خبرنامہ

ستلج کی مکمل بندش۔ بھارت کی آبی جارحیت………………..اسداللہ غال

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ستلج کی مکمل بندش۔ بھارت کی آبی جارحیت………………..اسداللہ غالب
کالم نگار | اسد اللہ غالب….انداز جہاں

یہ ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، بھارت نے ستلج ، راوی اور بیاس کا پانی مکمل طور پر بند کر رکھا ہے، یہ سندھ طاس معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے،بھارت کو یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ ان تینوں دریاﺅں کا پانی اپنی آب پاشی کی تمام ضروریات کے لئے استعمال تو کر سکتا ہے مگر اپنے ہیڈ ورکس کے زیریں علاقوں کی آبی حیات، انسانوں اور جانوروں کی پیاس بجھانے کے لئے پانی روکنے کا حق نہیں رکھتا، بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ستلج کے ارد گرد پاکستانی علاقوں میںمکمل قحط پڑ گیا، دریا کے اندر پانی کا یک قطرہ بھی نہیں بلکہ الٹا بھارت نے اپنے شہروں اور قصبوں کا گندہ، زہریلا اورا ٓلودہ پانی دریا کے بیڈ میں چھوڑ دیا ، اب اس پانی کو انسان ستعمال کریں، جانور اس سے پیاس بجائیں تو وہ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اورا ٓبی حیات تو مکمل طور پر ناپید ہو چکی ہے، مچھلی، کچھوے اور پرندے بھی اس دریا کی حدود سے غائب شد!
بھارت کی اس زیادتی بلکہ ظلم کے خلاف ستلج کے علاقے میں سخت بے چینی کی لہر ہے جس نے ایک طوفاں کی شکل ا ختیار کر لی ہے، علاقے کی سیاسی اور سوشل لیڈر شپ نے بھارت کے خلاف زوروار آواز بلند کی ہے اور اس تحریک کو ایک فائدہ یوں بھی ملا ہے کہ معروف صحافی ا ور ایڈیٹر ضیا شاہد بھی بہاولنگر سے تعلق کے ناطے اس تحریک کو آگے بڑھانے میںمصروف ہیں ،اب ان کی کوشش یہ ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا مسئلہ ورلڈ بنک میں اٹھائیں، اس کے لئے علاقے کے متاثرین کو قانونی حق حاصل ہے کہ وہ عالمی اداروں سے رجوع کریں۔
بھارتی آبی دہشت گردی کے خلاف تحریک نے اب تک جتنی سرگرمیاں کی ہیں، ان کو ضیا شاہد نے ایک کتاب کی صورت میں مدون کر دیا ہے، ضیا شاہد پر ان دنوںکتابیں اتر رہی ہیں مگر ان کی یہ کتاب خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس میں ایک خالص انسانی مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے اور بھارت کی شیطنت کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔بھارت کے خلافا س احتجاجی تحریک میں یوں تو ضیا شاہد اور محمدعلی درانی پیش پیش ہیں مگر علاقے کے کسان لیڈرز بھی پیچھے نہیں رہے اور وہ شہر شہر اور قصبے قصبے لوگوں کا شعور بیدار کرنے کے لئے جلسے کر رہے ہیں، سیمنارز منعقد کر رہے ہیں، صوبائی وزیر اعلی سے ملاقاتیں کرتے ہیںا ور وزیر اعظم پاکستان تک بھی اپنی آواز پہنچاتے ہیں۔ کرناخدا کا یہ ہوا کہ ملک کے اندر سے انہیں مکمل حمائت ملی ہے اور کہیں سے کوئی اختلافی آ ٓواز بلند نہیں ہوئی۔ اس طرح قوی امید ہے کہ جب یہ لوگ پوری تیاری کے ساتھ ورلڈ بنک سے رجوع کریں گے تو اہل پاکستان کو انصاف ضرور ملے گا۔
کتاب کے اندر قارئین کی معلومات کے لئے وہ تمام مواد جمع کر دیا گیا ہے جو بھارتی آبی دہشت گردی کا پردہ چاک کرتا ہے،ممتاز کالم نویسوںنے اس مسئلے پر جو کچھ لکھا، اس کا ایک انتخاب بھی اس میں شامل ہے، نظریہ پاکستان کے موجودہ روح رواں شاہد رشید کا مقالہ ممتاز حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس ادارے نے کئی برسوں سے بھارت کی آبی دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کی ہے اور ایک ایسی فضا ہموار کی ہے جس میں ضیا شاہد اور محمد علی درانی کو اپنا کیس بنانے میں آسانی پیدا ہوئی ہے،۔سید تابش الوی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اور انہوںنے عوام کو درپیش مشکلات کا تفصیل اور درد مندی سے احاطہ کیا ہے، یحی مجاہد بھی نظریاتی محاذ کے مجاہد ہیں اور بھارتی آبی جارحیت پر ان کی طرف سے احتجاج اپنی جگہ پر خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔نصیر ڈاہا۔ خان خدا د خان چنڑ۔ راﺅ غلام مصفی خاں۔رازش لیاقت پوری،غازی احمد حسن ، ایم آر ملک ،لقمان سید،محمد اکرم کنہوں ،نجیب الدین اویسی۔نعیم الحس ببلو کے مقالے بھی چشم کشا ہیں
،۔ البتہ ایک حیرت کا ظہار ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ میںنے پچھلے ایک برس میں انجینیئر شمس الملک، اورمحمد اقبال چیمہ ( برمنگھم ) اور انجینیئر میاں برکت علی لونا کے حوالے سے بیسیوں کالم لکھے جو ا س کتاب کا حصہ بن سکتے تھے مگر شاید کتاب کے مﺅلف کی نظر ان پر نہیں پڑی، ان تحریروں کا ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔
میری ابھی برمنگھم میں محمد اقبال چیمہ سے فون پر یو کے بات ہوئی ہے ، انہوںنے کہا ہے کہ ستلج کی بندش سے بہاولنگر، بہالپور اور رحیم یار خان کے علاقے شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات والے بھارت کو ہر سال ایک بھاری رقم اد اکر رے ہیں کہ وہ ستلج میں پانچ ہزار کیوسک پانی سارا سال چھوڑے تاکہ رحیم یار خان میں ان کی فصلوں کو پانی میسرا ٓ سکے مگر بھارت یہ پیسہ بھی ہضم کئے چلے جا رہا ہے، اقبال چیمہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ دریائے بیاس کے ساتھ ایک اور دریا بھی آتا ہے جس کے پانی سے شکر گڑھ کی تحصیل سیراب ہوتی تھی مگر اس پر بھی بھارت نے بند باندھ کر اس کا پورا پانی روک لیا ہے، اگلی بری خبر انہوں نے یہ سنائی ہے کہ اس وقت ہیڈ مرالہ پر پانی کی شدید کمی ہے کیونکہ بھارت نے دریائے چناب کے اوپر کئی بند تعمیر کر لئے ہیں، اس سے اپر چناب اور لوئر چناب کی نہروں سے لوگوں کو ضرورت کا پانی نہیں مل رہاا ور آہستہ آہستہ یہ زرخیز تریں زمیں بنجر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ملک برکت علی لونا کی کتاب تو کا لا باغ ڈیم پر فوکس کرتی ہے اور اس کے بارے میں تمام جزئیات پریہ کتاب روشنی ڈالتی ہے۔برکت علی لونا صاحب ، شمس الملک صاحب اور ا قبال چیمہ صاحب عمر کے اس حصے میں ہیں جب انسان ساری توجہ آرام ا ورا ٓسائش پر مرکوز کرتا ہے مگر یہ بزرگ سب کچھ بھول کر قوم کے دکھوں کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔مجھے اقبال چیمہ نے دوبارہ فون کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بات انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ آصف بیگ صاحب سے ہوئی ہے اور وہ تصدیق کرتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے مطابق بھارت اس کا پابند ہے کہ ستلج اور راوی میں جنگلی حیات، حیوانات اور انسانوں کے پینے کے لئے پانی چھوڑے گا مگر وہ اس کی پابندی نہیں کرتا۔ میں اقبال چیمہ صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے بار بارطویل فاصلے کی فون کالیں کی ہیں، اس سے ظاہر ہوات ہے کہ ا نہیں اپنے ہم وطنوں کے بارے میں کس قدر تشویش لاحق ہے حالانکہ وہ پاکستان سے بہت دور برمنگھم میں قیام پذیر ہیں اور چند ہفتے بعد اس تحریک کو مہمیز دینے کے لئے پاکستان آنے کارادہ رکھتے ہیں۔
میں ہر پاکستانی کو تجویز دوں گا کہ وہ ضیا شاہد کی مرتب کردہ کتاب۔۔ ۔ ستلج، راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کیوں۔۔۔۔کا ضرور مطالعہ کریں اور جس کے جو بس میں ہے وہ پاکستان کے مفاد کے لئے اپنی جگہ پر بھی کوشاں رہے، یہ تحریک کوئی ا کیلا نہیں چلا سکتا، یہ توایک اجتماعی ذمے داری ہے جو ہم سب کا فرض بنتی ہے۔