خبرنامہ

سی پیک میں بھارت کی شرکت، جنرل غلام مصطفی سے مکالمہ۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ!
یہ بات سب سے پہلے جنرل غلام مصطفی نے کی تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔
پھر یہی بات ایک حاضر سروس جنرل نے کی تو ساتوں آسمان گھومتے محسوس ہوئے۔ جنرل عامر ریاض جنوبی کمان کے سربراہ ہیں، اور گوادر کا سارا منصوبہ انہی کی نگرانی میں طے پا رہاہے۔مگر وہ اپنی مرضی سے تو بھارت کو کوئی پیش کش کر نہیں سکتے۔
میں نے سوچا معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے، اسے کریدنے ا ور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل مصطفی ہی د ستیاب ہو سکتے تھے، جنرل عامر ریاض سے ملنا تو ممکن نہ تھا، جغرافیائی بعد تو ایک طرف، پروٹوکول کے تکلفات الگ۔ ان کی اپنی مرضی ہو تو وہ اخبار نویسوں سے ناشتے پر جو چاہے باتیں کریں۔کور کماڈر کراچی نے بھی ایڈیٹروں سے ملاقات کر ڈالی ہے۔
میں نے جنرل غلام مصطفی سے کہا کہ کیا وہ اپنے خیال کی وضاحت کر سکتے ہیں، کہنے لگے کہ ایک لیپ ٹاپ اور ملٹی میڈیا بریفنگ کا انتظام کر لو تو میں ساری تفصیل کھول دوں گا،جب آپ نقشے دیکھیں گے تو آپ کو بھی اس تجویز کی معقولیت پر شبہہ نہیں ہو گا۔
ہفتے کے روز شدید دھند تھی، گھر سے اواری ہوٹل تک جانے میں بہت دشواری پیش آئی ، اور وہ بھی صبح دس بجے۔ بہر حال جنرل صاحب کے آنے تک میں تما م لوازمات پورے کر چکا تھا۔
اور پھر ایک سر چکرا دینے والی بریفنگ شروع ہو گئی، صدیوں کی تاریخ کا ایک ایک ورق کھل کر سامنے آ رہا تھا۔
پتہ چلا کہ سی پیک کوئی نیا خیال نہیں ،بس تاریخ کا دھارا الٹ چل پڑا ہے، اس سی پیک پر کوئی ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی فرمانروائی تھی۔
چین سے علم حاصل کرنا ایک علامتی بات تھی۔مگر صحابہ کرام ؓ اور بعد کے مسلمانوں نے اس حدیث کی روح کو سمجھتے ہوئے عالمی سمندروں کو زیر کر نے میں کامیابی حاصل کی اور مشر ق و مغرب کی تجارتی بحری گزر گاہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ لئے۔ایک طر ف اسپین اور اٹلی اور دوسری طرف چین، اور ملائیشیا اور انڈونیشیا تک مسلمانوں کے بحرے بیڑے پھریرے لہراتے تھے۔ درمیان میں برما اور سری لنکا بھی تجارتی مراکز تھے ۔مشرق بعید کی طرف مسلمانوں کو لشکر کشی نہیں کرناپڑی بلکہ تجارتی روابط سے وہ اپنے دور کی مارکیٹوں پرحاوی ہوتے چلے گئے۔
عالم اسلام کو زوال آیا تو اہل مغرب نے ان کی جگہ لے لی۔چین جوکبھی اپنی حدود سے باہر نہیں نکلا تھا، اب ا سے ا پنی آبادی کی ضروریات کے لئے باہر کی طرف دیکھنا مجبوری بن گیا ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ چین کے سمندری راستوں کو چاروں طرف سے امریکہ نے گھیر رکھا ہے اور بھارت کی بلیو و اٹر نیوی بھی چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی عزائم کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔چین کو دو مشکلات در پیش ہیں ، ایک تو ا سکی بندر گاہیں ، سارا سال چالو نہیں رہ سکتیں کیونکہ سردیوں میں اس کے سمندروں کا پانی جم جاتا ہے، اور جب موسم گرم ہو جائے تو چین کو جن بحری راستوں سے گزرناپڑتا ہے، انہیں امریکہ یا بھارت کسی وقت بھی بند کر سکتے ہیں۔یہی مشکل روس کو بھی در پیش ہے اور اس کی بھی صدیوں سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ بحیرہ ہند کے گرم ساحلوں تک رسائی حاصل کرے، اس کی یہ خواہش تب سے ہے جب پاکستان ابھی معرض وجود میں بھی نہیں آیا تھا اور جب روس نے افغانستان کے راستے فوج کشی کر کے اپنی ا س خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی تو جنرل ضیاالحق نے دو سال تک ا کیلے ہی مجاہدین کی مدد سے روس کا راستہ روکے رکھا،جب باقی دنیا نے پاکستان کی یہ کامیابی دیکھی تو وہ اچھل کر اس جہاد کے سرپرست بن گئے۔ روس پسپا ہو گیا ۔اور ٹوٹ گیا۔
چین نے عقل مندی دکھائی، اس نے دھیرے دھیرے سلک روٹ کو کھولا،یہ کام جنرل ایوب خان کے دور سے شروع ہوا، جنرل مشرف کے دور میں ا س میں تیزی آئی ۔ مشرف نے حکمت سے کام لیا، گوادر کی تعمیر وترقی کا کام پہلے تو سنگا پور کے سپرد کیا، اس دوران مکران تا کراچی ساحلی شاہراہ مکمل کی اور پھر گوادر کو چینیوں کی تحویل میں دے دیا گیا کیونکہ اس کی اصل ضرورت انہی کو تھی ۔ جنر ل کیانی نے فاٹا سے دو شاہراہیں افغانستان سے ملائیں۔ یہ دو رویہ سڑکیں ہیں مگر ان کی ساخت اس معیار کی ہے کہ ان پر بھاری ٹرالے سفر کر سکیں۔
اب گوادر کی بندر گاہ چالو ہو گئی ہے اور سلک روٹ اس قابل ہے کی چینی تجارتی ٹرک طویل سفر طے کرتے ہوئے گوادر تک آجا سکیں اور یہاں سے چینی بحری جہاز دنیا کی ہر بندر گاہ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ روٹ کلی طورپر پاکستان کی نگرانی میں ہے، خشکی پر پاک فوج کے دو ڈویژن چینی قافلوں کو سیکورٹی فراہم کریں گے ا ور سمندر میں پاک بحریہ نے یہ فریضہ سنبھال لیا ہے۔
یہاں تک ساری بات سمجھ میں آتی ہے، اس سے �آگے جو کچھ آپ پڑھیں گے اس پر آپ بھی چکرا جائیں تو میں ا سکے لئے معافی چاہتا ہوں مگرمیرے لئے ضروری کہ تمام حقائق آپ کے گوش گزار کر دوں۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ نوازشریف بھارت سے دوستی چاہتے ہیں، آپ یہ بھی جانتے ہیں زرداری بھی بھارت کے عشق میں مبتلا ہیں ،فضل الڑحمن اور اسفند یا راور اچکزئی سبھی ھارت کے فریفتہ ہیں۔آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے سوا ملک کی ساری مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور اوپر سے سونے پہ سہاگے والی بات یہ ہو گئی کہ چین بھی چاہتا ہے کہ پاکستان ا ور بھارت کے تعلقات معمول پر�آ جائیں اور جس خطے سے اسے گزر کر دنیا سے تجارت کرنی ہے وہ تنازعات سے پاک ہو۔ چین کی یہ خواہش پاکستان کے لئے قابل احترام بن گئی ہے یا مجبوری، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے مگر لگتا یہ ہے کہ پاکستان کے لئے چین کی فرمائش کو ٹالنا ممکن نہیں ورنہ ایک فوجی جنرل یہ کبھی نہ کہتا کہ بھارت دشمنی چھوڑے اور سی پیک میں شا مل ہو کر اپنے عوام کی غربت دور کرنے کی کوشش کرے۔
میں معافی چاہتا ہوں کہ پاک فوج کو بھی مجبور محض ظاہر کر رہا ہوں مگر کچھ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں ، فوج کے سامنے ضرور ہوں گے اور جو کچھ ہمارے سامنے ہے، وہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ ہم چین کی بات ٹالنے کی طاقت نہیں رکھتے، چین نے پاکستان میں گہراا ثرو رسوخ حاصل کر لیا ہے، ابھی پرسوں کی بات ہے کہ پاکستان کی اسٹا ک مارکیٹ کا چالیس فی صد چین کے کنٹرو میں چلا گیا ہے، چین نے ساہیوال کے کول پراجیکٹ کے لئے زمین خرید لی ہے، اب اسے ا س زمین کے ا ستعمال سے کون روک سکتا ہے، اسی پر بس نہیں کوئی تفتیشی رپورٹر ذرا جان مارے تو وہ ہزاروں ایسے سودوں کی تفصیلات منظر عام پر لا سکتا ہے جو چین نے طے کر لئے ہیں۔چین ہماری رگ رگ میں ہے، ہر سانس میں ہے۔ہم اس سے دوستی کے دعوے دار ہیں اور وہ ہمارے ساتھ دوستی کی پینگیں جھول رہا ہے، دوستی میں ذاتی مفاد نہیں دیکھا جاتا۔دوست کے لئے جان بھی حاضر کر دی جاتی ہے۔سلک روڈ کی تعمیر میں چینیوں نے جانیں قربان کی ہیں، گوادر کی تعمیر میں چین نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔اور چین کے ا س منصوبے کی تکمیل میں پاکستان نے اس کی جو مدد کی ہے، اس کی سزا پاکستانیوں کو بھی بھگتناپڑی ہے۔ چودہ برس سے پاکستان جس دہشت گردی کا شکار ہے، ا سکا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو سی پیک سے باز رکھنے کے لئے دباؤ ڈالنا تھا۔مقبوضہ کشمیر میں یکا یک بے گناہ کشمیریوں پر پیلٹ گنیں داغی گئی ہیں، کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر وحشیانہ گولہ باری کی گئی ہے تو بھی اس لئے کہ سی پیک سرے نہ چڑھنے پائے۔ چین نے یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے یہ طے کیا ہے کہ کہ اگر بھارت کو سی پیک میں شامل کر لیا جائے تو پاک بھارت تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔کیا یہ محض ایک مفروضہ ہے یا آنے والے کل کی حقیقت۔پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
آثار بتاتے ہیں کہ یہ کل کی حقیقت ہے، ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یہ ہو کر رہے گا، بھارت بھی سی پیک کا حصہ بنے گا، روس بھی، ایران بھی اور وسط ایشیا کے ممالک بھی۔چین ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کے موڈ میں ہے ، اسی لئے جنرل عامر ریاض کے بیان کے فوری بعد چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے بھارت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی پیش کش سے فائدہ اٹھائے، اتوار کو چینی وزارت خارجہ نے بھی کہا کہ وہ بھارت کے مثبت رد عمل کے انتظار میں ہے، اب ایک خبر بھارت سے آئی ہے کہ مودی صاحب پاکستان کے بارے پالیسی میں تبدیل لانے والے ہیں۔واجپائی کو بھی بس کا سفر یاد آنے لگا ہے۔
یہ اہم سوال ہے کہ کیا پاکستان اپنے مفادات کی حفاظت کر پائے گا، یہ بات اگلے کالم میں کیونکہ آج مزیدطوالت کی گنجائش نہیں۔