المثل بن چکے ہیں مگر ا س فقرے میں اعلاان کے بجائے ایمان کا لفظ استعما ل ہوا، جس کسی نے یہ لفظ نگینے کی طرح یہاں جڑنے کی کوشش کی، اس کو داد دینے کو جی چاہتا ہے، کیونکہ آپ کسی کے اعلان پر تو شک کر سکتے ہیں ایمان پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ ایمان کا تعلق خدا تعالی کی ذات با برکات سے ہے اور وہی ایمان کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ایک صحابی نے کسی کو اس وقت قتل کر دیا جب اس نے ایمان لانے کے لئے کلمہ بھی پڑھ لیا تھا۔ رسول خدا ﷺ کو خبر ہوئی تو پوچھا کہ کلمہ پڑھنے کے باوجود کیوں قتل کیا، جواب ملا، اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، تم غیب کا علم جانتے ہو کہ اس نے کلمہ کیوں پڑھا تھا۔
سو یہ ایمان کا معاملہ ہے اور ہر کسی کو اس پر یقین کرنا ہی پڑے گا، یقین نہ آئے تو رمضان بازاروں میں گھوم پھر کر دیکھ لیجئے، آپ کو خود بخود یقین آ جائے گا، میں نے شادمان بازار سے واپڈا ٹاؤن اور گارڈن ٹاؤن تک کئی بازاروں کو چھان مارا۔یہاں میرے اپنے عزیز بھی جاتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ بازار کے اندر داخل ہونے کے بعد یوں احساس ہوتا ہے جیسے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں گھوم پھر رہے ہیں، رمضان بازار کے لئے پہلی ضروری بات یہ تھی کہ صارفین کو گرمی سے بچانے کا انتظام کیاجاتا۔ یہ انتظام خادم ا علی نے کر دکھایا ۔
رمضان بازاروں کی دوسری ا ور اصلی خوبی یہ ہے کہ کہیں آپ کو خیال بھی نہیں آئے گا کہ آپ کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، خادم اعلی نے ا شیا کی جو قیمتیں مقرر کی ہیں، وہی چارج کی جا رہی ہیں بلکہ ان قیمتوں کی نگرانی کے لئے صوبائی مشینری بنفس نفیس بازاروں میں موجود ہے، میں نے ایک اخبار میں واویلا پڑھا کہ کسی بھی دفتر میں کوئی افسر نہیں ملتا، سبھی رمضان بازاروں میں ہوتے ہیں اور ان دفاتر میں سائل خوار ہوتے ہیں۔سائل؛ ضرور خوار ہوتے ہوں گے مگر لاکھوں کی تعداد میں صارفین بہر حال بڑے مزے اور موج میں ہیں۔وہ رمضان بازاروں میں خوار نہیں ہوتے۔ رمضان میں دفاتر کا وقت ویسے ہی دو بجے ختم ہو جاتا ہے، سائلوں کو اس مختصر وقت میں کیا مل سکتا ہے۔
خادم اعلی اپنی دھن کے پکے نکلے، میں نے فیشن فیشن میں ان کی مخالفت کر دیکھی، لکھ کر بھی اور ان کے سامنے بھری محفل میں بھی، اب مجھے خود اپنے رویئے پرندامت محسوس رہی ہے کہ خواہ مخواہ پاپ کمایا۔ ایک نیک د ل نیک نیت اور دریا دل حاکم کی پہچان سے قاصر کیوں رہا، چلیے جو ہوا ، سو ہوا، مگر یہ جو رمضان کریم کے لئے خادم اعلی نے نو ارب کا بجٹ مختص کیا ہے، اس سے مہنگائی کے اس طوفان سے غریب طبقے کو ضرور ریلیف ملے گا جو اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں نالاں دکھائی دیتا تھا۔
محمود شام کا کالج کے دنوں کا ایک شعر یاد�آرہا ہے:
اب آؤ یہ بھی کر دیکھیں کہ جینے کا مزہ آئے
کوئی کھڑکی کھلے اس گھر کی اور تازہ ہوا آئے
خادم اعلی نے کھڑکی نہیں رحمتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔اس رمضان کو کم از کم ان کے صوبے کی رعایا زندگی بھر فراموش نہیں کر سکے گی اور دل سے دعائیں دے گی کہ خدائے پاک ان کی حکومت کو مستحکم کرے ، وہ چار بار وزیر اعلی بنے، آئندہ اور چار بار بنیں ، پرویز الہی تو مشرف کو دس بار وردی میں صدر بنانے کا اعلان کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا، وزیر اعلی شہباز شریف عوام کی دعاؤں سے لمبے عرصے تک حکومت کر تے رہے ، انکی وزرات اعلی کی طوالت کا شاید پہلے ہی ریکارڈ قائم ہو چکا ہے۔ مگر جو ریکارڈ وہ خدمت خلق کے شعبے میں قائم کر رہے ہیں ، اس کی تو تاریخ میں مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا، شیر شاہ سوری کی ایک سڑک، جہانگیر کا ایک تاج محل۔ عالمگیر کی ایک مسجد،مگر خادم اعلی کی لاہور کے بعد پنڈی ا ور ملتان کی میٹرو بس،لاہور میں زیر تکمیل اور نج ٹرین اور بجلی کے دھڑا دھڑ منصوبے،۔ ان منصوبوں میں چینیوں نے سرمایہ کاری کی ہے، وہ بھی دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں اور شہباز اسپیڈ پر حیران ہوئے جا رہے ہیں۔ بجلی کے منصوبوں کی بات میں نے آدھے فقرے میں ختم کر دی مگر اس پر شاہنامے لکھے جا سکتے ہیں۔یہ شاہنامہ خود شعیب بن عزیز بھی لکھ سکتے ہیں ورنہ مؤرخ تو لکھے گا ہی۔ساہیوال کا کول پراجیکٹ، چولستان کا شمسی توانائی کا پراجیکٹ اور بھکھی کا پراجیکٹ۔کس منصوبے کا ذکر کیا جائے اور کس کا نہ کیا جائے، جس منصوبے کا ذکر نہ کیا توخادم اعلی کے ساتھ ساتھ ،اس منصوبے کا بھی دل ٹوٹ جائے گا۔
شہباز شریف نے کونسا کام سر انجام نہیں دیا، سستی روٹی کے تنور، دانش اسکول،لیپ ٹاپ اسکیم، بورڈ امتحانات میں پوزیشن ہولڈروں کو یورپ کی سیر،آشیانہ اسکیم اور پتہ نہیں کیا کچھ، اگر خادم اعلی اپنے میڈیا مینجرز کو پردے سے نکلنے کی ہدایت فرمائیں اور یہ لوگ میڈیا کو خادم اعلی کے منصوبوں سے آگاہ کرتے رہیں تو شاید میں اس سے بہتر کالم لکھنے کی پوزیشن میں ہوتا۔میں اگرباکل کچھ نہیں جانتا تو وہ آئی ٹی کا فیلڈ ہے جس نے آج بچے بچے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ خادم اعلی اس شعبے میں معجزے انجام دے سکتے تھے ا ور اگر وہ یہ معجزے دکھا چکے ہیں تو کم از کم میں جو بیس برس سے اس شعبے سے وابستہ ہوں ان کے بارے میں میرا علم زیرو ہے ۔ میں ا س لا علمی کو اپنی کوتاہی اورجہالت تصور کرتا ہوں مگر خادم اعلی کی حکومت کے کسی اہل کار نے �آج تک میری اس لاعلمی کو دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، میں خادم اعلی کے علم میں یہ بات لانا چا ہتا ہوں کی جو لوگ کسان نہیں ہیں،ان کو محکمہ زراعت کی طرف سے دوسری کھاد ڈالنے کا ایس ایم ایس بھیجنا، آئی ٹی کی مہارت نہیں۔اور لاہور ٹریفک پولیس کی طرف سے واہ کینٹ کے رہائشیوں کو ایس ایم ایس بھیجنا بھی آئی ٹی کی مہارت نہیں ، پیسے کا سراسر ضیا ہے۔اور یہ جو کچھ ہورہا ہے، اس سے خادم اعلی شاید بے خبر ہیں اور خود یہ کام کرنے والے بھی شاید نہیں جانتے کہ وہ اپنی حدود سے باہر ہو رہے ہیں۔
بہر حال یہ اختلافی نوٹ بے حد معمولی ہے، خادم اعلی جو کارنامے انجام دے رہے ہیں، ان کے پیش نظر شہباز اسپیڈ یا پنجاب ا سپیڈ بھی ایک مبہم اور معمولی اصطلاح ہے، یہ تو ہمالیائی اور جناتی کرشمہ ہے۔
رمضان کریم کا مہینہ نیکیوں اور برکتوں سے معمور ہے اور میں نے بھی لازم سمجھا کہ نیک دل ا ور دریا دل شخصیات کا تذکرہ کر کے خود بھی نیکیاں سمیٹوں ۔خادم اعلی کے ارادے نیک ہیں ۔ فولاد کی بھٹیوں سے زندگی کے سفر کا آغاز کرنے والاا س فولادی عزم کا مالک ہو جائے گا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔چالیس برس سے میرا بھی ان سے ملنا جلنا ہے، وہ ایک مضطرب طبیعت کے مالک تو تھے مگر آہنی اردوں کے مالک بھی بن جائیں گے اور انقلاب آفریں کارنامے انجام دیں گے، سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔