خبرنامہ

سیکورٹی خطرات پر جنرل مصطفی کی وارننگ اور پرویز رشید کا گلہ….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سیکورٹی خطرات پر جنرل مصطفی کی وارننگ اور پرویز رشید کا گلہ….اسداللہ غالب

بسم اللہ
انداز جہاں۔۔۔ اسداللہ غالب

پہلے تو یہ بیان ذہن میں رکھ لیجئے جو امریکی نائب صدر نے گزشتہ روز کابل اترتے ہی دیاہے،اس نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان باز نہ آیا تو بہت کچھ کھو بیٹھے گا۔
کوئی نہیں جانتا کہ آرمی چیف نے سینیٹ کو کن سیکورٹی خطرات سے آگاہ یا خبردار کیا ہے۔
ویسے جو کچھ سینیٹ کو بتایا گیا ہے، وہ عوام کے علم میں بھی ہونا چاہئے تاکہ انہیں یہ پتہ ہو کہ وہ کس حد تک محفوظ ہیں اور کس حد تک غیر محفوظ۔
آرمی چیف نے ایک سو ارکان کے ساتھ جو معلومات شیئر کی ہیں، وہ خفیہ تو نہیں رہ سکتیں۔یہ اجلاس کہنے کو ان کیمرہ تھا مگر عملی طور پر آن کیمرہ بہت کچھ بیان کیا جا چکا ہے اور سیاسی معاملات کی حد تک کوئی چیز خفیہ نہیں رہی۔
میں نے جنرل غلام مصطفی سے پوچھا کہ آخرا سوقت ہمیں خطرہ کیا درپیش ہے اور وہ خطرہ کونسا تھا جس کی طرف وزیرداخلہ ہوتے ہوئے چودھری نثار نے اشارہ کیا تھا، انہوں نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہا تھا کہ ملک کو ایک ایسا خطرہ درپیش ہے جس سے صرف چارا فراد آ گاہ ہیں، چودھری نثار نے کبھی اس خطرے کی وضاحت یا نشاندہی نہیں کی۔ چنانچہ لوگ اپنی تقدیر کے بارے میں مکمل لا علم اوراندھیرے میں ہیں۔
جنرل مصفی نے کہا کہ وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آرمی چیف نے ان خطرات کی طرف اشارہ کیا ہو گا جو امریکی انتظامیہ کی طرف سے دھمکیوں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔۔ امریکہ کے سیکورٹی ا یڈوائزر ہوں یا وزیر خارجہ یا خود امریکی صدر ہر ایک کی زبان پر ایک ہی بیانیہ ہے کہ پاکستان سیدھا نہ ہوا تو اپنے کسی علاقے سے محروم ہو سکتا ہے۔امریکی انتظامیہ بار بار کہہ چکی ہے کہ وہ سرجیکل اسٹرائیک کر کے پاکستان کے جوہری اثاثے اڑا لے جائے گی۔ اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل سیموئیل ہرش کاا یک آرٹیکل چھپا تھا۔ اس شخص کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ فرمائش پر لکھتا ہے اور امریکی حکومت کی ترجمانی کرتا ہے ، بظاہر وہ ایک آزاداور غیر جانبدارمبصرا ور تتجزیہ کار ہے مگر اندر سے وہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا ہی کارندہ ہے۔
ہرش نے بھی اپنے آرٹیکل میں ایک منظر نامہ پیش کیا تھا کہ کس طرح پاکستان کے جوہریاسل اے کو ہتھیایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ایک اسپیشل فورس تشکیل دی جاچکی ہے جس کے آ پریشن کے دروان علاقے میں پہلے سے موجودامریکی افواج مکمل اشتراک عمل کا مظاہرہ کریں گی اورا س فورس کی مدد بھی کریں گی ا ورا س کا تحفظ بھی۔ایک مرحلے پر اس فورس کے ٹاسک میں یہ تبدیلی کی گئی کہ جوہری اثاثے اچکنے کے بجائے ان کو ٹرگر کرنے والے آلات ہی قبضے میں لے لئے جائیں۔ ایک دفعہ یہ فورس اپنے ائکشن کے لئے دوبئی پہنچ گئی تھی مگر اسے اطلاع ملی کہ پاکستان میں آپریشن کے لئے ماحول سازگار نہیں تو اس نے واپسی کی راہ لی۔
دوسری طرف امریکی انتظامیہ پاکستان کو ایک علاقے سے محروم کرنے کی جو بات کر رہی ہے، اس کی شکل یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان میں خلفشار پیدا کر کے( جو کہ فاٹا کے مسئلے پر کامیابی سے پیدا کیا جا چکا ہے ) ایک افغانیہ ریاست بنا دی جائے جس میں فاٹا ، کے پی کے اور بلوچستان کے پشتون علاقے شامل ہوں۔ اس ریاست کے قیام کے پیچھے بڑا محرک یہ ہے کہ پاکستان کو سی پیک کی تکمیل سے محروم کر دیا جائے،امریکی صدر ٹرمپ کھلم کھلا کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے سامنے کسی طاقت کو معاشیا اور تجارتی بالا دستی حاصل نہیں کرنے دیں گے۔اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ صرف سی پیک کا وجود ہی خطرے میں نہیں بلکہ ون بیلٹ ون روڈ کے پورے منصوبے کا دھڑن تختہ کر دیاجائے گا اور چین منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ صدر ٹرمپ اور ان کی درجہ بدرجہ انتظامیہ یہ ا عتراض بھی اٹھا چکی ہے کہ سی پیک کی گزرگاہ ایک متانزعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔اس طرح کئی اطراف سے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کو ٹارگٹ کیا جار ہا ہے، اسوقت پاکستان کی مستقبل کی ساری منصوبہ بندی کا انحصار سی پیک کی تکمیل پر ہے ور اس کے پیش نظر پاکستانی عوام کو خوش کن خواب دکھائے جا رہے ہیں مگر ہمیں ان خطرات کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیءں جو بالکل واضح طور پر سامنے نظر�آ رہے ہیں۔
جنرل مصطفی نے اس ضمن میں بھارتی وزیر اعظم مودی کی ا س دھمکی کا ذکر بھی کیا کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیرا ور گلگت بلتستان کے عوام کو اسی طرح ان کے حقوق دلوائیں گے جس طرح اکہتر میں مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے گئے تھے، مودی یہ کہہ چکا ہے کہ بنگلہ دیش کی تخلیق کی خواہس ہر بھارتی کی تھی اوراسکے لئے بھارت کے لوگوں نے خون بھی دیا۔جنرل مصطفی نے کہا کہ یہ ہیں وہ ممکنہ خطرات جن پر ہماری نظر رہنی چاہیے ،اب ان خطرات کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے مناسب وقت اور ماحول کاا نتظار ہے جو ہم بد قسمتی اور اپنی بیو قوفی سے خود ہی فراہم کر رہے ہیں، اس وقت ملک میں سیاسی انتشار اپنی انتہا پر ہے۔ کوئی پارٹی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اداروں کے خلاف نفرت پیدا کی جا رہی ہے۔ گورننس نہ ہونے کے برابر ہے اور جتھوں کا راج ہے۔ ہمارے دشمنوں کو ایسی ہی فضا درکار ہے اور حالات زیادہ سنگین ہوئے تو خدا نخواستہ دشمن کا کام آسان ہو جائے گا۔ اس لئے ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ،میں تو فوج سے کافی عرصے سے باہر ہوں مگر جو خطرات مجھے نظر�آ رہے ہیں ، ان کا ادراک حاضر سروس افسران کو مجھ سے زیادہ ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ اسی نوع کے خطرات یا خدشات کااظہار فوج کی بریفنگ میں کیا گیا ہو۔
پرویز رشید کا گلہ
میں نے جنرل غلام مصطفی سے گفتگو پر مبنی جو کالم لکھا س پر برادرم پرویز رشید نے سخت گلہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان سے منسوب باتیں بے بنیاد ہیں ۔ ان کا اصرار ہے کہ میں ان کے بارے میں ثبوت مہیا کروں۔
میں ا س معاملے کو ڈان لیکس کی طرح طول نہیں دینا چاہتا۔ میں نے کسی تعصب کے بغیر ساری باتیں رپورٹ کیں۔
میرے پاس سینیٹ کی ان کیمرہ کاروائی کی کوئی ریکارڈنگ نہیں ہے ، اس لئے میں اپنے موقف پر اصرار نہیں کر سکتا مگر میری خواہش ہے کہ جب بہت کچھ سامنے آ چکا ہے تو اس بریفنگ کا مکمل ٹرانسکرپٹ منظر عام پر لایا جائے تاکہ لوگوں کو من مانے تبصرے کرنے کا موقع نہ ملے۔اور میرے جیسے گوشہ نشین صحافیوں کو بھی پتہ چلے کہ عسکری قیادت کے خیالات کیا ہیں اور منتخب قیادت نے ان پر کیا تبصرہ کیا۔
اس اثناء میں ایک کالم اور چھپ گیا ہے اور اس کی بنیاد بھی پرویز رشید ہی کا ایک مبینہ سوال ہے۔
اس کالم کیا شاعت کے بعد صبح سویرے واٹ ایپس پر برادرم پرویز رشید کا ایک خط موصول ہوا ہے جسے منو عن نقل کر رہا ہے، یہ میرا اخلاقی اور صحافتی فریٖضہ ہے۔خط ملاحظہ ہوؒ
محترم اسداللہ غالب صاحب۔ اسلالم علیکم! گزشتہ دو روز سے آپ کے کالم انداز جہاں روزنامہ نوائے وقت میں خاکسار کا ذکر تواتر سے ایک ایسی بے بنیاد گفتگو کے حوالے سے کیا جا رہا ہے جو مبالغہ آمیز ، من گھڑت اور مخصوص مفادات کے حامل افراد کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔میں نے کہیں بھی اور کسی بھی شخصیت کے نام سے کوئی بھی لفظ تک ادا نہیں کیا۔اس حوالے سے میرے بارے میں ہر لفظ اور ہر بیان جھوٹ ہے اور جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
عسکری تنظیموں کے مستقبل کے حوالے سے میری فکر پاکستانی عوام کے لئے امن، تحفظ اور ان کی قومی سلامتی کے بنیادی اصولوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔جس کااظہار میں کھلے عام کرتا رہا ہوں۔اور جس کو آج قومی سطح پر تسلیم بھی کیا جارہا ہے۔
کشمیریوں کی جدو جہد آزادی پر میرا نقطہ نظر وہی ہے جو خود کشمیری عوام کا ہے۔ والسلام مخلص ۔ پرویز رشید۔
میں آخری فقرہ پڑھ کر پرویز رشید زندہ باد کہنے پر مجبور ہوں۔