خبرنامہ

دورے اور دھرنے۔۔۔اسداللہ غالب

ہمارے بعض سیاستدان دورے کرتے ہیں اور بعض دھرنے دیتے ہیں۔ دورے کرنے والے جھولیاں بھر کرواپس آتے ہیں اور دھرنا دینے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔اپنی اپنی قسمت!
قطر سے تازہ تریں اطلاع یہ ہے کہ یہ ملک ایک لاکھ پاکستانیوں کو ویزے دے گا۔کیا ہم اس کا کریڈٹ اپنے وزیر اعظم کے دورے کو دے سکتے ہیں۔ کیوں نہیں دے سکتے۔تو اور کس کو دیں۔
میرا ایک فیملی ڈاکٹر ہے بلکہ اب تو فیملی کاحصہ بن چکا،اس سے تعلقات تیس سال پرانے ہیں، میرے سامنے اس کے بچے پید ا ہوئے اور پڑھ لکھ کرجوان ہوئے، ایک دن یہ ڈاکٹر میرے پاس آیاا ور رو پڑا کہ ایک بنک میں میرے بچے کی ترقی کے بعد تقرری قطر میں ہوئی ہے مگر وہاں سے ویزہ نہیں ملا اور اب یہ ترقی واپس ہو گئی ہے، مجھے بھی یہ سن کر ٹھیس پہنچی،ایسے لگا کہ میرے اپنے بچے کا ویزہ ٹھکرا دیا گیا ہو۔مگر حقیقت یہ تھی کہ قطر نے اپنی ویزہ پالیسی پر نظر ثانی کر لی تھی اورا س میں کوئی پاکستانی بڑی مشکل سے فٹ بیٹھتا تھا، تو صبر کے سوا کیا ہو سکتا تھا،ا سی قطر میں ایک امریکی بحری بیڑے کا دفتر ہے، ضرور ہے، قطر نے ا س کی ا جازت دی ہے تو یہ اڈہ قائم ہوا ہے ،قطر ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ ہم بھی ایک زمانے میں آزاد اور خود مختار تھے ا ور ہم نے امریکیوں کو روس کی جاسوسی کے لئے پشاور میں بڈہ بیر کا اڈہ دیا تھا جہاں سے یو ٹو طیارے ا ڑتے تھے، ایک طیارے کوروس نے مار گرایا اوراس کے پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا۔ نہ امریکہ انکار کر سکتا تھا ، نہ پاکستان۔ دونوں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ۔ پھر ہم مزید آزادا ور خود مختار ہوئے تو ہم نے امریکی اور اتحادی فوجوں کو شمسی ایئر بیس دیا جہاں سے مبینہ طور پر ڈرون اڑتے تھے اور پاکستان میں نشانوں پر میزائل مارتے تھے۔ ہم نے نیٹو سپلائی ٹرکوں کو اپنی سڑکیں دیں اور ان سڑکوں کا ستیاناس ہو گیا۔
بہر حال وقت بدلتا ہے ا ور اب یہی قطر ہے جس نے ایک لاکھ پاکستانیوں کو ویزوں کی خوش خبری سنائی ہے۔ اس کے لئے قطر کو بھی دعا دی جائے ا ور اپنے وزیر اعظم کو بھی۔ اگر دل بڑا کر لیں تو سیف الرحمن کو بھی خراج تحسین پیش کر دیں جس نے قطری حکومت سے ایک عرصے سے قریبی تعلقات بنا رکھے ہیں، اب یہ ہمارے کام آ گئے، سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قطری گیس ملنے کا دروازہ کھلا، وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اس سے کارخانے چلیں گے۔ تو یہ بھی وزیر اعظم کے دورے کا فائدہ ہے۔
میں وزیر اعظم کے دورے پر دورے کا ناقد ہوں، سوشل میڈیا والے تو وزیر اعظم پر بہت ہی مہربان ہیںِ، کہتے ہیں کہ وزیر اعظم مختصر دورے پر پاکستان واپس آ رہے ہیں، یہ پڑھ کر زور دار قہقہہ لگانے کو جی چاہتا ہے، ایک زمانہ تھا کہ عطا الحق قاسمی کوبیرون ملک مشاعرے پڑتے تھے، وہ جب کبھی اتفاق سے واپس ملک آتے تو احباب پوچھتے کہ حضرت! پاکستان میں قیام کتنے دنوں کا ہو گا۔
مگر وزیر اعظم نے کوئی دورہ محض سیر وتفریح کے لئے نہیں کیا۔ ہر دورے سے کچھ نہ کچھ حاصل ہوا، کچھ حاصل نہ ہونا بھی حاصل ہونا ہے۔ چین کے دوروں سے تو انہوں نے چینی سرمایہ کاری کے ڈھیر لگا دیئے، کہیں کوئلے سے بجلی بن رہی ہے، کہیں ونڈ پاور اور کہیں سولر انرجی کے منصوبے چل نکلے ہیں۔ لاہور میں ایک انوکھی اورنج ٹرین کا منصوب چل رہا ہے اور تیزی سے زیر تکمیل ہے،ا س میں کچھ دخل شہباز شریف کے دروں کا بھی ہے۔گوادر کی بندرگاہ دھڑا دھڑ بن رہی ہے اورا س سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاک چین اقتصادی کوریڈور کا ناقابل تصور منصوبہ پروان چڑھ رہا ہے، ایک کے بعد ایک سڑک کا افتتاح ہو رہا ہے۔ایک سڑک کے افتتاح میں تو آرمی چیف بھی شامل تھے ا ور وہ اس قدر جذباتی ہو گئے ہیں کہ اس کوریڈور کی حفاظت کے لئے علیحدہ سے ایک ڈویژن کھڑا کرناچاہتے ہیں۔
وزیر اعظم کے دوروں کی دوڑ کا مقابلہ کرنے کے لئے عمران خاں نے دھرنوں کی دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ عمران خان کا ذکر میں ایک دوست کی حیثیت سے کرتا ہوں، دوست کے طور پر مجھے ا س سے ہمدردی ہے، اس لئے اس کی جو حرکات بری لگتی ہیں، ا ن پر ٹوکنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ عمران خاں کے دوست اور بہت ہیں جو میری باتوں پر جز بز ہوتے ہیں۔ ان میں ایک کوئی قصوری ہے جو بے نام رہ کر مجھے خط لکھتے ہیں ا ور صلواتیں سناتے ہیں۔ میں انہیں اورعمران خان کے دوسرے چاہنے والوں سے کہنا چاہوں گا کہ عمران خان کا دھرنے والا گناہ تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ مؤرخ کا قلم بڑا بے رحم ہوتا ہے ا ور وہ جب تاریخ لکھے گا تو کسی قصوری کی خوشنودی کے لئے نہیں لکھے گا۔چین جیسے ملک کے صدر کے دورے کو رکوانا پاکستان کے کسی دشمن کی خواہش تو ہو سکتی ہے، کسی پاکستانی کی نہیں، خواہ وہ کتنا ہی کٹھور دل کیوں نہ ہو۔ میں عمران خان کو سچا پاکستانی سمجھتا ہوں مگر وہ کسی کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہے ا ور حیرت یہ ہے کہ اسے اس کی خبر کیوں نہیں۔چین کے صدر کے دورے کو رکوانا بھارت کی کوششوں کاحصہ ہے۔امریکہ ا ور پوری مغربی دنیا بھی پاکستان اور چین کی قربت کو برداشت نہیں کر سکتی۔اور دیکھئے کہ یہ دورہ ایک سال بعد ہوا ا ورا س کے نتیجے میں پاک چین اقتصادی کوریڈور کا سب سے بڑا معاہدہ ہوا مگر اسے روکنے کے لئے اکیلا عمران ہی نہیں، بہت سارے اداکار سامنے آگئے، پرویز خٹک کو تو جیسے بد خوابی کی شکایت ہے، ان کا تازہ تریں ارشاد ملاحظہ فرمایئے کہ مغربی روٹ تو کوریڈور کاحصہ ہیں نہیں، بھلے مانس! یہ تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کوریڈور نے کسی اڑن طشتری کو استعمال کرنا ہو یا اسے کسی چھاتے کے ساتھ باندھ کر خنجراب سے آگے شمال مغربی سرحدی صوبے کے اوپر سے گزار کر گوادر پہنچانے کا طریقہ ایجاد کر لیا گیا ہو۔
دورے ا ور دھرنے میں جتنا فرق ہے، وہی فرق نواز شریف اور عمران خاں میں ہے۔ اور سمجھنے والوں کے لئے یہ فرق زمین اور�آسمان کے فرق کے برابر ہے۔

Back to Conversion Tool