خبرنامہ

سردار اسلم سکھیرا سے ایک بھولی بھٹکی ملاقات۔۔۔۔اسد اللہ غالب

جب سے میری آنکھوں نے ساتھ چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے، میں نے کانوں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی زندگی کا عجب موڑ ہے اور منفرد تجربہ۔
ملاقات بھولی بسری تو ہوا کرتی ہے، یہ بھولی بھٹکی ملاقات کیا ہوئی، اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے، سردار اسلم سکھیرا سے قریب قریب تیس پینتیس برس کا یارانہ ہے، میری ان کی عمر میں کئی عشروں کا فرق ہے مگر میں ان سے تعلقات کو یاری دوستی سے تشبیہہ دیتا ہوں کہ وہ ایک ہنس مکھ اور ملنسار انسان ہیں۔ جب کبھی اپنا آرٹیکل لے کر نوائے وقت آتے تو ہر بار ان کی آنکھوں میں نئی چمک جھلکتی اور ایک فطری مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر کھیلتی دکھائی دیتی۔ وہ زندہ دلی میں اپنی مثال آپ تھے۔ دل موہ لینے والا لب و لہجہ۔ ساری عمر افسری میں گزاری مگر کیا مجال افسرانہ شان و شکوہ کو انہوں نے نزدیک بھی پھٹکنے دیا ہو۔
میں نوائے و قت سے کیا نکلا کہ دشت صحافت کی خاک چھانتا پھرا۔ ان لمحوں میں پرانے ساتھی ضرور یاد آتے تھے، ان میں سرفہرست سردار اسلم سکھیرا بھی تھے، سن رکھا تھا کہ ان کا گھر ہمارے ایک اور دوست سردار محمد چودھری کے ہمسائے میں واقع ہے، مگر چودھری سردار کی زندگی کے آخری لمحوں تک ان سے برابر میل جول جاری رہا، آخری ملاقات کو نہیں بھول سکتا، وہ بیڈ روم میں لیٹے ہوئے تھے، یہ ایک غیر معمولی بات تھی‘ ورنہ اکثر وہ ڈرائنگ روم میں محفل جماتے اور وہیں رات کا کھانا کھاتے۔ اس روز ان کی بیٹی آئیں، ان کے ہاتھ میں پپیتا تھا، کہنے لگیں، یہ ہضم کرنا مشکل نہیں، چکھ لیجئے۔ سردار صاحب نے پہلے تو معذرت کر دی، مگر میں نے کہا کہ بیٹی بڑی چاہت سے لائی ہیں، ان کا دل رکھنے کے لئے کچھ منہ میں ڈال لیجئے۔ پتہ نہیں ان میں کیسے ہمت آئی ، وہ یک بارگی اٹھے اور ڈرائنگ روم میں ہی جا کر پپیتے سے لطف اندوز ہوئے، پھر جلد ہی کہنے لگے کہ تھک گیا ہوں، بستر میں جا گھسے اور وہاں سے نہ اٹھ سکے۔ ان کے پچھواڑے سردارا سلم سکھیرا کے گھر کی دیوار جڑی ہوئی ہے مگر وہاں کبھی نہ جانا ہوا۔ اب میں کئی ماہ سے ان کو ملنے کا مشتاق تھا، دفتر سے پوچھا کہ کوئی فون نمبر، ہر ایک نے یہی کہا کہ وہ تو خود آرٹیکل لاتے تھے، کبھی فون کی حاجت ہی محسوس نہ ہوئی مگر پھر مجھے ان کا نمبر دستیاب ہو گیا۔ انہوںنے بتایا کہ مڑھیاں چوک کراس کر کے سروس لین میںہو لیں، تیسرا گھر میرا ہے مگر رات کے اندھیرے میں مڑھیاں چوک عبور کر کے سروس لین میں ان کا گھر نہ ملا، انسان بھرے پرے شہر میں بھی بھٹک سکتا ہے، اس کا کبھی تصور تک نہ تھا، وہی دیکھے بھالے راستے، وہی حفظ شدہ جغرافیہ مگر میں کہاں بھٹک چکا تھا۔ ناچار پھر انہیں فون کیا، وہ ہنس کر کہنے لگے کہ آپ ابھی کم از کم دو میل دور ہیں۔ ایک چوک مزید کراس کریں، پھر سروس لین میں میرا مکان ڈھونڈنا مشکل نہ ہو گا۔ یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا، گیٹ پر ایک نوجوان منتظر کھڑا تھا۔ وہ انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ اندر ڈیوڑھی میں لے گیا اور پھر سامنے ایک فراخ ڈرائنگ روم، سردار صاحب ٹانگیں پسارے بیٹھے تھے، بڑی سکرین پر ان کی نظریں جمی تھیں، نجانے کن خبروں کے منتظر تھے۔
علیک سلیک کے بعد میں نے ملاقات کا مقصد بتایا، کہنے لگے کہ جو قسمت میںلکھا ہو، وہ ہو کر رہتا ہے، تردد نہ کریں، میںنے کہا کہ تگ و تاز جاودانہ کا مطلب کیا ہے اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی سعی کرے۔ یہ بھی تو حکم کا درجہ رکھتی ہے، وہ ہار ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے، واپس تاریخ کے اوراق پلٹنے لگے، کہنے لگے کہ پاکستان کا قیام کسی معجزے کم نہ تھا مگر اس دوران اور بھی معجزے رونما ہوئے، وہ بھارت سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تو راستے میں کھانے پینے کا وافر سامان بیل گاڑی پر لاد لیا، گندم، آٹا، چینی، دال، مٹی کا تیل۔ مگر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ تیز بارش نے آن لیا اور بیل گاڑی پر لدی ساری چیزیں ملیدہ بن گئیں، کوئی چیز کھانے کے قابل نہ رہی، وہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے تو شام پڑ چکی تھی، اب انہیں فکر لاحق ہوئی کہ ابا جان تو ہر شام کئی کلو دودھ اور پائو بھر چینی ملا کر پینے کے عادی ہیں، یہ چیزیں کہاں سے ملیں گی۔ ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ کسی جھونپڑی سے ایک بوڑھی عورت باہر نکلی، اس کے ہاتھ میں ایک بڑا کٹورہ تھا، دودھ سے لبالب بھرا ہوا اور چینی بھی وافر مقدار میں۔ یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
سردارا سلم سکھیرا کا ایمان ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے اور یہ معجزہ جس خدائے بزرگ و برتر نے رونما کیا، وہی اس کا رکھوالا بھی ہے۔
میں نے پوچھا کہ اب مضمون نگاری کیوں ترک کر دی ہے، کہنے لگے اب تک جو کچھ لکھا، وہ صرف نوائے وقت میں چھپا اور ایسا کچھ بھی چھپا جسے کوئی اور اخبار چھاپنے کی ہمت نہ کرتا، محرم مجید نظامی آنکھیں بند کر کے ان کے مضامین چھاپتے رہے، اب صحت کے مسائل نے آن لیا ہے، معاشرے میں پولرائزیشن بھی بڑھ گئی ہے اور لوگوں میں برداشت کا مادہ بھی کم ہو گیا ہے، پھر اچانک کہنے لگے کہ میں تو آپ کو ڈھونڈھ رہا تھا، یہ آج کل آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ پالیسیوں کی حمائت اور مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے مگر شخصیات کی پوجا کیوں۔ میںنے کہا جو کچھ لکھتا ہوں، اس کو ایمان کا درجہ دیتا ہوں، محض الزام بازی کو خود بھی بھگت چکا ہوں، اس لئے کوئی شخص جب محض کسی پر الزام دھر دے تو مجھے اس پر یقین نہیں آتا، یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، یہ بے بنیاد پروپیگنڈے کا شاخسانہ ہے۔ سچ کی تلاش کی کسی کو فکر نہیں، محض بلیم گیم کو سچ پر محمول کیا جا رہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں جمہوری سیاسی نظام سے محبت ہونی چاہئے، یہ ملک ایک سیاسی، عوامی ا ور جمہوری تحریک کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا اور اس کا استحکام بھی اسی نظام کی بقا میںمضمر ہے۔
سردار صاحب نے انتہائی ذائقے دار چائے سے تواضع کی، میں رات کے وقت چائے نہیں پیتا مگر یہاں تو دوسرے مگ کی طلب پیدا ہو گئی تھی، انہوں نے بڑی شفقت سے اپنی تین کتابیں بھی عنایت فرمائیں، یہ ان کے اب تک کے کالموں کے مجموعے ہیں۔ یہ کالم کیا ہیں، سراسر سچ اور حقیقت۔ کھری باتیں ہیں، کوئی تصنع نہیں، اور انتہائی چشم کشا۔ کتابوں کے عنوان بھی منفرد اور دلآویز۔ عرض تمنا پہلا مجموعہ ہے۔ جوش جنوں کے عنوان سے دوسرا مجموعہ۔ اسم با مسمی اور تیسرا ہے سلگتے راز۔ ان کے کئی کالموں نے قیامت بھی کھڑی کی، ایک کالم شملہ معاہدہ پر بھی تھا، کہتے ہیں ایک روز محترم مجید نظامی بھٹو صاحب سے ملنے گئے، وہاں ان کی میز پر ان کا کالم رکھا تھا اور بھٹو صاحب آگ بگولہ ہو رہے تھے کہ یہ ساری باتیں کالم نگار تک کس نے پہنچائیں، نظامی صاحب نے جواب دیا، کہ ہمیں تو لکھا ہوا مضمون ملا، باقی آپ کالم نگار سے دریافت کریں کہ ان کا سورس کیا ہے۔ بھٹو کے ایک مشیر رفیع رضا نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب تحریر کی، اس نے بھی سردارا سلم سکھیرا کے کالم کے مندرجات کی تائید کی، یہ شخص تو شملہ معاہدہ کے دوران مذاکرات کا حصہ تھا۔
شب ڈھل رہی تھی، سحری کا وقت قریب آ رہا تھا، میں نے پھر ملنے کی درخواست کی۔ سردار صاحب نے فرمایا کہ گھر پر ہی ہوتا ہوں، جب چاہیں، چلے آئیں، گپ شپ چلتی رہنی چاہئے اور دونوں مل کر محترم مجید نظامی کے دور کو یاد کیا کریں گے۔
بھٹکے ہوئے راہی کو پھر سوئے حرم لے چل۔ میں بھی بھٹک کر ایک دیرینہ بزرگ بلکہ دوست کے ہاں پہنچ گیا تھا۔