خبرنامہ

سارے جہاں کا درد آصف جاہ کے جگر میں ہے۔ اسد اللہ غالب….انداز جہاں

وہ تیرہ روز ترکی میں تو گزار کے آئے تھے مگر یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ اس سفر کو جگر کا روگ بنا لیں گے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو انسانی خدمت کا مجھ سے سرٹی فیکیٹ لینے کی قطعی حاجت نہیں، حکومت پاکستان ان کی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز کے اعلی اعزازسے نواز چکی ہے۔
مگر یہ کیا کہ یہ انسان سرکاری نوکری بھی کرتا ہے، اس میںکوئی جھول نہیں آنے دیتا، انہیں سال پہلے ہی اعلی گریڈ میں ترقی بھی ملی ہے،وہ شام کو اپنے ہسپتال میں مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں ، انہیںمفت ادویہ فراہم کی جاتی ہیں۔پھر ملک میں کہیںقدرتی آفت آ جائے تو وہ بے چاروں کے چارہ گر بن جاتے ہیں، زلزلہ، سیلاب، قحط، خشک سالی، ہر آفت کا شکار ہونے والوں کے دکھوں کا درماں کرتے ہیں، ویسے تو وہ انڈونیشیا کے زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے بھی پہنچے برمی مسلمانوں کی دست گیری کے لئے بھی آگے بڑھے مگر جس انداز سے انہوںنے شامی مہاجرین کی مدد کا بیڑہ اٹھایا ہے،ا س سے لگتا ہے کہ ان کے دل پر گہری چوٹ لگی ہے،اور وہ ایک کرب مسلسل میں مبتلا ہیں، شام کے مہاجرین کے دکھوں کو انہوںنے اپنا دکھ سمجھ لیا ہے اور پاکستانی بھائیوں کا شعور بیدار کرنے کے لئے انہوں نے ایک شام غریباں برپا کی۔ چھ بجے شروع ہونے والی یہ تقریب رات گیارہ بجے اختتام پذیر ہوئی ۔ اس دوران تقریریں ہوئیں، افطاری ہوئی، نماز مغرب ادا کی گئی، دوبارہ تقریریں شروع ہو گئیں اور پھر کہیں جا کر کھانے کی باری آئی، کھانے کے بعد نماز عشا ادا کی گئی، لوگ ہوٹل سے باہر نکلے تو آسمان پر رحمت کے بادل گھر آئے تھے۔ نیکیوں کی یہ محفل اللہ کے کرم کا باعث بنی اور شہر جل تھل ہو گیا، رات کے اندھیرے میں بارش تھی اور بجلی کی چمک۔ یہ ایک سہانی اور یادگار شام تھی۔ میں نے کسی ایک فرد کو اس قدر عظیم الشان تقریب برپا کرتے نہیں دیکھا، یہ کوئی انسان ہیء یا جن ہے یا کوئی فرشتہ ایسی محفلیں بہت کم دیکھنے یں آتی ہیں، انتہائی رقت آمیز مناظر، ہوٹل کی لابی سے لے کر ہال کے اندر تک درد و الم کی تصویریں پھیلی ہوئی تھیں۔وقفے وقفے سے دلوں کو لرزا دینے والے ویڈیو مناظر دکھائے جا رہے تھے ۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ آصف جاہ کے سر پہ کیا جنون طاری ہے ۔ شب وروز مخلوق خدا کی خدمت۔ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد، آصف جاہ تو بہت آگے نکل گئے، وہ دکھی انسانیت کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب تک وہ ان کے دکھوں کا مداوا نہ کر لیں ، چین سے نہیں بیٹھتے۔ ترکی گئے تو وہاں کی سب سے بڑی خیراتی تنظیم حیرت فائونڈیشن سے جا ہاتھ ملایا، ان کے تعاون سے شامی مہاجریں کو راشن پانی دیا، ادویہ دیں، کپڑے اور خیمے دیئے۔ضرورت کی ہر چیز ان کو دے ا ٓئے ا ور مستقل انتظام کرنے کی ٹھان لی۔ اسلام ا ٓباد سیء سینیٹر طلحہ محمود ان کے ہم سفر بن گئے، پائنا نے دامے درمے سخنے ان کا ساتھ نبھایا، ترکی سے حیرت فائونڈیشن کے صدر حقی آئیگان اور نائب صدر فریدون چلے آئے، ان کے ساتھ کوآرڈی نیٹر کے طور پروقا ربادشاہ بھی استنبول سے تشریف لائے، ترک مہمان اس محفل سے بے حد متاثر ہوئے، وہ توآصف ٖجاہ کو پاکستان کی پہچان کہہ رہے تھے اور پاکستانی بھائیوں کی فراخدلی کے لئے رطب اللساں تھے۔ الطاف حسن قریشی نے تجویز دی کہ شامی مہاجرین کی بھرپور امداد کے لئے ہمیں مساجد کے علمائے کرام کو ساتھ ملانا چاہئے تاکہ وہ جمعہ کے خطبات میں یہ شعور بیدار کریں اور مواخات مدینہ کی یاد تازہ کرنے کا درس دیں۔ضیا شاہد نے پیش کش کی کہ اس نیک مقصد کے لئے ان کی خدمات حاضر ہیں اور وہ اپنے اخبارات اور ٹی وی چینل پر اس مقصد کے لئے فری اشتھار دیں گے، میرا خیال ہے کہ ہمارے قومی میڈیا کو یہ کام بطور ادارہ سرانجام دینا چاہئے، پاکستان نے افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا کر دنیا میںنیک نامی کمائی، اب اگر ہم شامی مہاجرین کی دلجوئی کر سکیں تو عالم عرب میں ہماری وسیع لابی پیدا ہو سکے گی ، ہم نے فلسطینی مہاجرین سے بے ا عتنائی برتی، نتیجہ یہ ہے کہ فلسطین کا جھکائو بھارت کی طرف ہو گیا۔ شامی مہاجرین کے سلسلے میں ہمیں یہ غلطی نہیں دہرانی چاہئے، اگر ہم سفارتی تحفظات کی وجہ سے حکومتی سطح پر ان کے لئے کچھ نہ بھی کر پائیں تو کم از کم نجی شعبے کو آگے بڑھنا چایئے، ایک آصف جاہ تو میدان میں موجود ہیں، ان کا ہاتھ تھامنے کے لئے لاکھوں آصف جاہ اور بھی ہونے چاہیئں۔محترمہ بشری رحمن نے تو اپنی جذباتی تقریر سے حاضرین کو رلا ہی دیا۔اور آصف بھلی نے کہا کہ میں اپنے سارے آنسو شامی مہاجرین کی نذرکرتا ہوں۔
اسٹیج سے کسی نے فنڈ ریزنگ کی اپیل نہیں کی مگر ماحول ایسا بن گیا تھا کہ دلوں سے ٹیسیں اٹھیں اور کچھ کرم فرمائوں سے رہا نہ گیا،ایک آواز آئی کہ میں بیس لاکھ پیش کرتا ہوں۔ دوسری آواز سنائی دی کہ پچاس لاکھ۔اور پھر حصہ بقدر جثہ۔کوئی ایسابھی تھا جس نے اپنے گھر کی جمع پونجی سے بھی زیادہ کی پیش کش کر دی۔بلبل کو پھول بس اورصدیق کے لئے خدا کا ر سول بس، اور اس تقریب کے اکثر شرکا اسی اسوہ حسنہ کے پیرو کار تھے۔ کوئی کھل کر اعلان کر رہا تھا اور کوئی خاموشی کی زبان سے خلق خدا کے دکھوں پر آنسووں سے لبریز تھا۔ فہرست تو میرے پاس نہیں مگر جن اصحاب خیر نے بڑھ چڑھ کر ہدیہ پیش کیا ان میں فرحان سرورشیخ ، اعجاز سکا، شہزاد سلیم شیخ، امجد وزیر، ڈاکٹر زاہد صدیق، اور ڈاکٹر ارشدمحمود کا نام نمایاں ہے۔
مجھے سینیٹر طلحہ محمود کے جذبوں کو سلام کرنا ہے، وہ کئی برسوں سے سینیٹ میں ہیں، ایسے لگتا ہے کہ جب تک سینیٹ ہے،، طلحہ صاحب اس کے رکن رہیں گے، ان کا ذکر بہت سنا، لیکن ان سے ملاقات کا موقع اس تقریب میں ملا، وہ جوان عزم کے مالک ہیں اور ظاہر ہے وہ ایک حساس ذہن کے مالک بھی ہیں، جبھی تو انہوںنے ترکی کے مہمانوں کو پہلے اسلام آباد میں اپنے ہاں ٹھہرایا، پھر ذاتی گاڑی میں انہیں لاہور لے آئے ا ور واپس بھی لے گئے، ڈاکٹرا ٓصف جاہ نے ان کے آرام و آسائش کے لئے ہوٹل میں الگ الگ کمرے بک کروا رکھے تھے مگر معزز مہمانوںنے کہا جو بچت ہو سکتی ہے، اسے شامی مہاجرین کے لئے وقف کر دیں۔
ہجرت اللہ کی طرف سے ایک آزمایش ہے۔اللہ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر بھی اس آزمائش سے دو چار ہوئے، کرہ ارض کی آبادی بھی بابا آدم کی جنت سے ہجرت کے نتیجے میں عمل میں آئی، حضرت اسماعیل ابھی گود میں تھے کہ انہیں اپنی والدہ کے ساتھ مکہ کی بے آب و گیاہ پتھریلی وادی میں قیام کرنا پڑا مگر ان کے دم سے دین حنیف کوفروغ ملا، اور اللہ کے آخری پیغمبر بھی ہجرت کے نتیجے میںمدینہ پہنچے جہاں مواخات کی عظیم مثال قائم ہوئی۔ یہ ایک حسین اتفاق کی بات ہے کہ مدینے میں اللہ کے رسول اللہؐ کے میزبان حضرت ایوب انصاری ؓ تھے اور آج انہی کے مزارا قدس کی سرزمین ترکی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بے خانماں شامی مہاجرین کے میزبان کا کردار ادا کر رہی ہے۔میں شامی مہاجرین کی بربادی کو لفظوںمیں بیان کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ وہ دائیں بائیں آگے ا ورپیچھے سے نیپام بموں اور کیمیاوی ہتھیاروں کی زد میں ہیں۔ ان میں سے جو ترکی پہنچ گیا، وہ خوش قسمت ہیں کہ ترکی والے کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں جو اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مہمان ان کے دسترخوان پر نہیں آجاتا تھا، ترکیوںنے انصار مدینہ کی بھی یاد تازہ کر دی، اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے اور اپنی دکانوں کی چابیاں بھی پیش کر دیں ، شامیوں کو احساس ہی نہیںہونے دیا کہ وہ بے گھر ہیں مگر مہاجرین کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر رہی ہے،ا ور ترکی کے لیے اکیلے ان کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو گا، میری بھی اصحاب خیر سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیںاور کم از کم یتیم شامی بچوں کے سر پہ تو دست شفقت رکھیں ۔
اللہ آصف جاہ کے عزم کو محکم اور مضبوط کرے۔وہ انسان ہے یا جن ہے یا فرشتہ یا مسیحا، مگر وہ سب کچھ ہے، اس نے شامی مہاجرین کے درد کو اپنا درد جگر بنا لیا ہے۔