خبرنامہ

دھاندلی تو عمران خان کے خلاف ہو گئی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

دھاندلی تو عمران خان کے خلاف ہو گئی

پچیس جولائی کو پولنگ ہوئی۔اب دس روز گزر چلے ہیں۔ عمران خان حکومتیں تشکیل نہیں دے سکا۔بڑا شور تھا کہ خلائی مخلوق اس کی مدد کر رہی ہے۔ کسی نے فوج کی طرف انگلیاں اٹھائیں تو فوج نے کہا کہ وہ خدائی مخلوق ہے۔ اگر یہ خلائی یا خدائی مخلوق عمران کی پشت پر ہوتی تو وہ اتنی طاقتور ضرور تھی کہ عمران کو دو تہائی سے زائد اکثریت دلوا دیتی۔ مجھے تو شہباز شریف کی جگت درست لگتی ہے کہ عمران خان کے پیچھے بیت الخلائی مخلوق ہے۔ یہ اخلاق سے گری ہوئی بات تھی مگر جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ بیت الخلائی مخلوق سے بھی زیادہ کسی گٹر کی مخلوق کی کارستانی لگتی ہے۔اس قدر گندہ رزلٹ کہ جیتنے والا ہر وہ کام کرنے پر مجبور ہوگا جس پرا س نے ہزار ہزار نفرین بھیجی تھی۔
شاید عمران خان کو ابھی اپنی اکثریت کا یقین نہیں اور خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ن لیگ میں ایک فارورڈ گروپ بنوایا جائے گا۔ اس ملک کی سیاست پر ایسامنحوس سایہ پڑ گیا ہے کہ جیت کر بھی عمران خان کو جیت کا یقین نہیں ہو رہا، مجھے اس صورت حال پر دکھ ہوتا ہے، کتنے پاپڑ اور بیلنے پڑیں گے۔ نواز شریف، اس کی بیٹی مریم۔ اس کے داماد صفدر کو اڈیالہ میں بند کر دیا گیا۔ ن لیگ کے کئی لیڈروں کو نااہل کیا گیا،انہیں جیل بھی ڈالا گیا۔ بہت پہلے بلوچستان اسمبلی میں ایک بغاوت کروا ئی گئی۔ اس بغاوت کے بطن سے بلوچستان کو ملکی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کی چیئرمینی ملی۔ خیال یہ تھا کہ عام انتخابات کے نتائج بھی اسی طرح حیران کن اور خیرہ کن ہوں گے مگر صرف اتنا ہواکہ کچھ بڑے برج الٹائے گئے۔اس کے باوجود عمرا ن کی پارٹی کو سادہ اکثریت بھی نہ ملی۔ میں اب حیران ہوتا ہوں کہ اگر عمران کسی کالاڈلا تھا تو اس کی بائیس سالہ پرانی معصوم سی خواہش کو آسانی سے پور ا ہونے کا موقع کیوں نہیں ملا۔ اسے ایک ایک رکن اور ایک ایک پارٹی کی منتیں ترلے کرنے پڑ رہے ہیں۔میں عمران خان کی جگہ ہوتا تو اس الیکشن کو اسی طرح مسترد کر دیتا جس طرح بلاول، اچکزئی، سراج الحق، شہباز، شیر پاؤ اور مولانا فضل الرحمن نے بلا سوچے سمجھے رزلٹ مسترد کر دیئے تھے۔
عمران خان تنہائی میں بھی اور اپنی کور کمیٹی میں بھی بیٹھ کر سوچتا تو ہو گا کہ اس کے ساتھ کیا اندھیر گردی مچ گئی۔
میں الیکشن سے پہلے غیر جانبدارانہ اور غیر متعصبانہ اندازہ لگاتا تھا تو مجھے صاف نظر آتا تھا کہ عمران خان بڑی آسانی سے سادہ اکثریت تو لے ہی جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں نے اپنے اندازوں کا لکھ کر اظہار نہیں کیا۔ میرے اندازوں کی بنیاد عمران خان کی ان تھک جدو جہد تھی جو بائیس برسوں پر محیط تھی۔ میرے اندازوں کی بنیاد الیکٹ ایبلز کی غول در غول پی ٹی آئی میں شمولیت تھی۔ان الیکٹ ایبلز کو آج تک کوئی شکست نہیں دے سکا مگر یہ سب کے سب بری طرح پٹ گئے۔
قسمت خراب ہو تو پولنگ کے دوران سست رفتاری بھی کسی کام نہ آئی اور پولنگ ختم ہونے کے بعد نتائج اکٹھا کرنے کی ٹیکنالوجی جس طرح زمیں بوس ہوئی اور نتائج مرتب کرنے میں دھاندلی کے الزامات بھی سننے کو ملے تو اس ساری ایکسر سائز کا فائدہ کیا ہوا۔ کچھ بھی تو نہیں، ذرہ بھر بھی نہیں۔عمران ایک انقلاب کی باتیں کرتا رہا، اس انقلاب کے لئے اسے فری ہینڈ درکار تھا۔ مگر آزاد ارکان اور چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اس کے پاؤں کی زنجیر بنی رہیں گی۔ ایک روٹھے کو منائے گا تو دوسرا روٹھ جائے گا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ حتی کہ عمران مایوس ہو جائے گا۔اور یہ مایوسی عمران کے ساتھ پاکستان کی مایوسی بھی ثابت ہو گی۔ کیا یہ ہے الیکشن کا نتیجہ۔ ایساکیوں ہے کہ دنیا میں ہر انقلاب کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،انقلاب فرانس مایوسی کی قبر میں اتر گیا، ایران کے انقلاب کاکہیں نا م و نشان نہیں ملتا۔ اب ستر سال بعد لوگوں کو ایک امید دلائی گئی تھی کہ ان کی زندگی بدل جائے گی۔ دو پاکستان نہیں ایک پاکستان ہو گا، قانون سب کے لئے برابر ہو گا۔ مواقع سب کے لئے یکساں ہوں گے۔ کوئی کسی کا استحصال نہیں کر سکے گا مگر انقلاب کی داغ بیل ڈالنے اور اسے سرے چڑھانے کے لئے عمران خان کے ہاتھ پاؤں بندھے نظر آتے ہیں، وہ ہر لمحے اپنی گنتی پوری کرتا پھرے گا، ا س کے پاس ایک ریوڑ ہو گا جس میں سے کسی کارخ مشرق کی جانب ہو گا اور کسی کامغرب کی طرف۔ ایک قبلے کا رخ سارے نہیں کر سکیں گے۔ تو سوچئے کہ عمران کی ذہنی حالت کیا ہو گی۔ میں اس صورت حال کا اندازہ لگاتا ہوں تومیرا سر چکر اکے رہ جاتا ہے۔عمران خان تو مجھ سے زیادہ حساس ہو گا۔
اب اپوزیشن اتنی تگڑی ہے کہ بھٹو کے خلاف بھی اتنی بڑی اپوزیشن نہ تھی۔ ایوان میں چند سر پھرے تھے۔ انہیں اٹھا کر ایوان سے باہر پھینک دیا جاتا تھا مگر اب سینکڑوں اپوزیشن ارکان کو کیسے باہر پھینکا جاسکے گا، ان کی زبانیں کیسے بند کی جا سکیں گی۔ ان کی تگڑم بازی کا کیسے توڑ کیا جا سکے گا۔دوسری طرف سینیٹ کے تیور بگڑے بگڑے ہیں۔یہاں شاید ہی وزیر اعظم کو ویلکم کیا جا سکے گا۔ سینیٹ سے کسی بل کو تھرو کرانا تو محال ہی نہیں نا ممکن ہو گا۔
جس کسی طاقت نے عمران خان سے کوئی امید باندھی تھی تو پھر اسے سادہ اکثریت تو دلوائی جاتی۔تاکہ اسے حکومت سازی کے لئے ایک ایک در پہ دستک نہ دینا پڑتی۔شوکت خانم ہسپتال کے لئے ایک ایک دروازے پر دستک تو نیکی تھی مگر یہ حکومت سازی کی مجبوری، ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے۔
میں پرانی کہانیوں میں نہیں جاتا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار نواز شریف سے بھی امید باندھی تھی کہ وہی ملکی معیشت کو دیوالیہ پن سے بچا سکتا ہے اور اسے دو تہائی اکثریت دلوائی گئی۔ اس اکثریت کی بنیاد پر نواز شریف نے بھارتی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کر دکھائے مگر یہ اندھی اکثریت اس کی حکومت اور جمہوریت کو لے کر بیٹھ گئی۔ بھٹو کو بھی طیارہ بھیج کر جنیوا سے بلوا کر ملک کا پہلا سویلین چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بنایا گیا، اس کے پا س قاتلانہ اور وحشیانہ اکثریت تھی،اس طاقت کے نشے میں وہ اپنی زندگی کی بازی ہی ہار گیا۔
عمران کو دھیمے دھیمے قدم اٹھانے چاہئیں۔ عقابوں کو بنی گالہ سے دفع دور کر دینا چاہئے۔ نرم خوئی، خوش گفتاری،عاجزی اورانکساری کارویہ اپنانا چاہئے۔شاید وہ قدم جمانے میں کامیاب ہو ہی جائے۔
الیکشن سے ایک ہفتہ قبل عمران خان کو اس امر کی بھنک پڑ گئی تھی کہ ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آئے گی، اس نے اسے بد قسمتی قرار دیا۔اب اسے نئے اشارے مل رہے ہیں۔ اس نے پشاور پارٹی اجلاس میں کہا کہ وہ بارہ اگست کو حلف اٹھائے گا۔ پھر خبر آئی کہ وہ ڈی چوک میں حلف کی تقریب برپا کرے گا۔ پھر خبریں اڑیں کہ وہ سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو کرے گا۔ پھر خبریں اڑیں کہ بھارت سے کھلاڑی اور اداکار بہت بڑی تعداد میں حلف کی تقریب دیکھنے آئیں گے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔امریکہ سے منحوس خبر آئی ہے کہ اس نے پاکستان کی امداد میں کمی کر دی ہے۔ زمباوے سے خبر آئی ہے کہ اس کی کرکٹ ٹیم پاکستان کھیلنے نہیں آئے گی کہ یہاں سیکورٹی ناقص ہے۔۔ گلگت سے خبر آئی ہے کہ شر پسندوں نے درجنوں سکول تباہ کر دیئے۔ شگون اچھے نہیں ہیں۔ عمران خان کو یہ سب کچھ ذہن میں رکھناچاہئے۔