خبرنامہ

سرحدی گاندھی کے چیلوں پر ضیا شاہد کی قلمی یلغار……اسداللہ غالبن

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سرحدی گاندھی کے چیلوں پر ضیا شاہد کی قلمی یلغار……اسداللہ غالبن
چند ماہ کے اندر ضیا شاہد نے نئی تصانیف کا ڈھیر لگا دیا ہے اور ہر کتاب تحقیق سے مالا مال ہے۔، کہیں گپ شپ نام کو بھی نہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ان کی کتاب ”پاکستان کے خلاف سازش“ نے تہلکہ مچادیا تھا اور آج ملک پر خطرات کے جو بادل منڈلا رہے ہیں، ان کے پیش نظرا س کتاب کے ناظرین چونک کر رہ گئے کہ یہ سازشیں کب سے ہو رہی ہیں، بلکہ سوال تو یہ ہے کہ کب سے نہیں ہو رہیں، یعنی ہمیشہ سے ہو رہی ہیں۔ میرے دل میں بھی وسوسے جاگے ا ور میں نے چند روز کے وقفے سے دو کالم تحریر کر کے قارئین کو حالات کی سنگینی کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
اب جو ضیا شاہد کی نئی کتاب منصہ شہود پرا ٓئی ہے تو اس نے مزید چونکا کر رکھ دیا ہے۔ یہ گاندھی کے چیلوں کے بارے میں ہے اور ضیا شاہد نے قلم اٹھایا ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ سارا کچا چٹھا کھول کر نہ رکھ دیں۔
یقین جانئے یہ کتاب چشم کشا ہی نہیں بلکہ درد دل کو بڑ ھانے کا باعث بنی ہے۔ کہ جو کچھ گاندھی کے چیلے اپنی زندگی میں نہیں کر سکے، اب یہ ہوتا نظرآرہا ہے ، ان کے صوبے کے نام میں پختون خواہ ہم نے بصد شوق شامل کر دیا ہے ا ورا س پر وہ پارٹی حکمران ہے جو پاکستان میںتبدیلی کے نعرے کے ساتھ سیاست کر رہی ہے، اگر تبدیلی اسی چیز کا نام ہے کہ سرحدی گاندھی کے چیلوں کی خواہشات پوری ہو جائیں اور پاکستان کو قومیتوں اور گروہوں کے تفرقات میں بانٹ دیا جائے تو بلاشبہ اس میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ا ور ان کے چیلے چانٹوں کو زبردست کامیابی ملی ہے عمران خان کہتے ہیں کہ وہ کر کٹ کھیلتے رہے،اس لئے سیاست بھی کر سکتے ہیں مگر جو لوگ برسہا برس سے سیاست کو اوڑھنابچھونا بنائے ہوئے ہیں، ان سے عمران خان کیا مقابلہ کر پائیں گے،۔
مجھے ڈر اس سے نہیںجو سرحدی گاندھی کرتے رہے، ڈر اس بات سے ہے کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے۔ کیا وہی ہو رہا ہے جو سرحدی گاندھی کرتے چلے آئے ہیں تو پاکستا ن پر گاندھی ازم کے اثرات حاوی ہو رہے ہیں۔کم نہیں ہو رہے۔
گاندھی ا ور اس کے چیلے کیا چاہتے تھے۔ یہی نا کہ پاکستان نہ بنے اور بن جائے تو ان کے لئے الگ ملک پختونستان بن جائے۔کیاآپ کو ایک ایم این اے کی یہ آواز سنائی نہیں دے رہی کہ افغان ایک قوم ہیں، سرحد کے دونوں طرف بسنے والے افغان ایک قوم ہیں۔ یہ آواز ایک طاقتور ایم این اے کی ہے جس کے بھائی ملک کے ایک بڑے صوبے کے گورنر ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے مجھے ضیا شاہد سے ایک اختلاف کاا ظہار کرناہے۔ انہوںنے ایک طرف تو کتاب کا انتساب اجمل خٹک کے نام کیا ہے، دوسرے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ موت سے پہلے اجمل خٹک اپنے سابقہ نظریات سے توبہ تائب ہو چکے تھے۔ انہوں نے اجمل خٹک سے جس آخری ملاقات کا حوالہ دیا ہے، اس میں خود میں بھی موجود تھا اور اجمل خٹک کے کھلے اعترافات سن کر دل ہی دل میں پچھتا رہا تھا کہ کیوں اس شخصیت کے خلاف صفحوں کے صفحے سیاہ کرتا رہا۔توبہ تو انسان کے سابقہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے مگر ضیا شاہد نے اپنے اس دوست پر رحم نہیں کھایا اور اس کے بیانات کو سرحدی گاندھی اور ان کے چیلوں کے خلاف استعمال کیا ہے، بھٹو نے بھی ولی خان اینڈ کمپنی پر غدار ی کا جوریفرنس قائم کیا، اس کی بنیاد زیادہ تر اجمل خٹک ہی کے بیانات پر رکھی گئی۔ میرے خیال میں جب کوئی شخص اپنے ماضی پر ندامت کاا ظہار کردے ا ورا س سے قطع تعلقی اختیار کر لے تو اسے معصوم عن الخطا سمجھا جانا چاہئے۔اگر حقیقت یہ نہیں تو توبہ کا فائدہ کیا۔
سرحدی گاندھی، ان کے چیلوں کے خلاف اجمل خٹک کی تقاریراور بیانات کو الگ بھی رکھ دیا جائے تو تب بھی اس قدر مواد موجود ہے کہ ان پر غداری تو چھوٹا جرم ہے،ان پر کوئی ا س سے بھی سنگین فرد جرم عائد کی جانی چاہئے۔
کیا یہ شہادت کافی نہیں کہ سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان باپو گاندھی کے پاﺅں دھو کر پیتے تھے۔ یہ تھی ان کی صبح سویرے کی عبادت۔ اور کیا یہ بہتان کافی نہیں جو ولی خان نے اپنی کتاب ”حقائق حقائق ہیں“ میں قائد اعظم پر لگایا ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے الگ مذہبی ریاست کے نمونے کے طور پر نہیں بلکہ انگریز کی سازش کے تحت بنایا گیا تھا۔ ولی خان کے بقول دو قومی نظریہ انگریز نے قائد اعظم کے ذہن میں ڈالا تھا۔ اس پر انسان لاحول پڑھنے کے سوااور کیا کر سکتا ہے۔
ویسے ولی خان سے کوئی یہ پوچھے کہ ایک طرف وہ کانگرس کے طرفدار تھے جو بھارت کو اکھنڈرکھنا چاہتی تھی مگر خان عبدالغفار پھر بھی پختونخواہ کی آزاد ریاست کے قیام کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، کیا ولی خان یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے باپ کے کان میں علیحدگی کی آواز کس نے پھونکی تھی۔
سرحدی گاندھی اپنے مطالبے پر آخری دم تک قائم رہے اور مرتے وقت یہ وصیت کر گئے کہ انہیں پاکستان کی بجائے افغانستان میں دفنایا جائے۔ ان کی قبر آج بھی علیحدگی کی علامت کے طور پر موجود ہے۔
مگر سرحدی گاندھی اگر جمہور کی آواز پر ذرہ بھر یقین رکھتے تھے تو انہیں اپنے مذموم مطالبے سے اسوقت تو پیچھے ہٹ جانا چاہئے تھا جب انہیں سرحد کے ریفرنڈم میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پشت پناہ کانگرسی لیڈروں پر غیور اور محب وطن پاکستانی پٹھانوں نے گوبر پھینک دیا تھا۔ اس تذلیل سے بھی سرحدی گاندھی نے کوئی سبق نہ سیکھا۔
ضیا شاہد سے کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جو لوگ اب دنیا میں نہیں رہے، ان کے خلاف کتابیں چھاپ کر انہیں کیا ملے گا۔میں کہتاہوں کہ انہیں ڈھیروں ثواب ملے گا کہ نئی نسل کے سامنے انہوں نے سرحدی گاندھی خان غفار خان ، ان کے بھائی ڈاکٹر خان اور ان کے بیٹے خان عبدالولی خان کی خباثت نمایاں کر دی ہے۔ اس کتاب کے ہوتے ہوئے کسی کو پختون خواہ، یا متحدہ افغان قومیت یا پاکستان کی تقسیم کی بات کرنے کی جرا¿ت نہیں ہو سکے گی۔ ضیا شاہد نے حقائق بیان کئے ہیں دلائل پیش کئے ہیں اور منطق سے بات کی ہے۔ان کے قلم کے نشتر کی چبھن سرحدی گاندھی کے اور ان کے چیلوں کے دل و دماغ کو تڑپاتی رہے گی۔
٭٭٭٭٭