خبرنامہ

دہشت گردی کے خاتمے کا گر اورایف سولہ پر بھارتی واویلا..اسداللہ غالب

آج کا کالم پھر جنرل عاصم باجوہ کے نام ، انہوں نے ایک اخبار کو انٹرویو دیا، یہ تو ان کی مرضی پر منحصر ہے کہ کس اخبار ے لئے وقت نکالتے ہیں، مگر انہوں نے جو کچھ کہا، وہ اب پبلک کی ملکیت ہے ۔ جب تک وہ دفتر واپس جائیں گے ، ان کی میز پر میری بھی ایک درخواست برائے ملاقات ا ور انٹرویو پڑی ہو گی، دیکھئے کب اذن ہوتا ہے۔
جنرل باجوہ نے کھری کھری باتیں کی ہیں، ایک کھرے انسان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے، یہ بات تو بڑے غضب کی ہے کہ دنیا دہشت گردی سے نبٹنے کا گر پاکستان سے سیکھے۔
جنرل باجوہ نے ایک زیرک تجزیہ کار کی حیثیت سے دہشت گردی کے اسباب اورا س کے انسداد کے لئے پاکستان کی کوششوں کی تفصیل بیان کی ہے، پاک فوج ا ور پاکستانی قوم کی قربانیوں کو بھی اجاگر کیا ہے ارو دنیا کو ایک پر امن خطہ بنانے کے لئے عا لمی ذمہ داریوں کااحساس بھی دلایا ہے۔
میں عام طور پر اپنے کالموں میں کسی کا اقتباس درج کرنے کا عادی نہیں مگر جنرل باجوہ کی باتیں ایسی ہیں کہ یہ من و عن نوائے وقت کے قارئین تک پہنچنا ضروری ہیں۔دیکھئے کہ کس سنجیدگی اور درد مندی کے ساتھ باجوہ صاحب نے حالا ت کا نقشہ کھینچا ہے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ دنیا کو دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پاکستانی ماڈل کو پڑھنا اور اس سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پاک فوج اور پوری قوم دہشتگردی کیخلاف پاکستان میں بر سرپیکار ہے تاہم دنیا یہ بات یاد رکھے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے جس کا دنیا بھر میں مقابلہ کرنا ہوگا۔ پوری دنیا کو ہماری کوششوں میں مدد کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو بھرپور یقین ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اس کی سمت بالکل درست ہے، ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک پاکستان چاہتے ہیں اور اس کیلیے ہمیں دنیا کی مدد چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جن ملکوں کا دہشت گردی کا عفریت پیدا کرنے میں کردار ہے ،ا نہیں اس کے خاتمے کیلیے ہماری مدد کرنی چاہیے۔ یہ عفریت سب نے مل کر پیدا کیا ہے،ہم اس کیخلاف لڑ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پوری دنیا دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ہمارا ساتھ د ے گی۔ فوجی ترجمان نے کہا کہ دہشت گردوں کا پاکستان میں کوئی بیس کیمپ نہیں ، مایوس دہشت گردوں کی جانب سے کیے جانے والی دہشتگردی کی اکا دکا کارروائیاں وطن عزیز سے دہشت گردی کے ہمیشہ ہمیشہ کے خاتمے کے لئے پاک فوج کے عزم میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال میں کس طرح ملک میں دہشت گردی کے واقعا ت میں کمی آئی اور کس طرح سے پوری قوم نے سکون کا سانس لیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے پاک فوج ہمیشہ سے دہشت گردوں پر غالب رہی ہے۔ ہم نے دہشت گردوں کو ان کے بیس کیمپوں، پناہ گاہوں اور جہاں کہیں بھی وہ اپنے ہتھیار چھپاتے تھے،سے نکال دیا ہے اور ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے تنبیہ کی کہ دہشت گرد سسٹم میں موجود خامیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش اورمعاشرے میں موجود اپنے سہولت کاروں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم نے جب کبھی ان کیخلاف کارروائی کی تو دیکھا کہ انہوں نے اپنے سہولت کار استعمال کرنے کی کوشش کی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بے مثال قربانیوں کے با وجود پاکستان کے دہشت گردوں سے گٹھ جوڑ کے حوالے سے مغربی دنیا میں موجود تاثر کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ اگر کوئی ایسے الزامات لگاتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔اس طرح کے الزامات سمجھ سے بالا تر اور مکمل طور پر غیر منصفانہ ہیں۔ انہوں نے ملک میں چند دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر کہا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی لیے ہماری اسٹرٹیجک سمت کسی تفریق کے بغیر جاری ہے جس میں کسی سے کوئی رعائت نہیں برتی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں جنہیں اندرون و بیرون ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان آنے والا ہر غیر ملکی بھی ہماری کامیابیوں کو تسلیم کرتاہے۔فوجی عدالتوں پر مغربی ممالک اور بعض جماعتوں کی جانب سے تنقید کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ عدالتیں نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہیں جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے منظوری دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم صرف اور صرف دہشت گردی کاخاتمہ چاہتی ہے۔ دہشت گردوں کو سزائے موت کے حوالے سے اگرچہ مختلف آرا موجود ہیں تاہم یہ بات واضح رہے کہ صرف خطرناک اور جارح مزاج دہشت گردوں کے کیس فوجی عدالتوں کو بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں سے ان دہشت گردوں کے کیسز ایک میکانزم کے تحت فوجی عدالتوں کو بھجوائے جاتے ہیں جبکہ انہیں سزائیں بھی قانون کے مطابق اور شفاف عدالتی کارروائی کے بعد سنائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں شہریوں کو مکمل آزادی اور حقوق حاصل ہیں اور ریاست ان کا ہر طرح خیال رکھتی ہے۔
یہ تو ہوا جنرل باجوہ کا نقطہ نظر ، اب ذرا بھارت کے رویئے پر نظر ڈالئے جس نے پاکستان کو امریکہ سے ملنے والے چند ایف سولہ طیاروں پر�آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔
میں بھارت پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا مگر میرا ایک سوال ہے کہ اگر ایف سولہ دہشت گردی کے خاتمے میں ممدو معاون ثابت نہیں ہو سکتے تو پھر بھارت بتائے کہ شوال میں دہشت گردوں کے آخری اڈے کو کس طرح ختم کیا جائے۔ کیا بھارت یہ چیلنج قبول کرتا ہے کہ وہ اپنی گورکھا رجمنٹ ا س مقصد کے لئے ادھار دے تاکہ ہم اسے شوال کی سنگلاخ اور پر پیچ چٹانوں میں گھسیڑ سکیں۔امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف بی باون استعمال کئے، کروز میزائل داغے اور ڈرون بھی اڑائے۔ کیا یہ ایف سولہ کے مقابلے میں ا س قدر بے ضرر تھے کہ بھارت نے ان کے ا ستعمال پرکوئی اعتراض نہیں کیا۔ بھارت نے ایف سولہ پر جو قوالی شروع کر رکھی ہے، ا س پرا ور کیا کہا جائے، بھارت کو تو پاکستان دشمنی اور مخاصمت کا ہیضہ لاحق ہے، وہ عادت سے مجبور ہے ، سو اپنا شوق پورا کرتا رہے، امریکہ نے اسے ترت جواب دے کر ٹھنڈا کر دیا ہے۔
بھارت کے اعتراضات کا اصل سبب یہ ہے کہ ا سے ڈر ہے کہ یہ ایف سولہ اس کے تربیت یافتہ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا بھرکس نکال دیں گے۔