خبرنامہ

سکوک بانڈز۔ پاکستا ن پر عالمی برادری کااعتماد۔۔اسداللہ غالب

گزشتہ روز میں نے پریشانی کی وجہ سے کالم نہیں لکھا، پریشانی کی وجہ سبھی کے علم میں ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کشمیریوں سے یک جہتی کے اظہار کے لئے منعقد کیا جاتا ہے مگر اس میں خیبر پی کے میں حکمران پارٹی تحریک انصاف شرکت نہیں کرتی اور اجلاس کے دوسرے روز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اس قدر تناؤ پیدا ہوتا ہے کہ اجلاس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، ایک انگریزی اخبار نے آل پارٹیز کانفرنس کی اندرونی کہانی اس قدر مرچ مصالحہ لگا کر پیش کی کہ ہرکوئی سٹپٹا کر رہ گیا اور اگر کوئی کسر باقی تھی تو ٹی وی چینلز نے پرانے ٹوٹے چلا کر پوری کر دی۔جن میں سیاستدان فوج کے لتے لیتے دکھائی دیئے۔
سرحدوں کے اوپر صورت حال الگ پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے، مودی کی دھمکیوں کو گننے بیٹھیں تو سانس پھول جاتا ہے، کنٹرول لائن پر آئے رو زگولہ باری ا ور مقبوضہ کشمیر میں ہر روز نہتے اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام معمول بنتا جا رہا ہے۔
ایک سرجیکل اسٹرائیک ہوئی یا نہ ہوئی، ڈر ہے کہ یہ سلسلہ مستقل ہی نہ چل نکلے اور کہیں بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو اور برصغیر کو راکھ نہ کر دے۔
میں کیا کیا پریشانی گنواصؤں ۔
مگر میں آپ کو پچھلی صدی کے اسی کے عشرے میں لئے چلتا ہوں ، میرا معمول تھا کہ مہینے میں ایک دفعہ منٹگمری روڈ پر منوں ہاؤس میں علی الصبح جاتا، شہزادہ عالم منوں کی طبیعت میں عجب مٹھاس تھی، اپنادفترکھلنے تک دو گھنٹے ان کی صحبت میں گزارتا، ایک تو ٹھنڈی لسی پینے کو ملتی اور دوسرے ٹھنڈی ٹھار باتیں سننے کو ملتیں، میں نے ایک روز حیرت سے پوچھا قبلہ! ملک میں افراتفری کا عالم ہے، افغان جہاد جاری ہے، پاکستان میں روز دھماکے ہوتے ہیں، لوگوں کی جان پر بنی رہتی ہے، مگر آپ شانت دکھائی دیتے ہیں ،کیا اندرونی ا ور بیرونی خطرات کے باعث آپ کے کاروبار پرمنفی اثرات نہیں پڑتے، شہزادہ عالم منوں نے قہقہہ لگایا، کہنے لگے کہ افغان جہاد شروع ہونے سے قبل اگر ہماری چار پانچ ٹیکسٹائل ملیں تھیں تو اب انکی تعدا د تیرہ چودہ تک پہنچ چکی ے، ہمیں تو کوئی خطرہ محٖسوس نہیں ہوتا۔
اور یہ جو گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ وہ تمام تر خطرات اور کشیدہ ماحول کے باوجود ایک بلین ڈالر کے سکوک بانڈز فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ا ور وہ بھی ملکی تاریخ کی کم تریں شرح منافع پر، تو مجھے ایک دم شہزادہ عالم منوں یا دآ گئے، اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، چند برس قبل وہ خاموشی سے انتقال کر گئے۔
اسحاق ڈار اس قوم کے کماؤ پتر ثابت ہوئے ہیں، ان کے دم قدم سے خزانہ لبا لب بھرتا چلا جا رہا ہے۔ ایک ماہرمالیات نے کہا کہ یہ تو سب قرضہ ہے، میں نے کہا کہ کیا آپ مجھ غریب کو دس کروڑ قرض دے سکتے ہیں، شاید چند ہزار بھی نہیں دیں گے تو پاکستان نے 23 ملین ڈالر سے اوپرزرمبادلہ جمع کر لیا ہے تو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ اس ملک کی سلامتی، آزادی کو لاحق خطرات کو وہ خاطر میں لانے کو تیار نہیں ، وہ ملکی قیادت ،مالیایے اور اقتصادی مینجرز پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ ملکی معیشت کی شرح نمو میں سال بہ سال اضافے سے بیرونی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کو حوصلہ ملتا ہے کہ ان کاپیسہ ضائع نہیں جائے گا۔ ملک کے اندر میگا پراجیکٹس پر کام جاری ہے ا ور سی پیک جیسا جناتی منصوبہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے، ملک کے اندر سے اس پر کوئی اعتراض وارد ہو تو خود چینی حکومت ان شکوک وشبھات کو رفع کرتی ہے، ایک جھگڑا البتہ عالمی سطح پر چل رہا ہے، دیکھئے ا س سے چین کیسے نبٹتا ہے مگر پاکستانی قوم چین کی دوستی پر فخر کرتی ہے اور آڑے وقت میں اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے سیاستددان بیرونی دنیا کے رویئے سے سبق سیکھیں ، اگر ایک بلین ڈالر کے سکوک بانڈز خریدنے والے پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں تو ہم مایوسی کا شکار کیوں ہیں اور یہی مایوسیاں آگے کیوں پھیلا رہے ہیں۔
ایک سبق پاکستانی قوم کے لئے بھی ہے، وہ یہ کہ اگر ایک بلین ڈالر کے سکوک بانڈز خریدنے والے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کو خاطر میں نہیں لاتے تو ہم بھی اپنے وسوے دل سے نکال دیں اور اپنے معمولات کو پر سکون طور پر جاری رکھیں۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارت کی دھمکیاں صرف گیدڑ بھبکیاں ہیں۔
ایک سبق خاص طور پر عمران عالی شان کے لئے ہے کہ انہوں نے رائے ونڈ کا گھیراؤ کر کے دیکھ لیا، اب اسلام آابد بند کرنے کی دھمکی بھی دے دی،مگر پاکستان کے ساتھ معاملات کرنے والے بیرونی پلیئرز ،عمران خاں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ا س سے پہلے بھی عمران نے اسلام آباد کو کئی ماہ تک بند کیئے رکھا، سوائے چینی صدر کے دورے کے التو کے ، ]اکستان کو خاص نقصان نہیں پہنچا، چینی صدرگو تاخیر سے تشریف لائے۔مگرانہوں نے اتنے عظیم الشان منصوبوں کی منظوری دے دی، کہ پاکستانیوں کی آ نکھیں خیرہ ہو گئیں۔اس لئے عمران خاں کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ وہ ملک کو کوئی قابل ذکر جوہری نقصان پہنچا سکتے ہیں، خدا انہیں ایسی توفیق نہ ہی دے۔
رہا بھارتی جارحیت کا خطرہ تو جب دونوں ملک ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں تو پھرصرف لفظی جنگ ہی ہو سکتی ہے، دور دور مضفوظ مورچوں میں بیٹھ کر مشین گنوں سے گولیوں کی بارش کی جاسکتی ہے، کنٹرول لائن کو پار کرنا بھارت کے لئے ممکن نہیں۔ اور پاکستان ن کے اندر کسی سرجیکل اسٹرائیک کا تو خیال ہی بھارت کو دل سے نکال دینا چاہئے۔
پاکستان توجنگ نہیں چاہتا، ملک کی حکومتی ٹیم کی نظریں ترقی اور خوش حالی کے منصوبوں کی تکمیل پر لگی ہیں۔یہی حال بھارت کا ہے، مودی بھی انتخابی مہم میں شائننگ انڈیا کے نعرے لگاتا رہا ہے،ا سلئے وہ جنگ چھیڑ کر اپنے و عدوں پر مٹی کیوں پھیرے گا، بس عوام کو بیوقوف بنانا ہے تو جتنا چاہے بنا لے۔
داد ددینی چاہئے اپنے وزیرخزانہ کو جو ملک کے پراگندہ سیاسی ماحول کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور سرحدی کشیدگی سے بھی خوف زدہ ہوئے بغیر ملکی خزانے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوڑ دھوپ جاری رکھتے ہیں۔