خبرنامہ

ذہین مگر نادار طالبعلموں‌کا روشن افق، اسداللہ غالب

ذہین مگر نادار طالبعلموں‌کا روشن افق، اسداللہ غالب

ایک نشست کئی موضوعات کا عنوان بن گئی، ڈاکٹر امجد ثاقب روزے سے تھے مگر میںجو پوچھتا رہا، وہ بے تکان بتاتے رہے، تمام حقائق اور اعدا دو شمار ان کے حافظے کے کمپیوٹر میںمحفوظ تھے۔ پھر بھی انہوںنے محسوس کیا کہ تشنگی باقی ہے تو ایک ٹیم میرے پاس بھیج دی۔ ان اصحاب سے میں نے پنجاب انڈومنٹ فنڈ کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی، میں اخباری اشتھاروں کے پیچھے جھانکنا چاہتا تھا۔

کسی قوم کی ترقی کا راز معلوم کرناہو تو اس کے قومی بجٹ میں سے تعلیم کے شعبے پر خرچ پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ مشہور حکائت ہے کہ نظام الملک طوسی کو بادشاہ نے کہا کہ ملک کی حفاظت کے لئے قلعے تعمیر کرو، چند برس بعد درباری حاسددوںنے بادشاہ کو بھڑکایا کہ آپ کے وزیر اعظم نے آپ کی ہدائت کو جوتی کی نوک پر رکھا ہے اور اسے پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی۔ بادشاہ نے دربار سجایا، وزیر اعظم کو طلب کیا اور فرمائش کی کہ میں وہ قلعے دیکھنا چاہتا ہوں جن کی تعمیر کی ہدائت میںنے چند برس قبل کی تھی، نظام الملک طوسی بادشاہ کو لے کر سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھوم گیا،اور جگہ جگہ تعلیمی ادارے دکھائے جن میںنئی نسل زیور تعلیم سے ا ٓراستہ ہو رہی تھی، بادشاہ نے تنک کر دریافت کیا کہ مجھے قلعے دکھائو، وزیر اعظم نے آداب بجا لا کر جواب دیا کہ عالی جاہ ! یہی وہ قلعے ہیں جن میں مستقبل کی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور وہ اپنے علم و ہنر اور ٹیکنالوجی سے آپ کی سلطنت کو ناقابل تسخیر بنا دیں گے، تاریخ نے دیکھا کہ ایران نے کس قدر علمی اور تحقیقی ترقی کی، علم وہنر میں یہ ملک دنیا میں یکتا اور اپنی مثال آپ تھا، کسی دشمن کی جرات نہیں تھی کہ اس کی طرف میلی آ نکھ سے بھی دیکھے۔
آج آپ دیکھ لیں کہ جب تک مسلمانوں کے ہاں تعلیم ، تحقیق، تفتیش کا دور دورہ رہا، ان کی سلطنت کا سورج نصف النہار پر چمکتا رہا مگر جب سے ہم نے تعلیم کو خیر باد کہا اور ہمارے مدارس بند ہوتے چلے گئے، ہم قعر مذلت میں گرتے چلے گئے۔
شاید یہی وہ پس منظر ہو گا کہ شہباز شریف نے تعلیمی میدان میں کچھ انوکھے منصوبے روشناس کرائے، ان میں ایک تو مشہور زمانہ لیپ ٹاپ اسکیم ہے، دوسرے دانش اسکول ہیں جن میں طالب علم اپنی ذہانت کی بنیاد پر داخلہ لیتے ہیں، مالی استطاعت کے پیش نظر نہیں، تیسراا ور بنیادی منصوبہ انڈو منٹ فنڈ کا قیام تھا جس نے ذہین مگر نادار اور مفلوک الحال طالب علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔اب تنو رپرروٹیا ں لگانے والا بچہ بھی اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر اعلی تعلیم کے لئے خصوصی وظیفہ حاصل کر سکتا ہے،یہ وظیفہ کسی لحاظ سے قرضہ نہیں بلکہ تعلیم جاری رکھنے کے لئے مالی اعانت کے مترادف ہے۔
وظیفے کا حق دار کون ہے اور اس کا انتخاب کیسے ہوتا ہے، یہ بڑا آسان اور شفاف عمل ہے ، پنجاب کے چھتیس اضلاع ہیں، ان میں وظائف کی تعداد مساوی رکھی گئی ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ جو علاقے پسماندہ اور دوردراز ہیں ، وہاں کے بچوں کو بھی وہی فوقیت حاصل ہے جو ترقی یافتہ اضلاع کے بچوں کو حاصل ہے۔ تعلیمی ماہرین پرمشتمل کمیٹی تمام فیصلوں کی نگرانی کرتی ہے، اس میں کسی سفارش کا عمل دخل ہو نہیں سکتا کیونکہ چنائو میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
کبھی شہباز شریف زندگی میں فارغ ملیں تو ان سے پوچھنا ضرور ہے کہ انہیں طالب علموں کی محرومیاں دور کرنے کا خیال کیوں اور کب آیا، ابھی تو وہ اسپیڈو اسپیڈ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ بہر حال ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فنڈ دو ہزار نو میں جاری کیا گیا، ابتدا میں اس کے لئے ایک ارب مختص کیا گیا جو اب تک بڑھ کر سترہ ارب ہو چکا ہے، انڈو منٹ کی اصل رقم سرمایہ کاری میں ڈالی جاتی ہے اور منافع سے حاصل شدہ رقم میں سے وظائف کا اجرا کیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومت کی اصل رقم بدستور محفوظ ہے۔اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق وظائف پانے والوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ چکی ہے جنہیں ساڑھے بارہ ارب کے وظائف دیئے گئے ہیں۔نئے مالی سال کے اختتام تک وظائف کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ جائے گی اور رقوم کی ادائیگی ساڑھے سترہ ارب ہو جائے گی۔
اگرچہ یہ فنڈ صوبہ پنجاب کا ہے مگر دیگر صوبوں ، فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے طلبہ کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، بلوچستان نے اسی طرز کا ایک فنڈ اپنے ہاں بھی قائم کر لیا ہے، اسے کہتے ہیں دیئے سے دیا جلتا ہے۔
اعلی اور معیاری تعلیمی اداروں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا گیا ہے مگر بنیادی طور پر صوبے کے سرکاری اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو ترجیح حاصل ہے۔خصوصی بچوں اور اقلیتوں کے بچوں کے لئے الگ سے فنڈ جاری کئے جاتے ہیں تاکہ وہ احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔
پنجاب انڈو منٹ فنڈ کے سربراہ تو وزیر اعلی شہباز شریف ہیں مگر ڈاکٹر امجد ثاقب کی صلاحیتوں کے اعتراف میںانہیں وائس چیئر مین کا عہدہ دیا گیا ہے اور عملی طور پر وہی اس ادارے کی دیکھ بھال کرتے ہیں، وزیر اعلی پنجاب جس مزاج کے انسان ہیں، اس کے ساتھ ہر کسی کا چلنا بہت مشکل ہے مگر وزیر اعلی نے ایک ا ور اسکیم تیار کی ہے جس کا نام ہے شہباز شریف میرٹ اسکالر شپ ، اس کی باگ ڈور بھی ڈاکٹر امجد ثاقب کے ہاتھ میں دی گئی ہے، ڈاکٹر صاحب نے اخوت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور دوست دشمن ان کی انتظامی قابلیت کو سراہتے ہیں اور ان کی دیانت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ خدا ترسی ان کی گھٹی میں شامل ہے۔شہباز شریف اسکالر شپ اسکیم میں محدود تعداد میں ایسے طالب علموں کو منتخب کیا جائے گا جو دنیا کی ٹاپ پچاس یونورسٹیوںمیں سے کسی ایک میں اپنی قابلیت کی بنا پر پی ایچ ڈی میں داخلے کے اہل ہوں، ایسے طالب علموں کو تین سے چار سال تک مکمل تعلیمی اخراجات ادا کئے جائیں گے، رہائش کی سہولتوں کے لئے بھی فنڈ ملے گا اور آنے جانے کے سفری اخراجات بھی یہی ادارہ برداشت کرے گا۔
میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں قارئین کو نہیں الجھانا چاہتا مگر یقین رکھئے ۔ خادم اعلی نے ایک خاموش انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دوسرے صوبے بھی ان کے ہم سفر ہو جائیں اورا س پروگرام کی تقلید کریں جیسا کہ میٹرو بس ہر کوئی چاہتا ہے تو پاکستان علم وہنر کے میدا ن میںدنیا کے ہمسر ہو سکتا ہے۔ میں واپس آپ کی توجہ نظام الملک طوسی کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جس نے قلعوں کی جگہ تعلیمی اداروں کا جال پھیلایا اور ایران کو دنیا کی عظیم تہذیبوں کا گہوارہ بنا دیا۔پاکستان میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر فوجی جرنیل نہیں تھے، انہوں نے چھائونیاں تعمیر نہیں کیں مگر خداد اد تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پاکستان کو ناقابل تسخیر دفاعی قوت میں تبدیل کر دیا۔ شہباز شریف کے سامنے شیر شاہ سوری کا ماڈل ہے۔میری مانیں وہ نظام الملک طوسی کا ماڈل اپنائیں اور رسول خدا ؐ پر پہلی وحی کی روح کو فروغ دیں جس میں اللہ نے حکم دیا تھا کہ پڑھ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوںنے جب تک اس وحی الہی کو حرز جاں بنائے رکھا ، وہ چار دانگ عالم پر چھائے رہے، اب زوال اور ادبار سے نکلنا ہے تو ہمیں علم وہنر اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنا ہو گا۔ شہباز شریف نے اس کے لئے ایک مضبوط بنیاد رکھ دی ہے اورا ٓنے والے وقتوںمیں اس کے ثمرات سب کے سامنے ہوں گے۔