خبرنامہ

دہشت گردی کا خاتمہ۔ میڈیا سے وزیر اطلاعات کی توقعات۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ.. وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات محترمہ مریم اورنگ زیب نے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں آگے بڑھ کر کردار ادا کرے اوراس فتنے کے خلاف عوامی شعور کو اجاگر کرے۔محترمہ مریم اورنگزیب نے میڈیاسے جس توقع کاا ظہار کیا ہے، اسے صائب مشورہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کسی بھی ملک میں میڈیاکو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ عوامی رائے کو بنانے ارو بگاڑنے میں میڈیا کاا ہم اور کلیدی رول ہے، ان دنوں سوشل میڈیا نے اودھم مچا رکھا ہے مگر اس کا حل کسی اور کے ہاتھ میں ہے، پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز بڑی حد تک ذمے دارانہ کردارا دا کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کو تنہا کرنے میں انہوں نے بہت بڑی مہم چلائی ہے، کم از کم اس ملک میں کوئی دہشت گردوں کو کو ئی ہیرو نہیں سمجھتا، عوامی سوچ کی ا س تبدیلی کا سہرا میڈیا کے سر سجتا ہے۔
میں محترمہ سے کبھی ملا نہیں اور انہوں نے جب سے نئی ذمے داری سنبھالی ہے،ا سوقت تک ان کے بارے میں کچھ جانتا بھی نہیں تھا مگر ان کا ٹاسک بڑا ہمالیائی نوعیت کا تھا، ان کو دو بڑے بحرانوں کا سامنا تھا، ایک پانامہ لیکس کا ہنگامہ عرصے سے چل رہا تھا اور اوپر سے نیوز لیکس نے قوم کو چکرا کر رکھ دیا تھا اور قوم کے ذہنوں میں خلجان پیدا کر دیا تھا، دونوں بحرانوں کے ضمن میں انہیں حکومت کا دفاع کرنا تھا جبکہ ان کے سامنے مخالفیں کی ایک قفوج ظفر موج تھی، عمران اور ان کی تحریک انصاف تو سرگرم عمل تھی ہی، اوپر سے مسلم لیگ کے بظاہر اتحادی زرداری صاحب بھی لنگر لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اتر پڑے ا ور جماعت اسلامی نے اپنے سربراہ سراج الحق کی قیادت میں بھی مخالف مورچہ سنبھال لیا۔اس ماحول میں محترمہ کو ایک چومکھی جنگ لڑنا پڑی۔انہوں نے تحمل، بردباری، سنجیدگی سے کام لیا اور اپناموقف محکم انداز میں عوام کے سامنے رکھا، سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیوزلیکس کی تحقیقاتی رپوٹ نے ان کے موقف کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کی اور اب وہ کئی ماہ گزرنے کے بعد ایک میچور اور منجھے ہوئے سیاستدان اور مدبر وزیر کی حیثیت سے بھر پور خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔اور اپنے ٹاسک کو نبھا کر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوا لیا ہے۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔
دشہت گردی کے خاتمے میں میڈیا تو اپنا کردار ادا کر ہی رہا ہے بلکہ میڈیا کو دادد ی جانی چاہئے کہ اس نے اس جنگ میں قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، چینلز کے رپورٹرا ور فوٹو گرافر تو اکثر دہشت گردی کی زد میں آئے۔عام سیکورٹی ا داروں کی طرح میڈیا کو اپنے دفاع کی تربیت نہیں دی جاتی۔ اس کی طر ف میڈیا مالکان کو توجہ دینی چاہئے اور سیکورٹی اادروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کی تربیت کاا نتظام و انصرام کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن نے بڑی عیاری ا ور ہوشیاری سے ہماری صفوں میں تفریق پیدا کر دی ہے۔ رنگ ونسل کے تعصبات توایک پرانی بیماری ہے، اب زبان ، علاقے اور مذہب کی بنیاد پر نفرتیں پھیلائی جا رہی ہیں ، ایک ہی فرقے کے اندر کئی دھڑے جنم لے چکے ہیں اور وہ باہم جوتم پیزار ہی نہیں، ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں۔ اور بیرونی طاقتیں ان کی مالی، اخلاقی، سیای، سفارتی سطح پر خوب خوب پیٹھ ٹھونک رہی ہیں۔کہیں مقامی اور مہاجر کا جھگڑا ہے، کہیں پانی کی تقسیم کا فتنہ بھڑک رہا ہے۔سبھی چاہتے ہیں کہ بس گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یارپھرے، ہمیں بد قسمتی اپنے علاوہ کسی دوسرے کاوجود گوارا ہی نہیں۔ اور یہ سب کچھ مذہب کی بنیاد پر ہو رہا ہے، اس طرح مذہب کو ناحق بد نام کیا جا رہا ہے، بلکہ اس کا چہرہ مسخ کر دیا گیا ہے۔اسلام توامن کا درس دیتا ہے مگر انتہا پسندی نے مسلمانوں کا تشخص بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور دنیا میں کہیں بھی کوئی واردات ہو جائے تو مسلمان تنظیم جھٹ اس کی ذمے داری قبول کر لیتی ہیں۔
محترمہ وزیر صاحبہ نے ٹھیک کہا ہے کہ میڈیا اس صورت حال کو بہتر بنانے میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیا ہے، میڈیا کا دوسرا نام پروپیگنڈہ ہے اور ہٹلر کے مشیر گوئبلز نے تو کہا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو، اتنا جھوٹ بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے ا ور لوگ خواہی نخواہی اس پر یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ آج اگر ہمارا میڈیا یہ تہیہ کر لے کہ وہ ہر فتنے کے خلاف تن کر کھڑا ہو گا اور انتہا پشندی کی مذمت میں پیش پیش رہے گا،خود کش بمباروں کو یہ ذہن نشین کرائے گا کہ ان معصوموں کو تو صرف آلہ کار کے طور پر استعما ل کیا جارہا ہے اور یہ دھماکے کسی جنت کا ٹکٹ نہیں ہیں، اسی طرح مذہبی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لئے میڈیا لوگوں کے ذہنوں کی تطہیر کر سکتا ہے ۔ایک دوسرے کے خلاف منافرت کو انسانیت کے خلاف جرم کے طور پر پیش کرے، بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے خبریں ، کالم تجزیئے اور ٹاک شوز پیش کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشت گردی کی آگ کو مزید بھڑکنے سے پہلے بجھایا نہ جا سکے۔یہ میڈیا ہی ہے جو حب الوطنی، یک جہتی، اتحاد ، تنظیم اور ایمان کے جذبات کو اجاگر کر سکتاہے۔ اور ہم سب نے دیکھا کہ آرمی پبلک اسکول کے پھول جیسے معصوم بچوں کی شہادت کے بعد میڈیا نے قوم میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے اور نیشنل ایکشن پلان کا پابند بنانے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ حکومت ا ور فوج کے درمیان ہم اہنگی کی فضا پیدا کی جس سے پاکستان اس قابل ہوا کہ کم از کم فاٹا کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا، بلوچستان میں بھی قیام امن کے لئے فورسز کی کوششوں کی تحسین میں میڈیا پیش پیش رہا، اور کراچی کے گنجلک مسائل کو سلجھانے میں رینجرز اور حکومتی کوششوں کو مثبت طور پر پیش کیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، کراچی ایک بار پھر شہر اماں بن چکا ہے،ا س کی روشنیاں جگمگا رہی ہیں اور لوگ سکون کی نیند سوتے ہیں۔
محترمہ وفاقی وزیر کو میڈیا کے ا سکردار کی توصیف وتحسین کرنی چاہئے اور ا سکے لئے میڈیا کے ساتھ سے دو طرفہ مستقل رابطہ استوار رکھنا چاہئے۔