خبرنامہ

رویز الٰہی پنجاب ا سمبلی کے اسپیکر کے منصب پر……اسداللہ غالب

رویز الٰہی پنجاب ا سمبلی کے اسپیکر کے منصب پر

اب تک پارلیمانی عہدوں پر جو بھی الیکشن ہوئے ہیں ، ان میں سے چودھری پرویز الہی کا انتخاب لاجواب ہے۔ وہ اس عہدے پر پہلے بھی فائز رہ چکے ہیں ۔ان کے پاس سیاسی جدو جہد کا طویل تجربہ ہے۔وہ تب جیل گئے جب طالب علم تھے اور ملک پر بھٹو کا راج تھا۔ ان کے بزرگ چودھری ظہور الہی بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں سرگرم عمل رہے، تہتر کے دستور پر دستخط کئے۔ آئین کے بانیوں کا یہ خاندان ستر کے عشرے سے اب تک سیاست اور جمہوریت کے افق پر چھایا ہوا ہے۔ان کے کھاتے میںکوئی برائی نہیں۔ انہوںنے ہمیشہ شرافت کی سیاست کی ہے۔ محبت بانٹی ہے۔ دروازے کشادہ رکھے ہیں اور ان کا دستر خوان بھی ہر ایک کو خوش آمدید کہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل کہا مگر پھر اپنی سیاسی اور حکومتی مجبوریوں کی وجہ سے ان سے تعاون مانگا تو چودھری پرویز الہی نے اپنی خاندانی روایت نبھاتے ہوئے تعاون میں کسی پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی جن لوگوں کو فو جی ا ٓمریت کا ساتھی کہتی ہے ان میں چودھری خاندان کا نام بھی سر فہرست ہے مگر چودھریوں کا دفاع یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو بھی ایک فوجی ا ٓمر کا ساتھ نبھاتے رہے ۔ وہ ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی الیکشن میں ایوب کے چیف پولنگ ایجنٹ بنے اور انہی نے ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ سرکاری کنونشن لیگ کو مقبول عام بنانے کے لئے ہر ڈپٹی کمشنر کو ضلعی صدر بنا دیا جائے۔ ان دلائل کے بعد پیپلز پارٹی کسی دوسرے کو فوجی آمرکا ساتھی ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتی۔ اگر مسلم لیگ ق نے جنرل مشرف کے حلیف کے طور پر حکومت میں شمولیت کی تو پیپلز پارٹی بھی مشرف کی نگرانی میں کرائے گئے الیکشن میں منتخب ہو کر سیاست کرتی رہی۔ اگر پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لئے ماریںکھائیں تو چودھری خاندان نے بھی جمہوریت کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ چودھری پرویز الہی کو نواز شریف سے بے وفائی کا طعنہ دیا جاتا ہے تو اس داغ کو دھونے کے لئے اسی چودھری خاندان نے نواز شریف کو اپنے شہر گجرات مدعو کیاا ور ان کی جیپ کو دریائے چناب کے پل سے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس کے بعد اگر کسی نے بے وفائی کی اور اپنا عہد نہیں نبھایا تو وہ نواز شریف تھے، انہوںنے تحریک نجات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ آئندہ کبھی اکثریت ملی تو وہ چودھری پرویز الہی کو پنجاب کا چیف منسٹر بنائیں گے مگر یہ وقت ا ٓیاتونواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو اس منصب پر فائز کر دیا ۔ پرویز الہی نے دل چھوٹا نہیں کیا اور تن من دھن کے ساتھ نواز شریف کا ساتھ دیا۔ مگر جب نواز شریف نے جنرل مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور چودھری خاندان کو کسی اعتماد میں نہیں لیا تو چودھری خاندان اپنے فیصلوں کے لئے آزاد تھا۔ اگر اس نے جنرل مشرف کی حکومت میں شمولیت کی تو وہ اپنے اس فیصلے کے لئے آزاد تھے۔
چودھری خاندان میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کی صورت حال میں ایڈجسٹ ہونا جانتے ہیں اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے ہنر سے آشنا ہیں، نواز شریف کے ساتھ ایک بار کھلی محاذ رائی کے بعد انہوںنے ایسا رویہ پھر کبھی اختیار نہیںکیا ، وہ جس کے ساتھ چلے، اس کا ساتھ نبھا کر دکھایا اور اگر کسی کے ساتھ نہیں تھے تو خاموش ہو کے بیٹھ رہتے ،وہ محاذ آرائی کی سیاست نہیں کرتے، شریف کا دعوی ہے کہ وہ قوم کے خادم اعلی ہیں جبکہ جو خدمت چودھری پرویز الہی نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب کے عوام کے لئے کی وہ بے مثال ہے پرویز الٰہی نے سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں ، انڈر پاسوں اور اوورہیڈز کا جال بچھایا۔ ۱۱۲۲ ان کا ایسا کارنامہ ہے جسے شہباز شریف بھی جاری رکھنے پر مجبور ہوئے۔ بچوں کو مفت تعلیم اور مفت کتابیں اور مفت یونی فارم بھی پرویز الہی کا کارنامہ ہے۔ پرویزالہی نے کسی کے خلاف انتقام کا راستہ اختیار نہیں کیا ، ان کے خلاف ارب ہا ڈالر کی لوٹ کھسوٹ کے الزامات بھی نہیںہیں۔ اور نہ کوئی میگا سکینڈلز کے مقدمے ان کے خلاف قائم ہیں۔
پنجاب میں چودھریوں کی وسیع ساکھ ہے بلکہ ملک بھر میں ان کے روابط ہیں، چودھری شجاعت کو تومٹی پاﺅفلسفے کا ماہر سمجھا جاتا ہے، وہ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کے حق میںنہیں ہیں۔اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیتے اور اپنے خلاف کسی بھی الزام کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ سننے والا یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چودھری شجاعت حسین کو آپ چودھری مفاہمت حسین بھی کہہ سکتے ہیں ، اور پرویز الہی کو ظل الہی کہہ لو۔ وہ خدائی احکامات کے تحت خلق خدا کی خدمت کو شعار بنائے ہوئے ہیں۔ان کے دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا،یہ وہ خوبی ہے جو لوگوں کی زبان پر چڑھی ہوئی ہے۔ خلق خدا ان کے حسن سلوک کی شہادت دیتی ہے۔ وہ دل موہ لینے کے فن میں ماہر ہیں۔ اسپیکر کے حالیہ الیکشن میں انہوں نے اندازوں سے بڑھ کر ووٹ لئے اور وہ اسپیکر کے منصب پر بیٹھ کر اس حسن سلوک کا مظاہرہ کریں گے کہ کٹر مخالف بھی ان کے گن گاتے نظرا ٓئیں گے۔
نواز شریف کو ان کے برے مشیروںنے مروایا۔چودھری پرویز الٰہی کو یہ غلطی نہیںکرنی چاہئے اور مشاورت کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے۔ جن لوگوں سے براہ راست رابطہ ضروری ہے ان سے خود رابطہ رکھیں ، وہ اس کے لئے اپنے بونے مشیروں کے رحم و کرم پر نہ رہیں۔اسوقت انہوںنے جو سیاسی فائدہ اٹھایا ہے، اس کا کریڈیٹ خود چودھریوں کو جاتا ہے ، اس کے لئے وہ کسی مشیر کے احسان مند نہیں ہیں۔ وہ جس قدر اپنی مشاورت کا دائرہ وسیع کر سکیں، اسی قدر انہیں اپنی سیا سی کامیابیوں کو برقرا رکھنے میںمدد مل سکتی ہے۔
چودھریوں کو ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ وقت کے ساتھ اپنے مفاد کا تحفظ کر لینے میں وہ اب تک کامیاب ہوتے چلے آ رہے ہیںمگر یہ فارمولہ ہمیشہ کارگر نہیں ہو سکتا۔ انہیں اپنی ایک جماعت منظم کرنی چاہیئے جو کسی کی بیساکھیوں پر نہ کھڑی ہو، چودھری پرویز الہی کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسپیکر شپ کا عہدہ ملا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے رابطے وسیع اور پرانے رابطوںکو بحال کر سکتے ہیں تو انہیں یہ کام کر گزرنا چاہئے۔ عمران کے کندھے پر وہ ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ اس لئے جس قدر جلد موقع ملے وہ پنجاب ا ور ملک بھر کی سیاست میں قدم جمائیں، چودھری شجاعت بھی سینیٹ یا قومی ا سمبلی میں پہنچیں اور پھر ایسی گیم بن سکتی ہے جس کے ذریعے دونوں بھا ئی اپنی جماعت نئے سرے سے کھڑی کر سکتے ہیں، ایسا کرنا ان کے لئے بے حد ضروری ہے ورنہ اگلی نسل کو یہ اثاثہ منتقل ہوتا نظر نہیں آتا۔ چودھریوں کے پاس اب وقت ہے ، اپنے ا ٓپ کو مستحکم کریں ۔ اپنا حلقہ ا ثر وسیع کریں اور دیرپا بنیاددوں پر سیاست کو استوار کریں ۔یہی کلیہ چودھری ظہور الہی کی سیاسی سر بلندی کا ضامن بن سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
شیئر کریں: