خبرنامہ

سفرنامہ ارض القرآن…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سفرنامہ ارض القرآن…اسد اللہ غالب

سفرنامہ ارض القرآن مولانا سید ابوالااعلیٰ مودودی کے اس مبارک سفر کی داستان ہے جس میں انہوں نے سرزمین حجاز اور دیگر اسلامی ممالک میں واقع تاریخی اور اہم مذہبی مقامات کا انتہائی قریب اور تفصیل سے مشاہدہ کیا اور ان تمام آثار و تاریخی مقامات کو دیکھنے کا فیصلہ کیا جن کا ذکر قرآن مجید اور سیرت پاک کی کتابوں میں آیا۔ اس سے قبل 1956ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پہلی مرتبہ عرب ممالک کا سفر کیا اور حج و زیارت سے مشرف ہوئے۔ حج و زیارت کے علاوہ مولانا کا ارادہ تھا کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے تمام آثار کو بھی دیکھا جائے لیکن ایک تو گرمی کا سخت موسم، اور دوسرے وقت کی کمی اور تیسرے صحت کی خرابی۔ اس لیے ان کی یہ دلی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ یوں بھی حج کی مصروفیات اور حجاج کی گہما گہمی میں اس قسم کی کسی خواہش کا پورا کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ خصوصاً جب انسان پہلی مرتبہ حج کے لیے جاتا ہے تو اسے پوری کوشش کے باوجود سجھائی نہیں دیتا کہ حج کی ضروری مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے کسی علمی قسم کے پروگرام کو کیوں کر شروع کرے اور کیونکر اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ بہت سی خواہشات اپنے دل میں لے کر وہ سرزمین حجاز میں قدم رکھتا ہے، اور وہاں پہنچ کر انہیں پورا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، لیکن جب وہاں سے پلٹتا ہے تو اس کے دل میں یہ احساس برابر رہتا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنے کسی پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکا۔ کچھ اس قسم کی کیفیت مولانا پر بھی طاری ہوئی۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے قیام کے دوران میں وہ وہاں کے تاریخی آثار دیکھنے کے لیے نکلتے بھی رہے لیکن اتنا وقت ان کے پاس کہاں تھا کہ وہ ان آثار کا تفصیلی مطالعہ کر سکیں۔ چنانچہ سنٹر سے واپسی پر ہی مولانا نے یہ طے کیا کہ آئندہ بھی سردی کے موسم میں عمرہ بھی کیا جائے اور سرزمین عرب کے تمام تاریخی آثار و مقامات کا بھی تفصیل سے مطالعہ کیا جائے۔ مولانا نے اپنے ذہن میں سرزمین عرب کے سفر کا وسیع نقشہ بنایا اور طے کیا کہ نہ صرف حرمین شریفین کی زیارت کی جائے بلکہ نجد، حجاز، شرق اُردن، فلسطین، شام اور مصر کے بھی ان تمام آثار و تاریخی مقامات کو دیکھا جائے جن کا ذکر قرآن مجید اور سیرت پاک کی کتابوں میں آیا۔
سفر نامہ ارض الاقرآن دو سو پچیس صفحات پر مشتمل ہے اور الفیصل ناشران و تاجران کتب ،اردو بازار ،غزنی اسٹریٹ ،لاہور کی جانب سے عمدہ اور بہترین معیار کے آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے۔تمام صفحات رنگین تصاویر اور شہ سرخیوں کے ساتھ مزین ہیں۔کتاب کے مولف محمد عاصم الحداد ہیںجنہیں سفر میں مولانا کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔پہلا پڑائو بحرین میں رہا۔ بحرین سے ظہران‘خبر اور دمام کا سفر کیا ۔یہاں قیام کی تفصیلات اور ملاقاتوں کا احوال بڑا دلچسپ ہے۔اس وقت بحرین سے ہر دو گھنٹہ کے بعد ایک ہوائی جہاز ظہران روانہ ہوتا تھا اور کرایہ 33روپے فی کس تھا۔اس کے بعد سفرِ ریاض ہے۔ریاض میں قیام 19تا28نومبر1959ء تک رہا۔یہیں مولانا کی نجدکے مشہور عالم شیخ عبدالعزیز بن باز سے ملاقات ہوئی جو چند اصحاب کے ساتھ مولانا سے ملنے کیلئے تشریف لائے۔بعد ازاں انہوں نے معروف یونیورسٹی جامعۃ الملک سعود اور ریاض کالج کلیتہ الشریعہ کا دورہ کیا۔ وہاں کے علما کی سادگی کے حوالے سے جو باب باندھا گیا ہے وہ پڑھنے لائق ہے کہ وہاں کے علما کی سادگی اور امرا کی شان و شوکت دونوں قابل دید ہیں۔علما اور جید شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں میں سعودی عرب کے معاشی مسائل کا ذکر بھی ہوا جس کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔28نومبر کو مولانا جدہ کے لئے روانہ ہو گئے۔جدہ میں پاکستانی اور مصری سفارت خانے کی دعوت میں شریک ہوئے۔جدہ سے مکہ معظمہ کا درمیانہ فاصلہ 45میل ہے۔ راستے میں جو تاریخی آثار آئے ان کے بارے میں بھی سفرنامے میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔مکہ معظمہ میں وہ تیس نومبر سے چار دسمبر تک رہے۔ خطیب حرم سے ملاقات کی۔ عمرہ کیا۔اگلے دن پاکستانی شفاخانہ دیکھا۔عصر کے بعد آثار کی زیارت کے لئے نکل گئے۔سب سے پہلے دارالارقم کا مقام دیکھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں ہجرت سے پہلے نبی اکرم ؐ اور صحابہ کرامؓ کفار مکہ کے شر سے بچنے کیلئے چھپ چھپا کر جمع ہوتے اور اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔یہاں سے جبل ابوقبیس پہنچے جس سے ملی ہوئی پہاڑیوں کے درمیان ایک گھاٹی تھی جہاں ہجرت سے پہلے نبی اکرم ؐ اور آپؐ کے ساتھ بنو ہاشم تین سال تک محصور رہے ۔کچھ آگے بڑھے تو سڑک کی بائیںجانب ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ اس کے متعلق بتایا گیا کہ اسے مسجد الرایہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اس جگہ واقع ہے جہاں فتح مکہ کے موقع پر نبی ؐ نے زمین پر اپنا رایہ (جھنڈا) نصب فرمایا تھا۔اس سے تھوڑا آگے مسجد الجن ہے اور یہ اس لئے مشہور ہے کہ اس جگہ واقع ہے جہاں جنوں نے نبی اکرمؐ کو قرآن پڑھتے سنا تھا اور وہ ایمان لائے تھے۔آگے المعلیٰ کا قبرستان تھا جہاں نبیؐ اکرم کے دادا‘چچا‘اہلیہ خدیجہؓ اور دوسرے تمام اعزہ یہیں دفن ہوئے۔یہاں سے مولانا اور ساتھی جبل نور پہنچے۔ اس کے اندر ہی وہ غار واقع ہے جس میں نبی کریمؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔یہاں سے منیٰ اور پھر عرفات پہنچے۔ اس باب میں یہاں دیکھے گئے مقاما ت کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔اسی طرح مولانا نے جبل ثور کا بھی دورہ کیا۔غار ثور وہ جگہ ہے جہاں ہجرت کے موقع پر کفار مکہ سے چھپنے کیلئے نبی اکرمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پناہ لی تھی اور جس کا قرآن کریم کی آیت میں ذکر بھی ہوا تھا۔اس کے بعد سفر نامے میں مولانا کی کچھ عرب شیوخ سے ملاقاتوں کا احوال ہے۔اس کے بعد مکہ سے طائف کا سفر شروع ہوتا ہے۔طائف میں مختلف مقامات دیکھنے کے بعد دوبارہ واپس مکہ معظمہ پہنچے۔سات دسمبر کو مسجد حدیبیہ دیکھنے کیلئے روانہ ہوئے۔وہاں سے پہنچے۔ وہاں ریڈیو کو انٹرویو دیا۔ اگلا سفر مدینہ منورہ کا تھا۔جدہ سے آگے سات کلومیٹر بعد بدر کا مقام آتا ہے جہاں مولانا نے تین گھنٹے قیام کیا اور وہ مقام بھی دیکھا جہاں بدر کا معرکہ پیش آیا تھا۔مدینہ منورہ میں مولانا نے پیلس ہوٹل میں قیام کیا جو مسجد نبویؐسے متصل ہے۔امیرمدینہ سے ملاقات کی۔پندرہ دسمبر کو اُحُد پہنچے۔ اسی پہاڑ کے دامن میں مشہور غزوہ احد پیش آیا تھا۔ظہر کے بعد مسجد قبا کیلئے روانہ ہوئے۔مسجد الجمعہ‘مسجد ضرار بھی دیکھی۔اگلے روز بئررومہ اور بئر عثمانؓ کی زیارت کے لئے گئے۔بئررومہ اپنی مٹھاس اور لذت کی وجہ سے مشہور تھا۔اس کا مالک ایک یہودی تھا۔حضرت عثمانؓ نے نبی اکرم ؐ کی ہدایت پر یہ کنوا ں یہودی سے خرید کر عام مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔مسجد القبلتین کا دورہ کیا۔وادی عقیق دیکھی جو ایک زمانہ میں خلفا امرا اور شعرا کے محلات کی وجہ سے مشہور تھی۔دیگر کئی اہم مقامات بھی دیکھے اور اہم ملاقاتیں کیں۔اسی طرح مدائن صالح بھی گئے۔اس جگہ آج سے چھ ہزار سال پہلے حضرت صالحؑ کی قوم آباد تھی۔اسی قوم ثمود کے بارے میں ہے کہ وہ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر گھر بناتی تھی۔دیگر کئی مقامات بھی دیکھے جن کے بعد مولانا اردن اور فلسطین بھی گئے۔قوم لوط کا علاقہ دیکھا۔وادی شعیبؑ بھی گئے۔بی بی سی کو انٹرویو دیا۔مصرگئے۔ قاہرہ میں ملاقاتیں کیں۔ اہرام اور قاہرہ کا میوزیم دیکھا۔جامع ازہر پہنچے۔وادی سینا بھی گئے۔اُس روشن جھاڑی بھی پہنچے جہاں حضرت موسیٰؑ کو جھاڑی میں آگ لگی نظر آتی تھی۔ایک عجیب و غریب مقبرہ دیکھا جہاں بے شمار انسانی کھوپڑیاں اور انسانی جسم کی ہڈیاں قرینے سے رکھی گئی تھیں۔یہاں سے دمشق اور پھر کویت کو روانہ ہوئے اور یہاں جو مقامات دیکھے ان کا ذکر بھی سفرنامہ ارض الاقرآن میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔یہ انتہائی منفرد کتاب ہے۔ میری رائے میں ہر مسلمان کو یہ کتاب لازمی پڑھنی چاہیے۔ ہر علمی اور دینی گھرانے اور ادارے میں یہ کتاب ہونی چاہیے تاکہ نئی نسل بھی قرآن و حدیث میں بیان کردہ دینی مقامات کے سفر کی اس اہم اور دلچسپ روداد سے مستفید ہو سکے۔