خبرنامہ

سوات آپریشن میں ڈاکٹر آصف جاہ کے ساتھ ساتھ .. اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سوات آپریشن میں ڈاکٹر آصف جاہ کے ساتھ ساتھ .. اسد اللہ غالب

یہ میرے زمانہ جاہلیت کی بات ہے، ان دنوں میں نے ابھی ڈاکٹر آصف جاہ کا نام بھی نہیں سنا تھا، مگر آشنائی اس وقت ہوئی جب ضرب عضب کے راستے پر چلتے ہوئے ہم دونوں کی سمت ایک ہو گئی، وہ ریلیف ورک میں سرگرم اور پیش پیش تھے اور میں پاک فوج کے چوڑے چکلے سینوں والے کڑیل جوانوں کی شجاعت کا شاہنامہ لکھ رہا تھا۔ اس کے بعد سے مجھے یوں لگا کہ آصف جاہ اور میرے جسم تو الگ الگ ہیں مگر ان میں روح ایک ہے، پھر وہ جس منزل کا رخ کرتے، مجھے بھی وہیں منتظر پاتے۔ میں نے تھر کے قحط، آواران کے زلزلے، پنجاب اور خیبر پی کے کے سیلاب، ترکی میں شامی مہاجرین اور اب روہنگیا کے المیے کا ان کی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ میرا قلم ان کی نیکیوں کو رقم کرنے کے لئے ان کا منشی بن گیا تھا۔

مگر آصف جاہ تو ضرب عضب سے پہلے ہی ظہور پذیر ہو چکے تھے۔ یہ حقیقت مجھ پر اب کھلی ہے جب میںنے اپنے گھر میں کتابوں کے ڈھیر پر ایک نظر ڈالی۔ اس میں سے ان کی کئی کتابیں ملیں، ایک جاپان کے سفر نامے پر مشتمل ہے۔ دوسری آزاد کشمیر اور شمالی علاقوں کے زلزلے پر اور تیسری سوات آپریشن پر۔ چوتھی چین کا سفر نامہ۔ میں یہ کتابیں اپنی کم نظری یا کوتاہ نگاہی کے عارضے کی وجہ سے نہیں پڑھ سکا تھا، مگر اب جو ایک مشین منگوا لی تو میری کوشش ہے کہ اس سے پہلے کہ خدانخواستہ یہ مشین بھی کارآمد نہ رہے، میں ان کتابوں پر ایک مبسوط نظر ڈال لوں،، کتابیں تو اور بھی ہیں اور میرے اوپر کافی ادھار چڑھ گیا ہے۔ برادرم بریگیڈیئر صولت رضا کے غیر فوجی کالم، اظہار الحق کے اظہاریئے۔ وحید رضا بھٹی کی قصے لاہور کے اورشہید کالا باغ ڈیم ظفر محمود کی دائروں کے درمیان، ابھی اور بھی ڈھیر لگا ہے اور جوں جوں وقت ملا، انشاء اللہ ہفتے میں ایک دو کتابوں پر تو لکھنے کی ضرور کوشش کروں گا، ضیا شاہد توحکم دے کر کالم لکھوا سکتے ہیں۔ مگر اکثر مصنفین بڑے صابر و شاکر واقع ہوئے ہیں ، کبھی کبھار گلہ کر کے خوش رہتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب ’’سوات، ہجرت اور خدمت ‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے مگر پہلے میں یہ تو بتا دوں کہ آصف جاہ جیسے نیک انسان سے ملاقات کب اور کیسے ہوئی۔ ہوا یوں کہ مارکیٹ میں ان کے حج کے سفرنامے، اللہ، کعبہ اور بندہ نے دھوم مچائی تو میرا دل للچایا کہ اس قدر عظیم کتاب لکھنے والے کی زیارت تو کر لوں، میںنے دوستوں کی ایک محفل میں انہیں مدعو کیا۔ ہم سب ایک میز کے گرد بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک اجنبی شخص آیا اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ہم سمجھے کہ ڈاکٹر آصف جاہ کا کوئی سیکرٹری ہو گا۔ آخر وہ لاہور ایئر پورٹ کے کلکٹر کسٹم تھے، بہت دبدبہ ہوتا ہے ایسے افسر کا اور ہمارے سامنے جو شخص آن بیٹھا تھا، وہ عجز و انکسار کا مرقع، چہرہ نورانی، آخر وہ خود ہی بولے کہ ان کا نام آصف جاہ ہے اور وہی ہماری مجلس کے مہمان ہیں۔ تو یہ تھی ان سے پہلی ملاقات جو نہ ختم ہونے والی ملاقاتوں کا نکتہ آغاز تھی۔
میںنے سوات آپریشن والی کتاب آج کیوں اٹھائی ہے، اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ سوات میں پاک فوج نے پہلا آپریشن کیا۔ بظاہر تو یہ اپنے لوگوں کے خلاف آپریشن تھا جو مینگورہ کے چوک میں کسی کو بھی پکڑ کر گولیوں سے چھلنی کر دیتے تھے اور پھر ایک بجلی کے کھمبے سے اس کی لاش دوسرے لوگوں کی عبرت کے لئے تین دن تک لٹکائے رکھتے تھے۔ میں آپ سے ایک سادہ سا سوال کرتا ہوں کہ کوئی جنونی ایسا کام دو چار روز تک تو ضرور کر سکتا ہے، مگر وادی سوات، مردان اور مالا کنڈ کے وسیع علاقوں کو ناکے لگا کر زیر نہیں کر سکتا تھا۔ اور جو لوگ یہ کام ہر روز کر رہے تھے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا وہ اپنے لوگوں کا کام تھا، جواب ہے کہ ہر گز نہیں، یہ ہمارے دشمن تھے، جو ہماری قوم اور ہمارے ملک کے دشمن تھے، انہوںنے بہروپ پہن رکھا تھا۔ ان کی ڈاڑھیاں بھی تھیں، انہیں قرآن و حدیث کے مسائل بھی ازبر تھے۔ وہ مساجد میں بھی جاتے تھے اور ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے سیاہ ہالے بھی تھے مگر ان لوگوں کی حقیقت تب کھلی جب پاک فوج نے یہ غیر معمولی آپریشن کیا اور اس میں جو مقابلے میںمارے گئے جب ان کی نعشوں کا معائنہ کیا گیا تو ان پر مسلمانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ صاف پتہ چل گیا کہ یہ دشمن کی ناپاک سازش ہے۔ وہ ہمارا مصلح بن کر اپنی شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، تاریخ اسلام میں ایسے بہروپیوں اور سازشیوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ ایک سوال اورآپ سے پوچھوں گا اگر یہ لوگ مقامی ہوتے تو پھر انہیںمقامی آبادی کی حمایت بھی میسر آنی چاہئے تھی، مشرقی پاکستان میں ہمارا سابقہ جس دشمن سے پڑا، وہ مقامی تھا اور اسے مقامی آبادی کی اکثریت کی حمائت بھی میسر تھی، اس لئے ہم شکست کھا گئے اور ملک بھی دولخت کروا بیٹھے۔ مگر سوات میں جن سے ہمارا پالا پڑا، وہ سب بیرونی عناصر تھے، کس نے بھیجے، بھارت نے ضرور بھیجے اور دیگر طاقتیں بھی بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہی ہوں گی مگر ان بیرونی عناصر کو مقامی آبادی میں سے کسی ایک کی حمائت بھی میسر نہ آئی، اس لئے چند ماہ کا مختصر سا آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا، یعنی مقامی آبادی کو ایک عارضی وقفے کے لئے گھر بار چھوڑنے پڑے، اور پھر چند مہینوں کے اندر اندر سوات کی ہری بھری نیلگوں پانیوں اور گنگناتے جھرنوں والی وادی میں امن بھی لوٹ آیا اور ہجرت کرنے والے بھی گھروں کو لوٹ گئے، ان کے گھروں، دکانوں اور دفتروں پر وہی تالے تھے جو وہ خود لگا کر گئے تھے۔ پاک فوج نے انہیں خوش آمدید کہا اور نئی زندگی کے لئے وسائل کا ڈھیر لگا دیا۔
ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب ان تین ماہ کے لئے مہاجر بننے والوں کی بپتا کی کہانی ہے مگر بڑی روشن کہانی، بڑی ایمان افروز کہانی۔ مواخات مدینہ کی کہانی۔ اور ڈاکٹر صاحب اور ان کی ان تھک ٹیم کے ریلیف ورک کی کہانی۔ ڈاکٹر آصف جاہ کے جذبوں کوجس قدر سلام پیش کیا جائے کم ہے اور جن نیک ہستیوںنے ان سے دامے درمے سخنے تعاون کیا، اصل میں اس کتاب کے ہیرو وہی ہیں مگر وہ پس پردہ ہیں، اچھا ہے کہ پس پردہ رہیں، انہیں ان کی نیکیوں کا اجر اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات اپنے ہاتھوں سے دے گی اور دگنا چوگنا کر کے دے گی، ان کی توقع سے کہیں بڑھ کر د ے گی۔
میں بندہ ناچیز اس کتاب پر کیا رائے دوں کہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا مگر ملک کے عظیم قلم کاروں نے ڈاکٹر آصف جاہ کی خدمات پر جو تبصرے کئے، ان کی خوشہ چینی پر اکتفا کرتا ہوں۔
عطاا لحق قاسمی لکھتے ہیں: اچھے انسان پھولوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جو اپنے اطراف میں خوشبو بکھیرتے ہیں۔ ان کا وجود معاشرے کے لئے ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اوریا مقبول جان لکھتے ہیں: مجھے ڈاکٹر آصف جاہ پر رشک آتا ہے جو صاحب قل بھی ہوں اور صاحب کردار بھی، جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے وادیاں وادیاں گھومیں اور اپنے اس سفر سے ایک ایسا شہ پارہ بھی تخلیق کر لائیں جو اپنی جگہ پر ایک تاریخ بھی ہے اور تاریخ ساز بھی۔
اور حسن نثار جوکسی کی تعریف میں کنجوس ترین ثابت ہوئے ہیں، اس کتاب پر ایک نظر ڈالتے ہیں ان کا ایمان بھی ڈول گیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھنے لگ جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جس میں کبھی کبھی اشرف بھی پیدا ہوتے ہیں جیسے ہمارا اشرف، آصف جاہ۔ جو قحط الرجال میں ایک ایسا انسان ہے جس پر ہم جیسے کم زور یا نیم انسان فخر کر سکتے ہیں۔
میرا دل کرتا ہے کہ جب کوئی امریکی حکومتی اہل کار پاکستان پر ڈو مور کا دبائو ڈالنے آئے تو اسے یہ کتاب پیش کروں اور پوچھوں کہ ہم نے کتنے کل بھوشنوں اور ریمنڈ ڈیوسوں کے خلاف ڈو مور کرنا ہے۔