خبرنامہ

سیف سٹی ، سیف پاکستان۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
پیر کو لاہور میں چھٹی کا دن تھا، یہ دن جنرل راحیل شریف کی چھٹی کی بھی خبر لایا۔جنرل راحیل کے جانے کی سب سے زیادہ خوشی لاہور کے ڈاکووں نے منائی، منانی بھی چاہیے تھی کہ اب انہیں کس کا ڈر تھا،کسی کا ڈر نہ تھا، ہوتا تو وہ یوں دندناتے نہ پھرتے اور شہر پر ڈاکو راج مسلط نہ کرتے۔خدا کی پناہ ! ایک دن اوران گنت وارداتیں، سب کچھ دن دہاڑے، سڑکوں کے کنارے، اشاروں اور کیمروں کے سامنے، دکانوں پر بیٹھے تاجر ، ہر کوئی لٹ گیا۔اس شہر میں چیف منسٹر بھی تھے، ان کے وزرا بھی تھے، ٹاپ بیوروکریسی بھی تھی، آئی جی پولیس بھی تھے، اور ڈولفن ، کوئیک ریسپانس فورس ، ایلیٹ وغیرہ وغیرہ، مگر ڈاکووں کو پتہ تھا کہ آج جنرل راحیل شریف بھی لاہور میں توہیں مگر ان کی رٹ ختم ہو گئی ہے، اس سے ڈاکو شیر ہو گئے ۔
میں شہباز شریف کی گورننس کا دل سے قائل تھا، ا سلئے کہ شہر یا صوبے میں لاقانونیت نہیں تھی مگر میراا یمان پچھلے جمعے کو متزلزل ہو گیا، چیف منسٹر کی رہاش گاہ سے ملحق ماڈل ٹاؤن میں ہی ایک وفاقی ادارے کا دفتر ہے، پروٹیکٹوریٹ آف امیگرنٹس یا، یہاں میرا بڑا بیٹا کام کرتا ہے، اس نے جمعہ ادا کیا اور یہ سوچ کر کہ ابھی کچھ دیر بعد تو چھٹی ہو جائے گی، اپنی موٹرسائیکل دفتر کے باہر ہی پارک کر دی، وہاں کئی سیکورٹی اہل کار موجود ہوتے ہیں اور سائلین کا بھی ہجوم لگا رہتا ہے، بیٹا مغرب کے بعد باہر گیٹ پر آیا تو سب کچھ اپنی جگہ پر تھا مگر ا سکی موٹرسائیکل نہ تھی، ایک درمیانے درجے کے سرکاری اہل کارکا یہ بہت بڑا نقصان تھا۔ مجھے خبر ملی تو میرا پہلا تبصرہ یہ تھا کہ چیف منسٹر کی رٹ ان کے اپنے پانچ چھ گھروں تک محدود کیوں ہو گئی۔یہ گھر واچ ٹاورز سے گھرے ہوئے ہیں، کسی چڑیا کو پر مارنے کی مجال نہیں۔ سیکورٹی کے اس حصار میں چیف منسٹر تو بالکل محفوظ ہیں۔مگراس حصار کی دیوار سے ملحقہ گھروں میں حفاظت کا انتظام ایک سوالیہ نشان ہے۔
پیر کا دن لاہور میں ڈاکووں کے راج کا دن تھا، اس کی ساری تفصیل ٹی وی چینلز پر بیان کی جا چکی،اخبارات میں بھی چھپ چکی اور لوگوں نے پنجاب حکومت کے ترجمان کا یہ لچھے دار تبصرہ بھی سن لیا کہ اسٹریٹ کرائم تو نیویارک اور واشنگٹن میں بھی ہوتے ہیں۔مگر لاہور کو محفوظ بنانے کے لئے سیف سٹی پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔
میں یقین سے کہتا ہوں کہ ڈیڑھ سال بعد یہی ترجمان انتخابی جلسوں میں کہہ رہے ہوں گے کہ ہمیں ووٹ دو تاکہ ہم آپ کو ڈاکووں سے بچانے کی تدابیر کر سکیں، پچھلا الیکشن لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے دور کرنے کے وعدے پر جیتا گیا، اگلے الیکشن تک ڈاکو اس قدر اندھیر گردی مچا دیں گے کہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کا مسئلہ الیکشن ایشو بنا دیا جائے گا۔ پھر لوگ لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے ڈبے کو ووٹوں سے بھر دیں گے، اس لئے کہ ہر کسی کو اپنی جان اور اپنی دولت پیاری ہے۔
جس ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے شہر لاہور کو طرح طرح کی پولیس محفوظ نہیں بنا سکی، اسے سیف سٹی کے کیمرے کیسے محفوظ بنا سکیں گے، کیمرے کی فلم تو اب بھی چیف منسٹر کی میز پر پڑی ہے، آئی جی پولیس کے پاس بھی موجود ہے مگر ۔۔۔۔۔
لاہور شہر چیف منسٹر کے لئے اس حد تک محفوظ نہیں کہ وہ سیکرٹریٹ میں اپنے دفتر تک آ جا سکیں یا زیادہ محفوظ علاقے جی او آر ون میں کلب روڈ کے دفتر میں بیٹھ سکیں اور محض اپنے آبائی گھر میں ہی بیٹھ کر فائلیں نکالیں یا وڈیو کانفرنس سے دل بہلائیں۔ کاش! حضرت عمرؓ کو بھی وڈیو کانفرنس کی سہولت میسر ہوتی اور انہیں ایک اونٹ پر سوار ہو کر صرف ایک غلام کی معیت میں دور دراز کے سفر کا دکھ نہ جھیلنا پڑتا۔اب یہ وڈیو کانفرنس کا نظام شہر لاہور کو سیف سٹی میں تبدیل کرے گا۔
یہ سیف سٹی پراجیکٹ کیا ہے۔ کسی کوکچھ پتہ نہیں، چیف منسٹر نے اس پر ایڈیٹروں کو بیفنگ نہیں دی ، صوبے میں کوئی وزیر اطلاعات ہے نہیں جو کالم نویسوں ا ور نامہ نگاروں کو اس پراجیکٹ پر بریف کر سکے۔مگر یہ پراجیکٹ زور وشور سے جاری ہے، پورا شہر کھودا جا رہاہے، وہ سڑکیں جو اربوں یا عربوں یا قطریوں کے خرچ سے نئی نئی بنی ہیں ، وہ کھود ڈالی گئی ہیں۔ جیسے قطری شہزادے نے بزرگوں سے کوئی خبر سنی، اسی طرح میں نے بھی یہ خبر کسی سے سنی ہے کہ ایک غیر ملکی کمپنی لاہور کے حسن کو برباد کر رہی ہے، ایک طرف اورنج ٹرین کی مٹی کے پہاڑ ہیں ، وہ تو صرف ایک سڑک پر ہیں مگر سیف سٹی کی وجہ سے غیرملکی کپمنی نے شہر کی ہر سڑک کو کھودنے کامنصوبہ تیار کیا ہے اور اس پر عمل ہو رہا ہے، یہ غیر ملکی کپنی ایسٹ انڈیا کی طرز کی کوئی کمپنی ہے، ا س کو کام کس نے دیا، کس ٹنڈر کے تحت دیا، میں آپ کو حلفیہ بتاتا ہوں کہ پاکستان میں کام کرنے والے آئی ٹی کے درجنوں ادارے بھی اس سے بے خبر ہیں۔سیف سٹی پراجیکٹ بھی ایک آئی ٹی کا منصوبہ ہے جس کے تحت پورے شہر میں فائیبر آپٹک کیبل بچھائی جا رہی ہے، اس کیبل پر کیمرے نصب کئے جائیں گے جو پورے شہر کی نگرانی کریں گے۔ میں آپ کو اگر یہ بتاؤں کہ جو نئی کیبل بچھائی جا رہی ہے اور جس کے لئے پورے شہر کو کھودنے کی تیاری ہورہی ہے، ایسی کیبل نصف درجن ادارے پہلے ہی شہر میں بچھا چکے ہیں اور ایک سرکاری ادارہ پی ٹی سی ایل بھی ایسی ہی کیبل پر ٹیلی فون ، اسمارٹ ٹی وی ،ڈی ایس ایل ، وڈیوکانفرنس وغیرہ کی جدید تریں سہولتیں فراہم کر رہا ہے، پاکستان ایک ایساملک ہے جہاں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی، نہ کسی منصوبے میں مشاورت کی جاتی ہے، سی پیک کی خرابی بھی یہی ہے کہ اس کی تفصیل سے تین صوبوں کے چیف منسٹر تک لا علم ہیں۔لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے بارے میں صرف غیر ملکی کمپنی ہی کچھ جانتی ہو گی ، اور اگر اس پر مشاورت کی جاتی تو چیف منسٹر کو یہ مشورہ دیا جاسکتا تھا کہ دنیا میں چین کے علاوہ بھی کئی ملک موجود ہیں ا ور ان میں سنگا پور بھی شامل ہے، سنگا پور میں صرف ایک سرکاری ا دارے نے فائیبر آپٹک کیبل بچھا رکھی ہے اور اسے ہر کسی کوا ستعمال کرنے کا حق ہے ،بس اپنی آمدنی شیئر کرنا پڑتی ہے۔اور سنگا پور کو فائدہ یہ ہے کہ وہاں صرف ایک کیبل ہے ، کہیں خرابی ہو تو تھوڑی سی جگہ کی کھدائی سے اس کی مرمت کر لی جاتی ہے، لاہور میں نصف درجن اداروں کی کیبل ہے ، اور روز کسی نہ کسی کی کیبل کہیں نہ کہیں خراب ہوتی ہے اور مرمت کے لئے جگہ جگہ کھدائی کی ضرورت پڑتی ہے، اب ایک کیبل کا اضافہ ہو جائے گا اور اس میں خرابی آئے گی تو اس کی مرمت کے لئے الگ سے کھدائی کی ضرورت لاحق ہو گی۔
چیف منسٹر اب بھی اس شہر کے حسن کواور بھاری سرمایہ کاری کو برباد ہونے سے روک سکتے ہیں،شہر میں جا بجا کھدائی کی وجہ سے ٹریفک کی مشکلات بھی کم کر سکتے ہیں،اور کرنا انہوں نے یہ ہے کہ جن اداروں نے پہلے سے فائیبر آپٹک بچھارکھی ہے، انہیں مشاورت کے لئے بلائیں۔ویسے ان کا ایک اجلاس اسی ہفتے ،اسی مسئلے پر ہو رہا ہے۔ اس سے ایک شور مچے گا۔
میں ٹیکنالوجی کی برکات کا قائل ضرورہوں مگر میں۔۔ مین بی ہائینڈ دی گن ۔۔Man behind the gun کے اصول کا بھی قائل ہوں۔ اگر حکمران کی آنکھیں کھلی ہیں تو کیمروں کی آنکھ بھی کام کرے گی اور اگرڈ ٖاکووں نے صرف جنرل راحیل شریف سے ڈرناہے تو سیف سٹی پراجیکٹ سے ان کو ڈرنے کی کیا ضرورت!!ادھر جنرل راحیل کی رخصتی کابگل بجا ، ادھر پنجاب کی گڈ گورننس پنکچر ہو گئی اور ڈاکو بھائی لاہور کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لئے عذاب بن گئے۔ میں میاں شہباز شریف صاحب کو واقعی اس قدر کمزور تصور نہیں کرتا تھا، آپ کا نام لے کر مائیں بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں،ڈاکو تو تھر تھر کانپتے تھے یا ایک بہادر پولیس افسر رانامقبول کے ہاتھوں انکی لاشیں چوکوں میں گلتی سڑتی رہتی تھیں۔وہ پہلے دورو الا شہباز شریف کہاں سے تلاش کریں۔مجھے تو پرویز الہی کا دور یادآ گیا ہے جب ہر سو ڈاکو شاہی کا راج تھا۔ اس دور میں پانچ ڈاکو مسلم ٹاؤن کے میرے گھر میں دوپہر کو گھس آئے تھے اور میری بیگم صاحبہ اور تین بہووں کے گلے سے زیور نوچ لے گئے تھے، آج چیف منسٹر کے گھر سے ملحق سڑک پر میرے بیٹے کا نقصان ہو گیا اور شہر بھر میں ڈاکو وں نے ہنیر مچا دیا، جوہر ٹاؤن کے کھوکھر چوک میں میرا ایک بھتیجا رات گئے اخبار کی ڈیوٹی سے واپس آیا اور تیسری مرتبہ ڈاکووں نے لوٹ مار کے لئے اسے روکا تو اس نے دہائی دی کہ اب میرے پاس بچا کیا ہے ، دو مرتبہ تو پہلے ہی لوٹ چکے ہو، کھوکھر چوک والے ڈاکو رحم دل نکلے، اگلے روز اس کا ڈرائیونگ لائسنس اور قومی شناختی کارڈ بذریعہ ڈاک واپس بھجوا دیا۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکووں سے ہی رحم کی بھیک مانگی جائے!
مگر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے کہ میں نیویارک یا واشنگٹن کا شہری ہوں ، امریکی شہریت کسی چھوٹے موٹے ڈاکے کی وجہ سے مل جائے تو یہ گھاٹے کا سودا ہر گزنہیں ۔