خبرنامہ

سینیٹ الیکشن میں دھاندلی پر وزیراعظم کا جائز موقف…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سینیٹ الیکشن میں دھاندلی پر وزیراعظم کا جائز موقف…اسد اللہ غالب

ایک عوامی اجتماع میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے اس اصولی موقف کو دہرایا کہ سینیٹ کے الیکشن میں جو خرید و فروخت ہوئی، وہ اس کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے، ووٹ خرید کر ملک کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے میں بیٹھنے کا کسی کو حق نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی چیلنج کیا کہ ان کے مخالفیں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں اور ٹی وی پر آکر حلفیہ بیان دیں کہ وہ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں ہوئے تو قوم اپنے الزامات واپس لے سکتی ہے۔
وطن عزیز میں بد دیانتی ہر شعبے میں سرایت کر چکی ہے اور سیاست کی بنیاد ہی بے اصولی، مفاد پرستی پر رکھ دی گئی ہے۔سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں ہر صوبے میں اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر پارٹی نے چیخ و پکار کی کہ ووٹ خریدے گئے، اور کروڑوں میں خریدے گئے۔ شیخ رشید نے کہا کہ پشاور میں کرنسی ختم ہو گئی تو پنڈی سے نوٹوں کی بوریاں پہنچائی گئیں، اسی طرح سردار غوث بخش باروزئی نے کہا کہ کوئٹہ میں بھی رقم کم پڑ گئی تو کراچی سے ٹرکوں کے قافلے منگوائے گئے۔ پنجاب سے چودھری سرور سیٹ اس حال میں جیتے کہ ان کے پاس پارٹی کے صرف تیس ووٹ تھے اور اس امر کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ ان تیس نے بھی انہی کو ووٹ دیئے ہوں گے مگر ان کے بکسے سے چوالیس ووٹ بر آمد ہوئے، عمران خان نے رونا دھونا کیا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان کے تیرہ ووٹروں نے ہارس ٹریڈنگ کی گنگا میں اشنان کیا مگر آج تک ان ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔، سندھ میں ایم کیو ایم کی دھڑے بندی کی وجہ سے منڈی ویسے ہی کھلی تھی اور ہر کوئی برائے فروخت موجود تھا، پیپلز پارٹی نے اس کا فائدہ اٹھایا، بات یہیں تک محدود نہیں پیپلز پارٹی نے دوسرے صوبوں سے بھی سیٹیں نکالیں جہاں اس کے خلاف بظاہر ایک بھی ووٹ نہیں تھا۔ بلوچستان کا آزاد گروپ تو ویسے بھی آزاد تھا، اس لئے ایسے نتائج سامنے آئے کہ ہر کوئی ششدر رہ گیا، ویسے تو زرداری صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سینیٹ چیئرمین ان کا آئے گا اور وہ اپنا نامزد امیدوار منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ مسلم لیگ ن کو بہت بڑا دھچکا لگا جس کی ویسے تو سینیٹ میں اکثریت تھی مگر جب سودے ہو رہے ہوں اور مسلم لیگ ن نے اس سودے بازی سے احتراز کیا ہو تو پھر بازی وہ جیت گئے جنہوںنے خوب دولت لٹائی۔ مگر یہ سب کچھ بے اصولی اور بد دیانتی کے مترادف تھا،۔ یہ کھلی ہارس ٹریڈنگ کے زمرے میں آتا ہے اور اسی پر وزیراعظم بھی سیخ پا ہو رہے ہیں اور ان کا غصہ بجا ہے۔
وزیراعظم اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، ان کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ تمام معاملات کو شفاف بنائیں، مگر اس ضمن میں وہ تنہا نتیجہ خیز اقدامات نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن بھی ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ الیکشن کے عمل کو شفاف بنائے ، اس کے علاوہ نیب اور انٹی کرپشن کے محکمے ہیں جو ملک میں رشوت ستانی کی گرم بازاری کا نوٹس لینے کے مکلف ہیں پھر سب سے زیادہ عدلیہ اس وقت متحرک نظر آتی ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ سومو نوٹس کے تحت سینیٹ کے الیکشن میں دھاندلی کا قصہ پاک کیا جائے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا جائے، یہ کام صرف عدلیہ ہی کر سکتی ہے جو تمام اداروں کو احکامات جاری کر سکتی ہے۔ اس چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے باوجود الیکشن میں کھلی دھاندلی ہوتی رہے تو یہ رونے اور ماتم کرنے کا مقام ہے۔ اس ملک میں ایک انسپکٹر جنرل پولیس قربان علی نے الیکشن میں جھرلو چلایا مگر اس کا احتساب نہ کیا گیا۔ پھر یحییٰ خاں کے دور میں شفاف الیکشن ہوا مگر اس کے نتائج پر عمل نہ کیا گیا، بھٹو نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانےوالوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، یہ بھی کہا کہ ادھر ہم، ادھر تم، اس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹا اور اسی شخص کو ملک کا چیف ایگزیکٹو بنا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی دوسروں کو طعنہ دیتی ہے کہ وہ فوج کے گملوں میں پیدا ہوئے مگر وہ بھول گئی ہے کہ اس کی پارٹی کا لیڈر ایوب خاں کو ڈیڈی کہتا تھا اور اس کو اقتدار میں لانے والی فوج تھی جس نے بھٹو کو اس دنیا میں واحد سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ اسی بھٹو نے ستتر کے الیکشن میں دھاندلی کے ریکارڈ مات کر دیئے اور جنرل ضیا کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی جس کی وجہ سے دونوں کی حکومتیں ڈیڑھ دو برس سے زیادہ نہ چل سکیں، جنرل مشرف کے دور میں محترمہ بے نظیر اور نواز شریف دونوں جلا وطن تھے تو انہوںنے آئندہ کے لئے ایک میثاق جمہوریت پر دستخط کئے، اس کے تحت نواز شریف نے تو زرداری حکومت کے سامنے فرینڈلی اپوزیشن کی مگر اب زرداری صاحب کھل کر دشمنی پر اتر آئے ہیں اور مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے، سینیٹ کے الیکشن میں بھی میثا ق جمہوریت سے کھلا انحراف ہے۔ جب پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک اس معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گی پھر جمہوریت کی گاڑی پٹری پر رواں دواں نہیں رہ سکتی، اور اسے بار بار جھٹکے لگتے رہیں گے، وزیراعظم نے اسی طرز عمل کی مذمت کی ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے کہا کہ وہ کھیل کے آداب کو ملحوظ رکھیں، قواعد کی پاسداری کریں اور کریز سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں، اس سے جمہوری اور سیاسی نظام کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
دراصل ملک میں بار بار کے مارشل لا کی وجہ سے لوگوں کا مزاج جمہوری نہیں ہو سکا اور وہ بیک ڈور تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دوسروں کے سروں سے اوپر سے گزر کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ سکیں۔ ذاتی مفادات نے اصولوں کو پس پشت دھکیل دیا ہے۔ اب قوم کو اگلے جنرل الیکشن کا سامنا ہے اور اگر اس میں بھی یہی بے اصولیاں جاری رہیں اور انہیں شعار بنا لیا گیا تو جمہوریت کا مستقبل سخت خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو جمہوری آداب کا لحاظ کرنا چاہئے اور وزیراعظم کے احتجاج پر کان دھرنے چاہئیں، من مرضی کی عادت سے پرہیز کرنا چاہئے اور جمہوری اور سیاسی عمل کی پیش رفت میں اپنا کردار حب الوطنی کے جذبے سے ادا کرنا چاہئے