خبرنامہ

سرجیکل اسٹرائیک ا ور اعلان جنگ میں کیا فرق ہے۔۔اسداللہ غالب

دنیا کی کوشش ہے کہ پاک بھارت جنگ نہ ہو، مگر مجھے یہ اندیشہ لاحق ہے کہ بھارت روز کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہے گا، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ دونوں طرف سے بڑے بڑے دعووں کے باوجود پاکستان اور بھارت جنگ نہیں چھیڑنا چاہتے۔
دونوں ملک جنگ کیوں نہیں چھیڑنا چاہتے، اس لئے کہ جنگ کا حکم دینے والا یہ جانتا ہے کہ بر صغیر میں کچھ نہیں بچے گا، ایسی جنگ نہیں کرنی تو پھر جنگ کیا ہوئی، وہ تو سرجیکل اسٹرائیک ہوئی، جو کہ بھارت اب تک دو بار کر چکا ہے، ہم کہتے ہیں کہ اس نے کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں کی جبکہ بھارت گلا پھاڑ کر دعوی کررہاہے کہ اس نے ایسا کیا، یہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جارحیت کرنے والا مان رہا ہے کہ ا س نے جارحیت کی اور جس ملک کے خلاف جارحیت ہوئی اور جس نے دو شہیدوں کو دفنایا ، وہ کہہ رہا ہے کہ بھارتی دعوی غلط ہے، پہلے فوج نے ایسا کہا ، پھر کابینہ نے بھی یہی کہا تو پھر بھارت نے اصل میں کیا کیا تھا۔یہ تو پتہ چل گیا کہ نصف درجن پوسٹوں پر حملہ ہوا، مگر یہ پتہ نہیں چلا کہ بھارت کتنی دور اندر آیا، اس کاایک فوجی ہماری تحویل میں ہمارا معزز مہمان ہے،یا ہماری قید میں ہے ،اسے کہاں سے گرفتار کیا گیا، لائن آف کنٹرول کے پار سے یا ہمارے علاقے سے ا ور وہ کتنا اندر تک گھس آیا تھا۔ان سوالوں کا جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
ایک سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ اوڑی واقعے کے بعد پاکستان کہہ رہا تھا کہ بھارت نے کوئی جوابی کاروائی کی توا سے اعلان جنگ سمجھا جائے گا، مگر خیریت ہی گزری کہ پاکستان نے بھارت کی شرارت کو اعلان جنگ نہیں سمجھا، ویسے تکنیکی طور پر یہ اعلان جنگ ہی تھا، مگر ظاہر ہے بھارت جتنی جنگ چاہتا تھا، وہ ہم نے لڑی، جمعہ ا ور ہفتہ کی شب بھارت نے پھر ایک محدود جنگ چھیڑی ا ور ہم نے بھی ا سے محدود ہی رکھا،کہاں بھارت کہتا تھا کہ مقام اور وقت کا چناؤ خود کروں گا مگر جوابی کاروائی ضرور کروں گا اور اب اکا دکا پوسٹو ں کے خلاف جارحیت پر قناعت کر رہاہے اور دل کو سمجھا رہا ہے کہ اس نے بدلہ لے لیا۔
ایک سوال یہ ہے کہ اگر بھارت نے بین ا لاقوامی سرحد پر ہماری کسی پوسٹ کو نشانہ بنایا تو پھر ہمارا رد عمل کیا ہو گا، اب تک کے پاکستانی ریسپانس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحمل کا مظاہرہ کرے گااور جنگ کا دائرہ وسیع نہیں کرے گا نہ اس کی نوعیت بدلے گا۔لیکن پاکستانی عوام پر واضح ضرور کیا جائے کہ پاکستان کس حد تک جنگ کو پھیلانے کے حق میں ہے، اگر تو ایٹمی جنگ ہونی ہے تو ا سکے لئے اور طرح کی تیاری کی جانی ہے، فوج کی تیاری تو ضرور ہے مگر عوام کو ایٹمی جنگ کے مضمرات کا کچھ علم نہیں۔
رائے ونڈ روڈ کے کسی چوک میں عمران نے ایک بڑا جلسہ کیا، یہ پہلی بار ہوا کہ ایک جلسہ دو وزیر اعظموں کے خلاف برپا کیا گیا ا وردونوں وزیر اعظموں کو۔۔ تو، تم،۔۔ کی زبان میں مخاطب کیا گیا۔بھارتی وزیر اعظم تو عمران کا جلسہ دیکھ کر ہنسے ہوں گے کہ اپنے وزیرا عظم کا توکچھ بگاڑ نہیں سکا، مودی کے لئے یہ بھی سمجھنا مشکل ہو رہا ہو گا کہ عمران جنگ کی دھمکی دے رہا ہے یا امن کی بھیک مانگ رہا ہے۔مودی نے سوچا ہو گا کہ عمران دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کے لئے تو فکر مند ہے مگر اپنے ملک کی خوشحالی کا رستہ تین برس ے روکے کھڑاہے،جو شخص چینی وزیر اعظم کے دورہ میں رکاوٹ ڈالے اور سی پیک کو ایک سال کے لئے مؤخر کرا دے ، وہ کسی دوسرے ملک کی خوشحالی میں کیا دلچسپی لے سکتا ہے۔
بہرحال یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ عمران کے جلسے کے نتائج و عواقب کا محاکمہ ہوتارہے گا۔
بات ہو رہی تھی بھارت کی چھیڑ خانی کی۔لائن آف کنٹرول پر یہ ایک معمول بنتی جا رہی ہے۔اس علاقے میں 2004 کو جنگ بندی کا اعلان ہو گیا تھا، یہ ا علان وزیرا عظم میر ظفراللہ جمالی نے یک طرفہ طور پر ایک نشری خطاب میں کیا تھا۔ سیز فائر سے پہلے بھارت کو ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف ک کنٹرول پر باڑ لگانے کی ا جازت دینے کے لئے ہم تیار نہ تھے، سیز فائر ہو گئی تو بھار ت نے اسی طرح کی باڑ لگا لی جیسی ا سنے واہگہ بارڈر پر لگا رکھی ہے، یہ اس امر کی دلیل تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے کو ہم نے بھارتی علاقہ مان لیا، اب اس کی متنازعہ حیثیت باقی نہیں رہی تھی، سیز فائر پر کئی برس تک عمل جاری رہا مگر اب کچھ برسوں سے بھارت کہیں نہ کہیں ٹھوں ٹھاں کر دیتا ہے،ا سکے باوجود سیزفائر کی پابندی نافذ رہی، جیسے ہی کوئی جھڑپ ہوتی، دونوں ملکوں کے مقامی کمانڈرز آپس میں رابطہ کرتے اور سفید جھنڈے لہرا دیئے جاتے، اب معلوم نہیں کہ مقامی کمانڈروں میں کوئی رابطہ ہوتا ہے یا صرف بھارتی ڈی جی ایم او، رنبیر سنگھ ہی اپنے پاکستانی ہم منصب سے ہمکلام ہوتا ہے۔یا بھارتی صحافی برکھا دت کے دعوے کے مطابق ا سنے پاکستانی ڈی جی ایم او کو بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کے بارے مطلع کیا تھا۔یہ کیا ستم ظریفی ہے، ہمارے ڈی جی ایم او کو واضح کرنا چاہئے، برکھا دت نے مبینہ ٹیلی فون گفتگو بھی شائع کر دی ہے۔
بھارت میں جنگی جنون کا ماحول ہے، پاکستان میں مطلع ابھی تک صاف ہے، عام لوگوں کے سر پر جنگ کا بھوت سوار نہیں ہوا، یہ بحث ٹاک شوز تک ہی محدود ہے جنہیں عام آدمی نہیں سنتا ، اسی لئے زندگی اپنے معمول پر چل رہی ہے، بازاروں میں ہجوم ہے، شاپنگ مالز بھرے ہوئے ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک جام رہتی ہے۔دوسری طرف بھارت میں کم از کم سرحدی علاقوں کو جنگ کے خوف نے آن لیا ہے، کشمیرا ور پنجاب میں سرحدی دیہات خالی کروا لئے گئے ہیں۔واہگہ کی پریڈ بھی ایک روز منسوخ کر دی گئی تھی۔یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بھارتی فوج بھی مغربی چھاؤنیوں سے نکل کر سرحد پر آ گئی ہے۔ میں نے اپنے گاؤں کے حالات معلوم کرنے کے لئے ایک عزیز کو فون کیا مگر اسے کچھ علم نہ تھا کہ ملک میں کوئی جنگ کا سماں بھی ہے، میرا گاؤں ایک بھارتی پوسٹ کی مشین گنوں کی زد میں رہتاہے، ان کے دہانے ہمیں اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر کسی کو بھارت سے ڈر نہیں، اسلئے کہ یہاں ہمشہ پاک فوج نے بھارت کو پچھاڑا ہے، اکہتر میں یہاں بھارتی فوج کے قلعے قیصر ہند پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔
عام پاکستانیوں کو جنرل راحیل شریف کے بیانات حوصلہ بخشتے ہیں، ہر کوئی مطمئن ہے کہ ہماری افواج دشمن کو دنداں شکن جواب دے سکتی ہیں، ایک بھارتی فوجی ہماری قید میں ہے جس کی رہائی کے لئے بھارت تڑپ رہا ہے۔
پاکستان کسی تیزی میں نہیں، وزیار اعظم معمول کے مطابق امریکہ سے واپس آکر ہی اس کشیدگی کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کابینہ کی ایک میٹنگ کی، اب پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس طلب کیا ہے،ا سکے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو گا، پاکستان کی کوشش ہے کہ علاقے سے جنگ کے بادل خود بخودچھٹ جائیں اور یہ خطہ کسی چھوٹی یا بڑی تباہی سے بچ جائے مگر ا س کا انحصار بھارتی رویئے پر ہے۔اور بھارت اشتعال پر اشتعال دلا رہا ہے، دیکھئے پاکستان کب تک ٹھنڈا رہتا ہے۔