خبرنامہ

سلالہ کی کربلا!!!

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سلالہ کی کربلا!!!

پاکستان نے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ جب تک سلالہ چیک پوسٹ پر حملے پرمعذرت کا اظہار نہیں کیا جاتا، امریکہ کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ وزیراعظم وزیر خارجہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے ایک مشترکہ اجلاس میں سامنے آیا ہے۔ اس اجلاس میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی رپورٹ پر بھی غور کیا گیا اور ایک بار پھر اس سانحے سے متعلق امریکی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی تحقیقاتی رپورٹ الٹا پاکستان کے خلاف چارج شیٹ ہے۔
یہ ر پورٹ سنٹکام کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور جہاں تک میں اس پرنظرڈال سکا ہوں، مجھے ایک لفظ ایسا دکھائی نہیں دیا گیا جس میں اس واقع کو افسوسناک ہی قرار دیا گیا ہو۔ اسی رپورٹ پر جی ایچ کیو کا ردعمل آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر پوری تفصیل سے موجود ہے۔ میرے لیے محض ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ انصاف،منطق، دلیل اور واقعاتی شہادتوں کی بنا پر بھی جی ایچ کیو کے رول پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ امریکی رپورٹ کے بنیادی نکات دو ہیں: ایک یہ کہ پاکستان نے فائرنگ میں پہل کی۔ دوسرے، امریکی فورس نے محدود جوابی کارروائی کا حق استعمال کیا۔ فائرنگ میں پہل کا الزام پاکستان کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ہے جبکہ محدود جوابی کارروائی کے الفاظ سے سراسر دھوکہ دینا مقصود ہے کیونکہ کوئی جوابی کارروائی مسلسل دو گھنٹوں پرمحیط نہیں ہوا کرتی، نہ حدود کارروائی کے لیئے دوایف پندرہ، دو اٹیک ہیلی کاپٹر، چونسٹھ اپاچی ہیلی کاپٹر،بارہ جاسوس طیارے، اور بارود سے بھرے ہوئے کارگو طیارے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ آپریشن کے دوران ڈرون بھی علاقے میں محو پرواز رہے۔ حملے میں پہل اگر پاکستانی افواج نے کی تھی تو امریکی، نیٹویا افغان فوجیوں کا جانی نقصان کیوں نہیں ہوا کی وہ کوئی جناتی مخلوق تھے جن پر پاکستانی مشین گنوں اور توپوں کے گولے اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے۔
امریکی رپورٹ میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ پاکستانی چیک پوسٹوں کی انہیں کوئی اطلاع نہیں تھی، اس لیئے جب ان پر پاکستان کی طرف سے فائر کیا توانہوں نے سمجھا کہ وہ دہشت گردوں کی زد میں ہیں۔ یہ دعویٰ بھی سفید جھوٹ کے مترادف ہے کیونکہ اس حملے سے پہلے امریکی اور نیٹو افواج پاکستانی پوسٹوں کے سامنے اپنے علاقے مایا گاؤں کے اردگرد تین آپریشن کر چکی تھیں اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے جاسوس طیاروں کو پاکستانی پوسٹوں کی موجودگی کاعلم نہ ہو سکا ہو۔ ویسے بھی پاکستانی افواج نے کئی ماہ کے آپریشن میں مہمند ایجنسی کو دہشت گردوں سے پاک کر کے علاقے میں جا بجا پوسٹیں قائم کردی تھیں۔ ان پوسٹوں کے سامنے افغان علاقے میں امریکی،نیٹو یا افغان فوج کی کوئی پوسٹ نہ تھی چنانچہ دونوں طرف سے دہشت گردوں کی نقل حرکت روکنے کے لیئے یہ پوسٹیں انتہائی اہم تھیں۔ کنڑ وادی اور نورستان کے علاقے میں افغان گاؤں مایا کے سامنے آٹھ ہزار فٹ بلند ایک پہاڑ پر پاکستان کی دوپوسٹیں ننگی آنکھ سے دیکھی جاسکتی تھیں جن کا آپس میں چودہ سو پچاس میٹر فاصلہ تھا اور جو تین سو سے چارسوفٹ پاکستانی سرحد کے اندر واقع تھیں۔ ایک پوسٹ والکینو پر پاک فوج کے ستائیس اور دوسری پوسٹ بولڈر پر پچیس جوان اور افسرمتعین کیئے گئے تھے۔ کسی بھی خطرے کی صورت میں انہیں محدود فائر کی اجازت دی گئی تھی اور دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ایک معمول کی بات تھی۔ وقوعہ کے روز جس جگہ پاکستانی مارٹر گولے گرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس مقام پر امریکی، نیٹو یا افغان فوج موجود نہیں تھی۔ بلکہ یہ افواج بالکل الٹ سمت میں جارحانہ حملے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ عام طور پر اگر کسی علاقے میں امریکیوں کو کوئی آپریشن کر نا ہوتو وہ پاک فوج کو اس سے پیشگی مطلع کرتی ہیں۔ یہ شرط رولز آف بزنس میں شامل ہے، امریکی فوجی آپریشن سیاقہ جو سلالہ چیک پوسٹ کے علاقے میں کیا گیا، اس کے بارے میں جنرل ایلن خودراولپنڈی آئے اور انہوں نے نقشوں کی مدد سے سیاقہ آپریشن کرنے کے لیے جس علاقے کی نشاندہی کی اس میں والکینو اور بولڈر پوسٹوں کے قریب ترین علاقہ بھی شامل نہیں تھا۔ آخری قابل غور نکتہ یا شرط یہ ہے کہ جونہی غلطی سے ایک دوسرے پر فائرنگ شروع ہو جائے تو دونوں اطراف سے اس کی نشاندہی پر فائرنگ فوری طور پر روک دی جاتی ہے لیکن ان پوسٹوں پر دو گھنٹے سے زائد جارحانہ حملہ جاری رکھا گیا، اس دوران میں ہرسطح پر پاکستان نے امریکیوں کو ان کی غلطی کی نشاندہی کی لیکن اس کے باوجود جارحیت سے ہاتھ نہیں روکا گیا اور خود امریکی فوج کی تحقیقاتی رپورٹ کے الفاظ ہیں کہ حملہ اس وقت روکا گیا جب پہاڑی چوٹی پر موجود موت کی خاموشی طاری نہیں ہوگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایک فرد کی شہادت یا اس کے شدید رزمی ہونے کا پختہ یقین نہیں کر لیا گیا حقیقی معنوں میں یہ ایک نئے دور کی کربلا کا منظر تھا۔ یہ خون کی ہولی تھی جس میں تقریبا نہتے افراد کو میزائلوں، بموں اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا، ان کے بکرز، زمین دوز نہیں تھے بلکہ پہاڑی چوٹیوں کے اوپر بنائے گئے تھے، اس لیئے ایک ایک بکر کونشانے میں لے کر تباہ کیا گیا کسی محدود جوابی کارروائی میں ایسانہیں کیا جاتا بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اشتعال انگیز کارروائی تھی اور وہ بھی ایک ایسی فوج کے خلاف جو بارہ برس سے وار آن ٹیرر میں امریکہ کی حلیف ہو اور جس نے امریکیوں سے زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اس ملک کے پینتیس ہزار افرادنے جام شہادت نوش کیا جن میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل ہیں۔
امریکہ کوکوئی حق حاصل نہیں کہ وہ ہماری نیت پر شک کرے اورہمیں دوہرے کردار کا حامل قرار دے۔ آج امریکہ ہی نہیں، پوری دنیا میں لوگ سکون اور چین کی نیند سوتے ہیں تو اس کا سہرا ان بہادر، جری اور ایثار پیشہ پاکستانی افواج اور عوام کو جاتا ہے جنہوں نے نامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ امریکہ کو اس سے پہلے سوویت روس کے خلاف ضرورت پڑی تو بھی پاکستانی فوج اور عوام نے قربانیاں دیں اور اس سپر پاور کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس پاکستان کو امریکہ اگر یہ صلہ دیتا ہے کئض شک کی بناپر اندھا دھند دو گھنٹے تک ہزاروں بموں، میزائلوں اور گولیوں سے چوبیس افسروں اور جوانوں کی تکا بوٹی کر دیتا ہے تو پھر پاکستان کی طرف سے اسے دوستی، مفاہمت اور تعاون کا خیال دل سے نکال دینا چاہیئے۔
ہم نے ابھی تک امریکہ کے خلاف صبر اورتحمل کا ثبوت دیا ہے۔ گو ہماری پارلیمنٹ کا متفقہ مطالبہ ہے کہ آئندہ ہر حملہ آور کو منہ توڑ جواب دیا جائے لیکن ابھی تک ڈرون حملے ہورہے ہیں۔ کہنے کو ہماری افواج پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عمل نہیں کر رہیں۔ میرا خیال ہے کہ افواج پاکستان اس ملک اور قوم کو کسی بڑی تباہی میں نہیں دھکیلنا چاہتیں اور امریکہ کو موقع دے رہی ہیں کہ وہ اپنا رویہ بہتر کرے، اپنے کئے کی معافی مانگے اور آئندہ مکمل اشتراک عمل کا مظاہرہ کرے۔ پاکستان کو دہشت گردوں سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن پاکستان یہ بھی پسند نہیں کرے گا کہ اسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بھی جھونکا جائے اور امریکہ بھی جب چاہے، ہماری خودمختاری اور ہمارے اقتدار اعلی کو کچل ڈالے۔
پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ضرور ہے لیکن ایک خودار ملک کے طور پر اپنی آزادی، سلامتی اور اپنے اقتدار اعلی کا تحفظ کرنا جانتا ہے۔ امریکہ نے دیکھ لیا ہے کی تمام تر اختلافات کے باوجود پاکستانی قیادت متحد ہے۔ میمو کے اسکینڈل کے باوجود حکومتی اداروں میں کوئی دراڑ نہیں آئی، وہ عدالتوں میں ضرور ایک دوسرے کے خلاف پیش ہورہے ہیں لیکن جب امریکہ کا مسئلہ آتا ہے تو سول اور فوجی قیادت بلکہ اپوزیشن بھی یک زبان دکھائی دیتی ہے، وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح یک جان ہے، امریکہ اس قوم کا مزید امتحان نہ لے۔
(25جنوری 2012)