خبرنامہ

سی پیک، اقوام متحدہ کی بھارت نوازی۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

جب سے وزیر اعظم نواز شریف نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے سی پیک کی تکمیل کا کام تیز تر کیا ہے، ہر طرف سے اس منصوبے کے خلاف آ ٓوازیں اٹھ رہی ہیں، حتی کہ اقوام متحدہ جو تمام ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا کرنے کا مکلف ہے، اس نے بھی سی پیک کی مخالفت کا یوں تاثر دیا ہے کہ ا س منصوبے سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہو جائے گا۔ اقوا م متحدہ کو اچھی طرح علم ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کی اصل وجہ کیا ہے اور اسے مسلسل بڑھاوا دینے میں خود اقوام متحدہ کا کردار کیا ہے،پاکستان ا ور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل ا ور بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جس پر بار بار جنگیں چھڑ چکی ہیں اور جس کا فیصلہ کرنے کے لئے سلامتی کونسل اس امر کی قراردادیں منظور کر چکی ہے کہ اسے استصواب کے ذریعے حل کیا جائے مگر اقوام متحدہ نے ان قراردادوں کی منظوری کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں ، اس کے تساہل اور مجرمانہ رویئے کا ثبوت یہ ہے کہ کنٹرول لائن کی نگرانی کے لئے جو مبصر تعینات ہیں وہ مقبوضہ کشمیر میں کبھی اپنے ہوٹلوں ہی سے باہر نہیں نکلتے اور پاکستان کی طرف سے اگر یہ مبصرین کنٹرول لائن کا دورہ کرنے کی غلطی کر ہی بیٹھے ہیںتو بھارتی فوج نے ان پر فائر داغ دیا ہے۔ اقوا م متحدہ کی ناک تلے ستر برس سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کا دور دورہ ہے اور سری نگر کے قبرستان میں ایک لاکھ نئی قبروںمیں شہیدوں کو دفنایا گیا ہے، ان واقعات کا تو اقوام متحدہ کو نوٹس لینے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن اگر پاکستان اپنی سمندری حدود میں گوادر کی بندر گاہ کی تعمیر و ترقی میںمصروف ہے تو یہ عمل اقوام متحدہ کو بھی شاق گزرا ہے ا ورا س کے پیٹ میںمروڑ اٹھ رہا ہے کہ اس سے تو پاک بھارت کشیدگی بڑھ جائے گی، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کھلے عام دھمکی دیتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے عوام کو اسی طرح حقوق دلوائیں گے جس طرح اکہتر میں مشرقی پاکستان کے عوام کو حقوق دلوائے گئے تھے ا ور اس خطے کو پاکستان سے الگ کروا دیا تھا، کیا ان ارادوں کے اظہار سے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی نہیں بڑھے گی اور بندہ پوچھے کہ جب بھارتی بحریہ کا ایک ا علی افسر کل بھوش یادیو جعلی نام سے بلوچستان میں دہشت گردی کے ارتکاب کے لئے داخل ہوتے پکڑا جائے اور بھارت اس کو چھڑوانے کے لئے عالمی عدالت میں جوتے چٹخاتا پھر رہا ہے، کیا’’را‘‘ کے اس تخریب کار کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی پیدا نہیں ہوتی اور اقوام متحدہ سے کوئی پوچھے کہ جب انیس سو چوہتر میں اور پھر انیس سو اٹھانوے میں بھارت نے ایٹمی دھما کے کئے تو کیا برصغیر ایٹمی اسلحے کا ڈھیر نہیں بنا ،کیا اس سے کشیدگی کو ہوا نہیں ملی اور جب بھارت اربوں کھربوں کا اسلحہ خریدتا ہے اور بلیو واٹر نیوی ڈیویلپ کرتا ہے تو کیااس سے خطے میں امن کی فاختائیں چہچہانے لگتی ہیں،سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کو اسلحہ ا ندوزی کا حق حاصل ہے اور دنیا کے ہر ملک کے ساتھ تجارت بڑھانے کا شوق ہے تو کیا یہ حق پاکستان کو حاصل نہیں کہ وہ بھی اپنے انفراسٹرکچر کو ترقی دے اور یہ سی پیک کی صورت میں ہی ممکن ہے، اس منصوبے پر تو چند روز پہلے چین نے عالمی کانفرنس منعقد کی ہے اور ون بیلٹ ون روڈ کا نظریہ پیش کر کے تھرتھلی مچا دی ہے، اب اقوام متحدہ میں ہمت ہے تو وہ براہ راست چین کو مخاطب کرتے ہوئے جو کہنا چاہتا ہے، کہنے کی جرات کرے، اسے وہاں سے شافی جواب مل جائے گا، پاکستان تو اسوقت ہر طرف سے گھرا ہوا ہے، بھارت، افغانستان اور ایران تینوں ہمسائے اس کی کھمب ٹھپ رہے ہیں، پاکستان کس جوگا ہے کہ ان تین ہمسایوں کو للکار سکے اور وہ بھی اس حال میں کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو کے دو درجن سے زائد ممالک کی افواج مورچہ زن ہیں۔

اقوام متحدہ کو اپنے ذرائع سے معلو م کرنا چاہئے کہ گوادر میں گزشتہ ہفتے دس مزدروں کو کس نے شہید کیاا ور کوئٹہ سے چینی اہل کاروں کوکس نے اغوا کیا۔
قوام متحدہ کو نہیں بھولنا چاہئیے کہ اس کی جانبداری کی وجہ سے مشرق وسطی کا خطہ جہنم کی آگ میں جل رہا ہے، فلسطین کا قضیہ بھی اقوام متحدہ کو طے کرنا تھا مگر اس نے مجرمانہ طور پر اسرائیلی بد معاشی کی طرف سے آنکھیںبند کر رکھی ہیں اور اسرائیل جو ابتدا میں ایک نکتے کے برابر تھا، اب وہ پھیل کر کپا ہو گیا ہے اور فلسطین سکڑ کر ایک نکتے کے برابر رہ گیا ہے۔اقوام متحدہ کو پاکستان کی ان کوششوں کو فراموش نہیںکرنا چاہئے جو اس کی افواج اسی ادارے کی امن افواج کا حصہ بن کر ادا کرتی رہی ہیں، اقوام متحدہ ان کوششوں کی ستائش کر چکا ہے ۔ اس ا دارے کو یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ نائن الیون سے پاکستان کے کسی شہری کا کوئی تعلق نہ تھا مگر پچھلے چودہ برسوںمیں پاکستان کی ہڈی پسلی ایک کر دی گئی ہے، امریکی ڈرون پاکستان کو نشانہ بناتے رہے ہیں، دنیا کے رنگ برنگ اور ہر نسل کے دہشت گرد پاکستان میں خون کی ہولی کھیلتے رہے ہیں۔پاکستان اور کیا قربانی دے جس سے اقوام متحدہ کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ سکے ا ور اسے ہم پر ترس آ جائے۔ اب تو امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کے حق میں بولتا ہے ، ریاض میں اسلامی ممالک کی کانفرنس ہوئی اور ٹرمپ نے وہاں عالم ا سلام کو جلی کٹی سنائیںاور یہ گلہ کیا کہ بھارت دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسوقت روئے زمین پر پاکستان کے حق میں کوئی ایسی طاقت نہیںجو انصاف کی زبان بولے ۔اور نرم دلی سے کام لے۔ ہر زبان شعلے اگل رہی ہے، اور پاکستان کومورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان کے اندر بھی انتشار برپا ہے اور ایک لایعنی معاملے پر ریاستی اداروں کی ساری توجہ مرکوز ہے، پانامہ لیکس پر کسی اور ملک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی لیکن یہاں دھرنے جاری ہیں ۔ سپریم کورٹ کو الجھا دیا گیا ہے اور جے آئی ٹی کا جھگڑا چل رہا ہے، کیا کرنے کا یہی ایک کام رہ گیا ہے جسے ہم نے جان سے عزیز تر سمجھ لیا ہے۔ دشمن ہماری جان کے درپے ہیں، ہماری آنے والی نسلوں کو سی پیک کے فوائد سے محروم رکھنا چاہتے ہیںاور ہم بے سمجھی میں ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ حکومت جو سی پیک کو جزو ایمان سمجھتی ہے ،اسے کام سے روکنے کے لئے بلیم گیم کو قران و حدیث کا درجہ دے دیا گیا ہے۔خدا کے لئے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیئں، ہم نے تین مارشل لا حکومتوں کو گیارہ گیارہ سال دیئے ، ایک مارشل لا حکومت کو ملک توڑتے خاموشی سے دیکھا مگر ایک منتخب اکثریتی مینڈیٹ کی حکومت کو ایک سال اور پورا کرنے کی اجازت دینے کے موڈ میںنہیں ہیں، اس سے نقصان ملک کا ہو رہا ہے، عوام کا ہورہا ہے، ہوش کے ناخن لو بھئی ہوش کے ناخن لو۔