خبرنامہ

سقوط ڈھاکہ اور مزید ٹکڑوں کی دھمکی۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ
بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کے دوٹکڑے کئے، اب اس کے ایک ناہنجارزیر داخلہ نے مزید دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی دے دی ہے، بھارتی وزیر اعظم مودی پہلے ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت کے لوگوں کو حقوق دلواؤں گا،ا س کامطلب بھی وہی ہے کہ ان علاقوں کو پاکستان سے آزاد کرایا جائے گا،ان کے علاوہ بھارت کی نظر کہا ں ہے، جناح پور، سندھو دیش،سرائیکی وسیب ۔تو یہ ہے منصوبہ بھارت کا کہ پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔مودی نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ پاکستان کو تنہا کردوں گا، اندرا گاندھی نے بھی پہلے پاکستان کو تنہا کیا، پھر ا سکے دو ٹکڑے کیا، ہم نے اندرا کی سفارتی مہم کا کوئی جواب نہ دیا، آج بھی ہم مودی کی سفارتی کوششوں کاتوڑ کرنے مں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے، کیسے لیں کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں، ہماری نیت اگر یہ ہو کہ واقعی سے بھارت کا سفارتی محاذ پر منہ توڑ جواب دینا ہے تو پھر ہم ضرور اس منصب پر کسی کو مقرر کریں گے مگر لگتا ہے کہ پاکستان کے مفاد کی کسی کو فکر لاحق نہیں۔ اس لئے نہیں کہ ہم دل سے قائد اعظم کے اس فرمان اور نظریئے کو نہیں مانتے کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں ، ایک مسلمان ا ور دوسرے غیر مسلم، دونوں کی عبادات الگ ہیں ، رہنا سہنا الگ ہے، حلال و حرام الگ ہے اور کھانا پینا الگ ہے۔مگرہم کہتے ہیں کہ ہم بھی وہی کھاتے اور پہنتے ہیں، وہ بھی وہی پہنتے اور کھاتے ہیں ، وہی زبان بولتے ہیں جو سرحد پار بولی جاتی ہے تو پھر درمیان میں لکیر کیوں۔ یہ ہے وہ فرق جس کی وجہ سے قائد اعظم پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے ا ور ہم پاکستان کوبچانے میں کامیاب نہیں ہوئے او ر یہی وطیرہ جاری رہا تو خدا مخواست آئندہ بھی نہیں بچا سکیں گے،ایک سقوط ڈھاکہ دیکھا ، پھر کئی سقوط دیکھنے پڑیں گے۔اللہ اس حشر بد سے بچائے!
غضب خدا کا کہ بھارت یہ دھمکی دے اور وہ بھی دس ٹکڑے کرنے کی اور ہماری پوری قوم خاموش رہے، حکومت کے صرف دو افراد بولے ، نوازشریف اور عمران کی لڑائی ہو تو فریقین کے بیسیوں افرد ایک دوسرے کے خلاف بولتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف بھارت ہرزہ سرائی کرتا ہے تو ہمارا صرف وزیر داخلہ بولا ہے یا وزیر دفاع، اور میں ان کا شکر گزار ہوں کہ وہ بولے ا ور انہوں نے ٹھوکوئیں جوابی بیان دیئے، یہ کہا کہ مودی رہ گیا توبھارت کے ٹکڑے گننے والا کوئی نہ ہو گا، اگر یہ لوگ جواب نہ دیتے تو قوم ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکتی۔ ایک حافظ محمدسعید ہیں جنہوں نے مودی کوللکارا ہے کہ پاکستانی قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ بھارت کے سو ٹکڑے کر دے گی۔حافظ سعید بولتا ہے تو ہمیں برا لگتا ہے مگر پاکستان کے ٹکڑوں پر پلنے والے، بڑی توندوں والے، موٹی گردنوں والے، جبہ ودستار والے، اچکنوں اور شیروانیوں والے اور مغربی سوٹوں والے اور بھی تو بہت ہیں جو راجناتھ کے بیان پر گنگ بنے ہوئے ہیں، کیا راجناتھ کے بیان پر آئی ایس آئی اس بات کا انتظار کرے کہ ان کا نیا سربراہ کام سنبھالے اورپھر ا سکی ا اجازت سے شہر شہر راجناتھ کے پتلے جلائے جائیں ، قریہ قریہ جلوس نکلوائے جائیں،یہ کام آئی ایس آئی ہی کر سکتی ہے، بھارت کو شافی جواب دینے کاہنر اسی کو آتا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ جنرل نوید مختار ا س سلسلے میں کیا متحرک کردارا دا کرتے ہیں، راجناتھ کوجواب دینے کا فریضہ پاکستان مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک ا نصاف ا ور جماعت اسلامی پر بھی عائد ہوتا ہے کہ ان کے ورکر ہر گلی محلے میں موجود ہیں اور اور اگر یہ سب ورکر اپنے گھر کے باہر کھڑے ہوکر راجناتھ مردہ باد کا نعرہ لگا دیں تو اس شور سے بھارت کے کان پھٹ جائیں گے۔مگر میں جانتا ہوں کی مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ا ور تحریک انصاف ایسا نہیں کرے گی، ان تینوں کو بھارت سے دوستی اور قرب عزیز ہے اور وہ گالیاں کھا کر بھی بد مزہ نہ ہوئے کا نمونہ بننے کے لئے تیار ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ نئے آرمی چیف اور آئی ایس پی آر کے نئے چیف کی پالیسی کیا ہو گی مگر جنرل راحیل ہوتے تو وہ اب تک بھارت کو ترنت جواب دے چکے ہوتے ا ور جنرل عاصم باجوہ ایسا ٹویٹ کرتے کہ عالمی میڈیا میں شہہ سرخیاں لگتیں، لوگ جنرل راحیل اور جنرل عاصم باجوہ کومدتوں یاد کریں گے، ہراس لمحے یاد کریں گے جب بھارت کی طرف سے خطر ناک دھمکی آئے گی، میر امشورہ ہے کہ نئی فوجی قیادت اپنے پیش رووں کی سیٹ کی ہوئی پالیسی پر کاربند رہے تاکہ پاکستانی قوم کے حوصلے پست نہ ہوں اور بھارتی قوم شیر نہ ہوتی چلی جائے۔
آخر راجناتھ کو یہ دھمکی دینے کی ہمت کیسے ہوئی،کیااسے بھی اطمیان ہے کہ جنرل راحیل چلا گیا، کیاا سے علم نہیں کہ پاک فوج کا ہر سربراہ جنرل راحیل ہے، مگر کوئی تو رخنہ ایسا ضرور ہے کی جس کا راجناتھ نے فائدہ اٹھایا ہے، کیا اسے یقین ہے کہ اب پاکستانی حکومت کی طرف سے بھارتی جارحیت اور دہشت گردی کی کوئی مزاحمت یا مذمت نہیں ہو گی، ایسے کسی تائثر کو زائل کرنا پاکستان کی حکومت کا فرض بنتا ہے ، اسے بھارت کے ذہن سے یہ خناس نکال دینا چاہئے کہ پاکستان کوئی بھارت کی باجگزار ریاست ہے، کوئی طفیلی ا ور حاشیہ نشین ریاست ہے ، یا بھارت کے ٹکڑوں پر پلنے والی ریاست ہے۔یہ بھوٹان ہے، سکم ہے یا بنگلہ دیش یا افغانستان کہ اس کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ کر سکے، ا سکے سامنے خم ٹھونک کر، سینہ تان کر کھڑی نہ ہو سکے، پاکستان ایسی کمزور ریاست نہیں، یہ ایک آزاد،ہمہ مقتدر اور خود مختار ریاست ہے، یہ ایٹمی طاقت سے مسلح ہے اورا سے بزدلی کی روش پر ڈھالناممکن نہیں، ایں خیال است و محال ا ست و جنوں است!
دنیا کو بھی بھارت کی جارحانہ اور دہشت گردانہ پالیسیوں پر نظر رکھنی چاہئے، وہ تو ریاستی سطح پر دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے،ا س نے فوج کی جارحیت سے حیدا آباد، جوناگڑھ اور کشمیر کے بڑے حصے کو ہڑپ کیا،ا س نے فوجی جارحیت سے پاکستان کو دو لخت کیا اور اب ایک بار پھر جارحانہ موڈ میں ہے اور دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی دے رہا ہے، کیا دنیا پاکستان کو بھارت کی زبان میں جواب دینے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ،اگرا یسا ہے تو پاکستان سے یہ امتیاز کیوں، پاکستان کو بھارت کی ماتحتی میں دینے سے دنیا کو کیا مل جائے گا، کیا بھارت کو ا س سے ہلہ شیری نہیں ملے گی اور وہ خلیج فارس سے لے کرراس کماری تک اپنی بلیو واٹر نیوی کی طاقت سے بالا دستی حاصل کر لے گا اور مہا بھارت کو زندہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، یاد رکھئے، میری اس بات کو یا درکھئے ، ہم تو بزدل بن سکتے ہیں مگر ہمارے اور بھارت کے پڑوس میں ایک طاقت اورہے اور وہ ہے چین، یہ کسی طور پر بھارت کو ایسی بالادستی مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔آپ کو اپن آزادی عزیز نہ بھی ہو تو چین کو اپنی جان کی طرح عزیز ہے، ویسے پاکستانی قوم کی غیرت کو بھی جاگنا چاہئے۔