خبرنامہ

دہشت گردی۔ الزام مودی کو دیں یا ٹرمپ کو۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بلوچستان میں پھر خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔اس دہشت گردی کے لئے جو وقت چنا گیا، وہ قابل غور ہے، سی پیک کی بسم اللہ ہو رہی ہے، چینی تجارتی مال سے لدے ٹرک گوادر پہنچ چکے، ان کا سامان ایک بڑے بحری جہاز پر لاد دیا گیا، اتوار کو وزیر اعظم نوازشریف نے اس بحری جہاز کی روانگی کی تقریب میں شرکت کرنا تھی، اس عظیم واقعے پر خون کے چھینبٹے کیوں اڑائے گئے، ا سکی وجہ سمجھنے کے لئے افلاطون ہونا ضروری نہیں۔ مودی اپنی زبان سے اقرار کر چکا ہے کہ وہ بلوچستان کو حقوق دلوا کر رہے گا، اوہ بلوچ باغیوں کو پناہ دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔اس کے لئے مودی کے پاس بے گناہ بلوچوں ہی کا خون بہانے کے سوااورکیا طریقہ ہے۔
مگر میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی مودی کے سر الزام نہیں دھرے گا۔ بلکہ یہ شور مچائے گا کہ ہماری حفاظت نہیں کر سکتے تو ہمیں الگ کردو۔
سی پیک ا ور گوادر کا اور دشمن کون ہے، آپ بلا سوچے سمجھے کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا اور اس دنیا کا نیا تاجدار ڈونلڈ ٹرمپ ہے جس کی نفرت انگیز باتیں ہر ایک کو حفظ ہو گئی ہیں۔ مگر مین یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو شاہ نورانی کی درگاہ پر دھمال ڈالنے والوں کی موت کا ذمے دار نہیں ٹھہرائے گا۔
ہمارے دشمن نے ایسا بندو بست کر لیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا ہی گریبان نوچیں۔ یہ کام ہم سے زیادہ بہتر کون کر سکتا ہے۔ اکہتر میں ہم نے ایک دوسرے کے گلے کاٹے، ایک دوسرے کے خلاف گھیراؤ جلاؤ کیا اور بالاآخر بھارت کومداخلت کا موقع مل گیا۔ خدا کی پناہ ! کیا بلوچستان میں یہ کھیل شروع ہو گیا ہے۔
میں تیزی میں بہت آگے نکل گیا ہوں ، مجھ پر واجب ہے کہ درگاہ کے شہیدوں پر کف افسوس ملوں،، ان کے ورثا ء سے اظہار تعزیت کروں، ان کے ہاتھوں میں پانچ دس لاکھ کے چیک نہ تھماؤں، ان کو سینے سے لگاؤں اور انہیں اپنے دل کی بے ترتیب دھڑکن سناؤں کہ یہ دل ان کے دکھوں پر کس قدر مضطرب ہے۔
بلوچستان میں سرداری نظام ہے، ان کی اپنی اپنی ملیشیا ہے جس کو پالنے کے لئے حکومت پاکستان سے وہ باقاعدگی سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔صوبے کا بہت تھوڑا رقبہ پولیس یا ایف سی کے کنٹرول میں ہے، ان سے کام لینے کی ذمے داری کوئٹہ میں براجمان گورنر صاحب بہادرا ور وزیر اعلی، چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس پر عائد ہوتی ہے، گورنر سے کوئی سوال نہیں کر سکتا، وہ ایم این ا ے اچکزئی کے بھائی ہیں ، وہ اچکزئی جو جمہوریت کی حفاظت کا مورچہ سنبھالے ہوئے ہے، یہی ایک معرکہ سرا نجام دینا ان کا بڑا معرکہ سمجھا جاتا ہے، باقی رہے وزیر اعلی تو انہیں وفاقی حکومت کی بھر پور سرپرستی حاصل ہے، اس کے باوجود وہ کارکرگزاری نہ دکھائیں تو ان کیلئے دعا کی ضرورت ہے کہ اللہ انہیں فرائض منصبی نبھانے کی توفیق عنایت فرمائے۔
بلوچستان کی سرحد پر ایک بھارتی دہشت گرد کل بھوشن سنگھ یادیو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، وہ را کا ایجنٹ ہے، بلوچستان یا ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے تخریب کاری کا نیٹ ورک چلا رہا ہے، شاید آدھ سال گزر گیا، ہم اس سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکے کہ بھئی، اپنے ساتھیوں اور ان کے کالے کرتوتوں کی خبر تو دے دو، تاکہ ا ن کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکے، کل بھوشن دوسرا کشمیر سنگھ ہے، جسے ہمارے ایک وزیر جھنڈے والی کار میں واہگہ چھوڑنے گئے اور سرحد پار قدم رکھتے ہی اس نے اعلان کر دیا کہ وہ جھوٹ موٹ مسلمان ہو گیا تھا صرف جان بچانے کے لئے جیلروں کو دھوکہ دیا تھا۔ اورا س میں وہ کامیاب رہا، کوئی دن آئے گا کہ کل بھوشن بھی کسی جھنڈے والی کار میں بیٹھ کر واہگہ پہنچا دیا جائے گا، ہم اسے مستقل مہمان تو نہیں بنا سکتے۔اوراس اثناء میں کل بھوشن کے گروپ کے لوگ صوبے کے طول وعرض میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے رکھیں گے۔ان کی ایک ہی ڈیوٹی ہے کہ سی پیک کی آخری منزل اور علاقے کی جدید تریں بندرگاہ گوادر میں بے چینی کو ہوا دینی ہے تاکہ کوئی بیرونی سرمایہ کار ادھر کا رخ نہ کرے۔
میراایمان ہے کہ یہ اوچھے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔دشمن ہمیں بزدل نہیں بنا سکے گا۔جہاں تک سی پیک کے روٹ کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے، ا سکے لئے چینی حکومت کوپاک فوج نے پکی ضمانت فراہم کر دی ہے ا ور ایک کے بجائے دو خصوصی ڈویژن چینی قافلوں اور کارکنوں کی حفاظت پر مامور ہوں گے،دشمن اب سیدھا وار تو نہیں کر سکتا،ا س لئے وہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ا ور ہمیں کبھی عقب سے کبھی پہلوسے نشانہ بنانے کو کوشش میں مصروف ہے، بھارت تو کھلا دشمن ہے مگر چین کی گوادر تک آمد کو باقی دنیا بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر نے کے لئے تیار نہیں۔ٹرمپ کی آمد کے بعد یک نہ شد دو شد والا محاورہ صادق آتا ہے اور اب دو موذی اکٹھے ہو گئے ہیں، پاکستان کو ان حالات میں ضرورت سے زیادہ چوکسی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اوراس کا طریقہ یہ نہیں کہ انیس نومبر کو ترک صدر کو بلا کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس ے خطاب کاموقع دیا جائے، ترکی نے پندرہ برس سے امریکی اور بیٹو افواج کے ساتھ افغان عوام کو نشانہ بنا رکھا ہے ا ور اب کئی برس سے اپنے ہمسایہ شام کے عوام کا خون بہانے میں مصرف ہے، ترکی کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس نے فوجی بغاوت کو کچل ڈالا ہے مگر یہ خوبی باقی برائیوں پر حاوی نہیں ہو سکتی ،ا سلئے ترکی کبھی ہماراماڈل نہیں ہو سکتا، ہم نے یہ عزت دینی ہے تو چین کے صدر کو دیں یا ورس کے صدر کو مدعو کر یں اور انہیں پارلمینٹ سے خطاب کاموقع فراہم کریں،یہ ممالک ہمارے پائیدار دوست ہو سکتے ہیں وہ مودی اور ٹرمپ کے مقابل ہمارے ساتھ کھڑے رہ سکتے ہیں، روسی صدر کو تو ٹرمپ سے قربت کا بھی دعوی ہے، اس لئے ا سکا دل جیتنا ہماری اولیں ترجیح ہونی چاہئے۔
لیجئے،۔ہ م نے زندہ قوم ہونے کا ثبوت فراہم کیا، ہمارے وم وطنوں کی لاشیں گر کر کوئی ہمارے عزم کوکمزور نہیں کر سکا، گوادر کا افتتاح ہو گیا، پہلا چینی تجارتی بحری جہاز اس بندر گاہ سے روانہ ہو گیا۔ یہ بسم اللہ ہے ا ور ابھی ہمیں منزلوں کی طرف بڑھنا ہے۔منزلیں جو زیادہ دور نہیں ہیں۔ترقی اور خوش حالی کی طرف برق رفتاری سے سفر جاری رکھنا ہے۔