خبرنامہ

دہشت گردی کی جنگ کا قبلہ۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ…آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے تازہ ترین بیانات سے لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کا قبلہ درست ہو گیا ہے۔
کسی کو شک نہیں کہ ہم بھارتی دہشت گردی کا نشانہ ہیں۔مگر ہمارے راہنما بھارت کا نام لینے سے کتراتے ہیں جبکہ بھارت میں پتہ بھی کھڑکے تو بلا سوچے سمجھے اس کاا لزام پاکستان پر دھر دیا جاتا ہے۔پاکستان میں بھارت کے لئے نرم گوشہ ہے یا ہم بھارت کی قوت سے خائف ہیں، مجھے اس کا صحیح اندازہ نہیں۔ یہ بیانات تو ہر کوئی دیتا ہے کہ اگر بھارت نے آئندہ کوئی شرات کی تو اسے اعلان جنگ سمجھا جائے گا مگر کبھی کسی نے یہ واضح نہیں کیا کہ بھارت وہ کونسی شرارت کرے جسے اعلان جنگ سمجھا جا سکتا ہے، بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کے دعوے کئے جاتے ہیں، سرجیکل اسٹرائیک کے اعلانات بھی ہوتے ہیں،یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ؒ خلاف دہشت گردی کے لئے افغان سرحد پر درجنوں قونصلیٹ قائم کر رکھے ہیں، ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بھارت کے ان قونصل خانوں میں افغان دہشت گرد تیار کئے جاتے ہیں، ویسے بھارت کو جس قومیت کے لوگ مل جائیں وہ انہیں بارودی جیکٹ پہنا کر پاکستان میں داخل کر سکتا ہے، اے پی ایس اور کراچی ایئر پورٹ کی دہشت گردی میں ازبک چہرے بھی لاشوں کے ڈھیر میں دیکھنے کو ملے۔لاہور کے سانحے میں پولیس کی تفتیش کے مطابق افغان شہری کو استعما ل کیا گیا۔ مگر ظاہر ہے، ازبک ہو یا کوئی افغان یا کوئی پاکستانی ، انہیں پاکستان سے کیوں اور کاہے کا بیر ہو سکتا ہے، لازمی طور پر انہیں کوئی دوسری طاقت استعمال کر رہی ہے جو پاکستان کی دشمنی میں اندھی ہو چکی ہے اور پاکستا ن کے بے گناہ شہریوں کا خون بہانے سے اسے لطف ملتا ہے۔ یہ طاقت سوائے بھارت کے اور کوئی نہیں۔ اس کے لیڈر کھلے عام پاکستان کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔مرضی کا وقت ا ور مرضی کا مقام، یہ ہے ان کی زبان۔مگر کیا مجال ہمارے ہاں بھارت کو اس زبان میں جواب دیا جائے۔
اب جنرل باجوہ نے یہ کہہ کر کسی حد تک دہشت گردی کی جنگ کا قبلہ درست کر دیا ہے کہ ایک تو ہم کل بھوشن کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ا ور دوسرے پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم سے ہم اچھی طرح باخبر ہیں اور کنٹرول لائن پر اس کی چھیڑ چھاڑ پر اسے اچھا سبق سکھائیں گے۔
مگر بھارت سے نبٹنااکیلے فوج کی ذمے دارئی نہیں ا،س کے لئے پوری قوم کو یک سو ہونا چاہئے۔ اور قوم نے اگر پیٹ پر پتھر باندھ کو ملک کو ایک ایٹمی قوت بنا دیا ہے تو پھر کونسا خوف ہے جو ہمیں بھارت سے نبٹنے میں مانع ہے۔ہر کوئی جانتا ہے کہ ایٹمی قوت استعمال کے لئے نہیں ہوتی ، بلکہ جنگ کے خطرے کو روکنے کے لئے ہوتی ہے، مگر اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری ایٹمی قوت سے بھارت کو قطعی خو ف و خطر نہیں، اسکی وجہ کیا ہے، کیا اسے شبہہ ہے کہ ہم ایٹمی قوت نہیں ہیں، کیا ہم نے اٹھانوے میں ایٹمی دھماکے نہیں کئے تھے، کیا ہمارے پاس ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والاے میزائل نہیں ہیں۔ جب یہ سب کچھ ہمارے پاس موجود ہے تو پھر ہمیں کس چیز کا خوف لاحق ہے، یا ہم ضرورت سے زیاد ہ امن پرست ہو گئے ہیں، امن پسندی بری بات نہیں لیکن آئے روز بے گناہوں کی لاشیں گرتی رہیں تو کیسا امن اور کہاں کا امن۔ہماری امن کی خواہش یک طرفہ ہے اور دنیا اس کے لیے ہماری ستائش بھی نہیں کرتی۔بلکہ ہمارا مضحکہ اڑاتی ہے۔
بہر حال آرمی چیف کے اس بیان سے دل کو تسلی ہوتی ہے کہ کوئی ایک ادارہ تو ایساموجود ہے جسے حقیقی دشمن کی پہچان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے قوم بھی ا س ادارے کی پشت پر کھڑی ہو۔ بھارت میں حکومت، فوج اورعوام پاکستان دشمنی کے اشو پر متحد ہیں ، ہمیں بھی اپنی سوچ کے دھارے درست کرنے چاہیءں اور سبھی کوایک پیج پر نظر آنا چا ہئے ا ور یک جان ہو کر بھارت کی شیطنت کا خاتمہ کرنا چاہئے۔
یہ درست ہے کہ جمہوری نظام میں پالیسیوں کی باگ ڈور منتخب حکومت اور عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس لئے اگر ہم نے دہشت گردی کے فتنے پر قابو پانا پے تو حکومت ا ور پارلیمنٹ کو یک سو ہوناہو گا۔ اکیلی فوج کو نہ تو کوئی ایکشن کرنا چاہئے ، نہ وہ قوم کی تائید کے بغیر کسی ایکشن میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
اس وقت اکٹھے مل کرچلنے کے لئے ایک نیشنل ا یکشن پلان کا پلیٹ فارم موجود ہے۔ اسے فعال بنایا جائے، اور حکومت کو قومی اتفاق رائے کے لئے پہل کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کو تازہ کرنا چاپیئے۔
پاکستان ایک نعمت ہے، قدت کا عطیہ ہے، ہمیں ا سکی دل و جان سے قدر کرنی چاہیئے،بیرونی دنیا تعصب میں مبتلا ہے اور خاص طور پر امریکی صدر ٹرمپ تو مسلمانوں کے خلاف عناد کامظاہرہ کر رہا ہے۔ ان حالات میں وطن کی فکر کر ناداں، قیامت آنے والی ہے، تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیءں، اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور پاکستان کی اس حیثیت سے فائدہ اٹھانا چاہئے جو ایک ایٹمی قوت کے ناطے اسے حاصل ہے۔مثل مشہور ہے کہ گن کی اہمیت تو اپنی جگہ پر مگر اصل بات یہ ہے کہ گن کے پیچھے کون ہے یعنی۔۔ مین بی ہائینڈ دی گن ۔۔۔ اگر ہمار عزم کمز ور اور بودا ہے تو ایٹم بم اور میزائل ہماری حفاظت سے قاصر رہیں گے، سووئت روس اس حشر سے دوچار ہو چکا ہے، یہ حشر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،اب سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ہمیں اس حشر سے بچنا چاہئے۔