خبرنامہ

سعید احمد، راوین دوست اور بھائی، اسداللہ غالب

سعید احمد، راوین دوست اور بھائی، اسداللہ غالب

اسد اللہ غالب….انداز جہاں

سعید احمد کے نام کے ساتھ جب تک چمن نہ لکھا جائے تو ان کی پہچان مکمل نہیں ہوتی، کم از کم ان کے راوین دوست انہیں سعید احمد کے نام کی وجہ سے نہیں پہچان سکتے، ہاں جے آئی آ ٹی کے لئے وہ سعید احمد ہی ہو گا۔
حسین نواز اور حسن نواز سے میری ذاتی جان پہچان نہیں، اس لئے ان کے بارے میں اتنے یقین کے ساتھ نہیں لکھ سکتا جیسے سعید چمن کے لئے لکھتا رہا ہوں۔ چمن میرے ساتھ مجلس اقبال میں تھے، راوی میں تھے، اس کے بھی برے دن تھے اور میرے بھی، وہ ماں باپ کے سائے سے محروم تھا اور میں نے بھی یتیمی میں پرورش پائی ، وہ میٹرک میں اول آئے تھے اور بعد میں سبھی امتحانات میں ان کی یہ پوزیشن برقرار رہی، میں ان پر رشک کرتا تھا، مگر وہ مجھے اپنا مینٹور خیال کرتے تھے، اس کی وجہ میں نہیں جانتا۔ بس ان سے دو ایک سال سینیئر تھااور وہ بڑے ادب آداب سے ملتے تھے، ان کی طبیعت میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ان کی شخصیت کا یہ پہلوا آج بھی قائم و دائم ہے۔ان میں اکڑفوں کبھی نہ آئی، وہ سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر بنے اور اب نیشنل بنک کے صدر۔بس وہ عام انسانوں کی طرح ہی ملتے ہیں، کہیں افسری کا شائبہ تک نہیں۔ان کی وجہ سے میں اسحق ڈار کے قریب بھی ہوا اور یہ رشتہ آج تک قائم ہے۔
پاکستان میں ان کا نام عمران خان نے اچھالا، میں نے ان کے جواب میں ہمیشہ کہا کہ میں سعید احمد کی دیانت کی قسم کعبہ کی چوکھٹ تھام کر کھانے کو تیار ہوں۔اب شیخ رشید نے سعید کے بارے میں برے کلمات کہے ہیں۔ شیخ صاحب کی زبان سے کسی کے بارے میں آج تک کلمہ خیر نکلا ہی نہیں ، یہ ان کی سرشت میں ہے، اس لئے میں ان کی بات کو لائق التفات نہیں سمجھتا۔
جے آئی ٹی میں طارق شفیع پیش ہوئے، انہیں گلہ پیدا ہوا، حسین نواز نے بھی شکوہ کیا۔ اب وزیر اعظم کوطلب کر لیا گیا ہے، دیکھئے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے مگر یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ وزیر اعظم اور ان کا خاندان احتساب کے کٹہرے میں ہے، وزیر اعظم کے دونوں بیٹے برطانوی شہری ہیں وہ نہ آنا چاہتے تو جے آئی ٹی کوان کی طلبی میں برسوں لگ جاتے، سعید احمد بھی برطانوی شہری ہیں، انہیں ایک بار سعودی عرب میں مشکل پیش آئی تو برطانونی سفیر بلا تاخیر ان کی مدد کو آیا۔ انہیں بھی جے آئی ٹی لندن سے طلب کرنے میں جتن ہی کرتی رہتی، مگر ان میں سے کسی نے احتساب سے فرار کی راہ تلاش نہیں کی مگر اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ انہیں تذلیل ا ور تحقیر کا نشانہ بنایا جائے۔ان کے ساتھ تشدد آمیز سلوک کیا جائے ۔انہیں تھانیداروں کی طرح گھنٹوں انتظار کروایا جائے۔
میں یہاں دو باتوں کاا عتراف کرتا ہوں کہ آج تک میرے دو تجزیئے چکنا چور ہوئے، ایک تو میں نے مشرف کے ان الفاظ پر یقین کرلیا تھا کہ وہ کمانڈو ہے اور کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ مگر معاملہ ا سکے بر عکس نکلا،بہر حال یہ اس کا انفرادی فعل تھا، اس لئے پاک فوج کے کمانڈوز کی پیشہ ورانہ صلاحیت کا ہر کوئی احترام کرتا ہے، مشرف کی کمانڈو صلاحیت پیشہ ورانہ نہیں ، محض سیاسی اور الفاظ تک محدود نکلی مگر میری غلطی یہ ہے کہ میںنے اس کے الفاظ پر یقین کر لیا اور وہ بودا انسان نکلا، اس نے اپنے آپ کو کمانڈو ثابت نہیں کیا۔ بعض اوقات تجزیئے نیک نیتی سے بھی کئے جاتیء ہیں، میرے مرشد مجید نظامی نے زرداری کی ہمت بڑھانے کے لئیے انہیں مرد حر کہا مگربعد میں یہ خطاب واپس لے لیا۔
مجھ سے دوسری غلطی اس روز ہوئی جب جے آئی ٹی میں حسین نواز اور سعید احمد پیش ہوئے اور کچھ دیر میں وہاں دو ایمبولنسوں کو طلب کر لیا گیا، پاکستان میں میڈیا اپنے کلائمیکس پر ہے، اس کی جولانیاں دیکھنے کے لائق ہیں مگر کوئی اندر کی خبر نہ لا سکا کہ ایمبولنسیں کیوں اور کس کے لئے منگوائی گئیں، میرے بڑے بھائی میاں محمد ہر وقت ٹی وی پربیٹھے رہتے ہیں، مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کا دوست کس قدر مضبوط اعصاب کا مالک ہے ، میں نے کہا کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔اس لئے جے آئی ٹی کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ مگر اگلے روز کے اخبارات کے مطابق طبی امدادکی انہی کو ضرورت محسوس ہوئی تھی میں نے پھر بھی اس پر یقین نہ کیا اور یہی سمجھا کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے مگر اب سعید نے سپریم کورٹ میں باقاعدہ درخواست دائر کر دی ہے کہ انہیں ناروا سلوک کا نشانہ بنایا گیا بلکہ انہیں محسوس ہوا کہ کہ شاید وہ سزائے موت کے قیدی ہیں۔ان کا یہ خط میڈیا پر بار بار دکھایا جا رہا ہے میں نے سعید کو ٹیلی فون پیغام بھیجا کہ وہ مجھے بھی اس کا متن بھیج دیں مگر شاید وہ بے حد محتاط ہیں، اس لئے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ چلیئے وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔مگر میں اب بھی انہی کا خیر خواہ ہوں اور جانتا ہوں کہ وہ بے گناہ ہیں، اور ان کے ساتھ جس کسی نے زیادتی کی ہے، اس نے پاپ کمایا ہے۔دنیا میں نیک اور پارسا لوگوں کی کمی نہیں مگر سعید جیسا پارسا اور دیانتدار شخص میں نے ابھی تک نہیں دیکھا، وہ انتہائی خدا ترس انسان ہیںا ور مجھ سے ناراض رہتے ہیں کہ میں ان کی توصیف میں کیوں لکھتا ہوں ،مھے نہ تو کوئی اسٹیٹ بنک سے کام تھاا ور نہ نیشنل بنک سے، میرا ان کا رشتہ اللہ کے ناطے ہے۔میں ایک گناہ گار شخص ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان جیسا بن جائوں۔
پاکستان میں جوہر قابل کی کمی نہیں مگر سعید احمد نے تعلیم اور تحقیق کے میدان میں جو جھنڈے گاڑے ، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آئے۔جب فیصل بنک بن رہا تھا تو ا سکے مالک نے سعید احمد سے کہا کہ وہ اس کے بانی صدر بن جائیں مگر انہوںنے یہ پیش کش قبول نہ کی کیونکہ وہ بیرون ملک اس سے بڑے مناصب پر فائز تھے اور کمائی بھی حدو حساب سے باہر تھی ۔
مجھے دو اوور سیز پاکستانیوں کے پاکستان واپس آنے پر افسوس ہے، ایک محمدسرور، دوسرے سعید احمد، پاکستانیوں کو عادت نہیں کہ وہ جوہر قابل کی قدر کر سکیں، محمد سرور کا کوئی اتا پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے اور سعید احمد عزت سادات گنوا بیٹھے، جے آئی ٹی سے تذلیل کروانا ان کی قسمت میں کیوں لکھ دیا گیا
مگر محمد سرور اور سعید احمدپاکستان واپس آئے تھے، یہ ان کا وطن مالوف تھا، انہیں کوئی پکڑ کر گوانتا نامو نہیں لے گیا تھا، نہ وہ بھٹو کے قیدی تھے کہ انہیں دلائی کیمپ میں محصور کیا جاتا یا شاہی قلعہ کی عقوبت سے گزارا جاتا، یا ان کی نیک نامی کو کسی چونا منڈی میں الٹا لٹکایا جاتا، سعید احمد تو حکومت میں تھے پھر وہ تذلیل ا ور تحقیر اور تشدد آمیز رویئے کا نشانہ کیوں بنے۔ اگر ان سے تفتیش کرنا ہی تھی اور تفتیش کرنے والے وائٹ کالر کرائم کی تفتیش کے ماہر تھے تو پھر سلوک وہ کیوں کیا گیا جو کسی بلیک کالر کرائم والے ملزم سے بھی نہیں کیا جاتا۔
میں سعید احمد سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ ایک سچے اور کھرے مسلمان کی طرح بہادری سے حالات کا مقابلہ کریں گے، حرف شکائت زبان پر نہ لائیں، مجھے کسی نے گزشتہ برس اسی سلوک کا نشانہ بنایا تو میرا جواب تھا کہ پاکستان کے سارے ایٹم بم مجھ پر گرا دیں پھر بھی میں اپنے موقف سے نہیں ہٹوں گا، میں تو ایک کمزور انسان ہوں، مگر سعید احمد! جب تم ایک خدا کے سامنے جھکتے ہو تو باقی خدائوں سے کیا ڈرنا، ان کے سامنے کیا جھکنا۔
ویسے دنیاوی طور پر وہ ایک فائٹر وزیر اعظم کے ساتھی ہیں۔