خبرنامہ

سینٹ الیکشن میں گھوڑوں کی منڈی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سینٹ الیکشن میں گھوڑوں کی منڈی….اسداللہ غالب

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وارننگ دی ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں جس بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے، اس کی سخت مذمت کی جانی چاہئے۔ حکومت ایسی حرکات کا سخت نوٹس لے گی اور ان امیدواروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرے گی اور کامیاب ہو جانے والوں کی حرکات کو سب کے سامنے لائے گی۔

موجودہ سینٹ کے الیکشن کے بارے میں عام افواہ یہ تھی کی ان کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ بلوچستان یا کے پی میں اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے گا اور جب حلقہ¿ انتخاب ہی ختم ہو جائے گا تو سینٹ کے الیکشن رک جائیں گے۔ یہ منصوبہ بندی ن لیگ کی کامیابی کو روکنے کے تناظر میں کی جا رہی تھی۔ بلوچستان میں تو صوبائی اسمبلی سخت بحران کا شکار رہی، اس کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی، اس بحران پر قابو پانے کے لئے وزیر اعظم بھی کوئٹہ گئے مگر حالات کے پیش نظر انہوں نے لیگی وزیراعلیٰ کو ہدایت دی کہ وہ از خود مستعفی ہو جائیں کیونکہ ارکان اسمبلی کے ارادے بڑے بھیانک تھے جو چند روز بعد کھل کر سامنے آ گئے، اس دوران یہ خبریں بھی آئیں کہ اس بحران کے پس پردہ زرداری صاحب ہیں جن کی ٹیم چھ ارب روپے لے کر کوئٹہ میں موجود رہی اور سنا گیا ہے کہ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر صرف تین ارب خرچ ہوئے، اس طرح پیپلز پارٹی خوش تھی کہ اس کے تین ارب بچ گئے، جناب زرداری نے ایک پبلک جلسے میں اعتراف کیا کہ انہوںنے بلوچستان حکومت کو دعا بھی دی ہے اور دوا بھی دی ہے۔ انہوںنے یہاں تک دعویٰ کیا کہ آئندہ الیکشن میں وہ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کریں گے، یہ تو الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ عوام کسے مینڈیٹ دیتے ہیں لیکن جو سینٹ کے الیکشن ہو رہے ہیں ، ان میں ووٹوں کی نہیں ، ضمیر، امانت اور دیانت کی منڈی لگی ہوئی ہے اور بڑھ چڑھ کر بولیاں دی جا رہی ہیں، شیخ رشید نے کل شب ہی ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا کہ بلوچستان میں ایک ووٹ کے لئے ایک ارب کی پیش کش کی جا رہی ہے تاہم کے پی کے اور پنجاب میں قیمت کم ہے، ادھر کراچی میں ایم کیو ایم ایک سنگین بحران کا شکار ہے، پارٹی کا رجسٹرڈ سربراہ تو کوئی اور ہے مگر رابطہ کمیٹی کسی اور کو سینٹ کے ٹکٹ جاری کرنا چاہتی ہے۔ یہ تماشہ کئی روز سے جاری ہے اور ایم کیو ایم کے لیڈر میڈیا ٹاک میں آنسو بہاتے نظر آتے ہیں، یہ آنسو کیوں بہائے جا رہے ہیں ماس قدر جذباتی ڈرامہ کاہے کو؟ اسے عام آدمی کے لئے سمجھنا مشکل ہے۔
پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ایک رکن اسمبلی کی خریدو فروخت کو تو محاورہ ہی بنا لیا گیا اور اس کانام ادھر علی ادھر رکھ دیا گیا جبکہ اس کا اصل نام مظہر علی اظہر تھا۔
قیام پاکستان کے بعد سیاسی وفاداریوںنے ایک نیا موڑ لیا۔ رات کو کسی اور کی حکومت ہوتی تھی، صبح اٹھتے ہی کسی دوسرے کے سر پہ تاج رکھ دیا جاتا اور اعلان ہوتا کہ نئی خبر آئی ہے، فلاں ہمارا بھائی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کی بدترین شکل یہ تھی کہ پوری کی پوری پارٹی کا نام ہی راتوں رات بدل جاتا تھا۔
پچاسی کے الیکشن کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو ہارس ٹریڈنگ کی نئی مثالیں سامنے آئیں۔ارکان اسمبلی کی خریدو فروخت کو بچانے کے لئے ایک پارٹی انہیں چھانگا مانگا لے جاتی تو دوسری پارٹی مالم جبہ کے تفریحی مقام کا رخ کرتی، کبھی ارکان ا سمبلی کے لئے پورا میریٹ ہوٹل ہی بک کروا لیا جاتا۔ سب سے بڑ اتماشہ اس وقت لگا جب میاں منظور وٹو نے غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کوشش میں پیپلز پارٹی نے ان کا ساتھ دیااور وٹو کے ساتھ اقلیتی ارکان ہونے کے باوجود ان کو حکومت بنانے دی۔
سیاسی ہارس ٹریڈنگ کا سب سے گھناﺅنا مظاہرہ اس وقت ہوا جب میاںنوازشریف کو جلا وطن کیا گیا اور چودھری پرویز اور چودھری شجاعت کی پرانی خواہش بر آئی، اور ارکان اسمبلی نے ن لیگ کو چھوڑ کر ق لیگ میں شمولیت اختیار کر لی مگر انہیں پھر بھی ایوان میں سادہ اکثریت حاصل نہ ہو سکی، اس کے لئے پیپلز پارٹی میں نقب لگائی گئی اور ایک پیٹریاٹ گروہ کے ووٹوں کے ساتھ میر ظفراللہ جمالی کو وزیراعظم چنا گیا۔
جمہوری نظام میں ووٹ کو ایک مقدس امانت تصور کیاجاتا ہے مگر ہمارے خطے میں ووٹ کے تقدس کا کبھی لحاظ نہ کیا گیا۔ یہ صدمہ قائداعظم کو بھی دیکھنا پڑا جب انہوں نے چھیالیس کے الیکشن جیتنے پر ملک برکت علی کو سپیکرشپ کے لئے امیدوار نامزد کیا، ایوان میں مسلم ووٹوںکی اکثریت تھی مگر جب گنتی ہوئی تو تین افراد کے سوا سبھی لیگی ارکان نے ایک سکھ کو ووٹ دے کر سپیکر چن لیا۔ انہی حالات کو دیکھ کر قائداعظم کے منہ سے یہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے کہ ان کی جھولی میں کھوٹے سکے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ کھوٹے سکے ہی سیاسی اور پارلیمانی نظام پر حاوی رہے، ضمیر اور وفا داری نام کی کوئی خوبی باقی نہ رہی اور مفاد پرستی کو ترجیح حاصل رہی۔
مصیبت یہ ہے کہ ستر برس گزرنے کے باوجود ہمارے ہاں اخلاقی ضابطے جڑ نہیں پکڑ سکے یا ہماری سرزمین ہی بنجر ہے یا اسے سیاسی ڈاکوﺅں نے اجاڑ کر رکھ دیا ہے،کیا مجال کہ کسی اخلاق، کسی اصول یا کسی ضابطے کو تقدس کا درجہ حاصل ہو سکا ہو یا کوئی اس کی پاسداری کرنے کے لئے آمادہ ہو۔ کبھی ذاتی مفادات مقدم ہو جاتے ہیں اور کبھی ایجنسیوںکے خفیہ اشارے جابر ثابت ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ایجنسیوں کی طرف سے سیاسی لیڈروں میں بھاری رقوم تقسیم کی جاتی تھیں۔ یہ کیس آج تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
کہنے کو پارلیمانی بالادستی کا دعویٰ کی جاتا ہے لیکن اگر پارلیمنٹ کے ارکان اپنا ضمیر بیچ کر ایوان تک پہنچیں گے تو ان کی بالادستی کے دعوے یا مطالبے پر صرف ہنسی ہی آسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭