خبرنامہ

سی پیک میں پاکستان کا مفاد،جنرل غلام مصطفی سے مکالمہ۔اسداللہ غالب

بسم اللہ
سی پیک، لکڑ ہضم پتھر ہضم جیسا اکسیری نسخہ ہے، پاکستان کے سارے مصائب کا علاج، ہر مسئلے کاحل،بجلی کی کمی،غربت، جہالت،پس ماندگی، ہر مرض کا شافی علاج سی پیک کی ایک پڑیا سے۔
سی پیک کھلونا ہے ،جھنجھنا ہے، سراب ہے، شافی ا لامراض ہے ۔ کیا ہے!
کچھ بھی کہہ لیجیے۔ مگر کسی کو علم نہیں کہ سی پیک ہے کیا، چینیوں کو پورا علم ہو تو ہو، کم از کم پاکستان میں کسی کو نہیں مگر صدر، وزیر اعظم،اور درجہ بدرجہ سبھی حکومتی عہدیدار ، ہر ایک اس کو پاکستان کی تقدیر قرار دیتے ہیں۔
جنرل غلام مصطفی بھی کہتے ہیں کہ سی پیک پاکستان کا نقشہ بدل دے گا ، وہ حتمی لہجے میں کہتے ہیں کہ دس سال بعد کا پاکستان پہچانا نہیں جائے گا۔الحمد للہ! تری آواز مکے اور مدینے۔
مگر یہ جو کوئٹہ کے کور کمانڈر ہیں ، انہیں یہ استحقاق کیسے مل گیا کہ وہ بھارت کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دیں۔ یہ میرا سوال تھا۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی باتیں ہوں گی تو لوگ کہیں گے کہ خارجہ پالیسی کو فوج نے کنٹرول کر رکھا ہے۔
جنرل مصطفی نے تحمل سے میرے سوال کوسنا اور کہنے لگے کہ میں یہ نکتہ واضح کر چکا ہوں کہ سی پیک کے فیصلے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں، ہمیں چین کی پالیسی کو ہر حال میں ماننا ہے اور آگے بڑھانا ہے، حکومت کو اس کا فوری فائدہ یہ ہے کہ وہ سی پیک کی گردان کر کے اگلے الیکشن بآسانی جیتنے کی امید رکھتی ہے۔ دوسرے یہ بات ذہن میں رکھیئے کہ اگر بھارت کی شمولیت کی بات فوج سے نہ کہلوائی جاتی اور یہ حکومت کی طرف سے پیش کی جاتی تو لوگوں نے ڈنڈے اٹھالینے تھے کہ آپ پاکستان کو بھارت کی جھولی میں کیوں ڈال رہے ہیں، جتنے منہ اتنی ہی باتیں سننے کوملتیں۔ اور تو اور بلاول بھی گرج برس رہا ہوتا، مگر فوج کی بات کو ہر کوئی سنجیدگی سے لیتا ہے، اس کے علاوہ جنرل عامر ریاض کامقصد کچھ نہیں مگر انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنے بیان میں یہ بات نمایاں کر دی ہے کہ بھارت دشمنی کر رہا ہے، اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آرمی چیف نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم دشمنوں کے دشمن ہیں، گویا بھارت پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ وہ سی پیک کے فوائد سمیٹنا چاہتا ہے تو اچھا بچہ بنے، کان پکڑے ، دشمنی چھوڑے، کشمیریوں پر مظالم بند کرے اور آبی جارحیت سے باز آ جائے، اتنے سارے پیغامات حکومت کا کوئی سول نمائندہ نہیں دے سکتا تھا اور غور کیجئے کہ چین کے فارن آفس نے بھی کہا ہے کہ بھارت کو پاکستان کی رضامندی کی شرط پر ہی شمولیت کا موقع مل سکتا ہے اور جب پاکستان کی رضا پوچھی جائے گی تو اس میں کشمیر اور آبی جارحیت کا مسئلہ سب سے نمایا ں ہو گا۔ اگر کوئی جنرل عامر ریاض کے بیان کو سمجھنے کی کوشش کرے تو انہوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ یہ واقعہ تو رونما ہونے والا ہے، اب عوام کو اس امر کے لئے دباؤ بڑھانا چاہئے کہ بھارت وہ سارے مسائل حل کرے جو ستر سال سے لٹکے چلے آ رہے ہیں۔عوام شور مچائیں گے تو حکومت کے ہاتھ مضبوط ہوں گے ، وہ چین سے بھی کہہ سکتی ہے کہ ہمارے عوام سیدھے سبھاؤ بھارت کو سی پیک میں شامل کرنے کے حق میں نہیں اور بھارت سے بھی کہہ سکتی ہے کہ آپ اپنا رویہ درست کریں، تبھی ہمارے عوام اس امر کی اجازت دیں گے۔
اگلا مرحلہ منصوبے کی شفافیت کا ہے، سر دست سچی بات یہ ہے کہ ہم اس منصوبے کے خدو خال سے لا علم ہیں، چین کہاں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اور کہاں قرض دے رہا ہے ا ور ہماری آنے والی نسلوں کی گردن پر بوجھ ڈال کر اپنی تجارت بڑھانا چاہتا ہے، یہ صاف معلوم ہونا چاہئے۔اب تو صرف سیاستدادن ہی نہیں ، عام گلی محلے کاآدمی بھی سی پیک کی شفافیت پر انگلی اٹھا رہا ہے ، اسی لئے چینی سفیر کو کم ازکم پانچ اعتراضات کا جواب دینا پڑا ہے مگر وہ اب بھی کہتے ہیں کہ یہ سرمایہ کاری ہے، اسے ماننے کو کوئی تیار نہیں جب تک تمام دستاویزات سامنے نہ لائی جائیں۔عمران خان کی بات قابل غور ہے کہ سی پیک پر چین سے کوئی اختلاف نہیں ، مسئلہ حکومت کے ساتھ ہے مگر عمران نہیں جانتا کہ حکومت بھی سب کچھ نہیں جانتی ،ا سلئے وہ عمران یا ا س کے چیف منسٹر، یا سندھ اور بلوچستان کی حکومت کو کیا بتائے، ابھی چند روز پہلے بلوچستان سے طلبہ کا ایک وفد لاہور آیا، یہ بھی جنرل عامر ریاض نے ایک سی ون تھرٹی طیارے میں بھیجا۔ان طالب علموں نے بلا جھجک چیف منسٹر پنجاب سے سوال کیا کہ آپ بات گوادر کی ترقی کی کرتے ہیں مگر ترقی لاہور میں نظرآ رہی ہے یا کچھ منصوبے پنجاب کے دوسرے شہروں میں ہیں ، بلوچستان ا ور گوادر کو کیا ملے گا، ان طالب علموں کو اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا، جو جواب ملا وہ یہی لولی پاپ تھا کہ آپ دیکھیں گے کہ بلوچستان ا ور گوادر کس قدر ترقی کریں گے، مگر کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔
سی پیک اچھامنصوبہ ہو گا بلکہ بہت اچھا منصوبہ ہے، ا س میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے لیکن ایک عا م آدمی کو بھی پتہ چلنا چاہےئے کہ یہ منصوبہ ہے کیا، لوگوں کو منگلا ڈیم نظر آتا ہے، تربیلا ڈیم نظر آتا ہے، وہ موٹرو یز کہیں نظر نہیں آتیں جن کاآغاز نواز حکومت کے پہلے دور میں ہوا تھا، ہمیں تو اس موٹر وے کے ذریعے تاشقند تک پہنچناتھا، اس موٹرو ے کے ارد گرد صنعتی زون قائم ہونے تھے مگر ہوا کیا کہ چائے بلونے والی مدھانیاں ہی لگ سکیں ، اس بلا کو چائے کہا جائے، یا لسی کہا جائے یا شربت کہا جا ئے ا ور پھرا سکی قیمت اداکرتے ہوئے سر چکرا جاتا ہے۔
سی پیک کے منصوبوں پر ہمارا کوئی اختیار نہیں، سب کچھ چین کی مرضی پر منحصر ہے اور چین کی مرضی کیا ہے، اسے واضح ہونا چاہئے۔ پہلی بات کہ وہ کن منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے ا ور کن منصوبوں میں قرض دے رہا ہے اور کن شرائط پر۔ دوسرے چاروں صوبوں کو مطمئن کرنے کے لئے یہ وضاحت ہونی چاہئے کہ کس صوبے میں کونسامنصوبہ ہے اوراگر منصوبوں کی اکثریت پنجاب میں ہے تو سی پیک کو عوامی تائید کیسے حاصل ہو گی۔ سی پیک کا خالی ڈھول پیٹنے سے تو چاروں صوبے مطمئن نہیں ہو ں گے۔ کالا باغ یم آج تک نہیں بن سکا۔
چین کی ضرورت پوری ہونی چاہئے ، یہ ہمارا سب سے مخلص دوست ہے مگر پاکستان کا مفاد بھی پورا ہونا چاہیے کیونکہ سارامنصوبہ پاکستان کو گزرگاہ میں تبدیل کر دے گا، کیا ہم صرف پانڈی بنیں گے ، ایک ٹرک سے سامان اتار کر دوسرے میں رکھیں گے یا ہمیں راہداری کی مد میں بھی کچھ ملے گا۔ نیٹو نے تو راہداری نہیں دی۔
اگلی اورآخری بات ، بھارت کو شامل کرناہے کہ چین کی ا سکے ساتھ سو بلین ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے تو پہلے اسے اپنا رویہ درست کرناہو گا، پراکسی جنگ ختم کرناہو گی،ریاستی دہشت گردی کی فیکٹریاں بندکرناہوں گی، مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کے حقوق دینا ہوں گے اور آبی جارحیت سے توبہ تائب ہونا ہو گا، ورلڈ بنک کے طے کردہ سندھ طاس معاہدے پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہو گا، کراچی سے گوادر تک اور گوادر سے چاہ بہارر تک ریلوے لائن بچھنی چاہئے ، موٹر ویز بننی چاہیءں۔ایک ملک کو دوسرے ملک کے نیٹ ورک سے مربوط ہونا چاہئے، یہ ہے پاکستان کا مفاد، یہ پورا ہو جائے تو پاکستان خوشی خوشی چین، بھارت، ایران، افغانستان، ازبکستان اور روس تک کو اس منصوبے میں خوش آمدید کہے گا۔
اگر یہ تقاضے پورے نہیں ہوتے، یا ادھورے چھوڑ دیئے جاتے ہیں تو سی پیک سے پاکستان کو جو کچھ مل سکتا ہے ، اس کی پیشین گوئی کرنے کے لئے کسی مہارت ، کسی دانش کی ضروت نہیں۔
جنرل مصطفی نے اپنا تجزیہ یہاں ختم کیا کہ بر صغیر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا تجربہ ہے مگر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چین اس کے نقش قدم پر ہر گز نہیں چلے گا، پھر بھی چین کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو مطمئن ضرور کرے اور پھر وہ سب کچھ کرے جو اس کے دل میں آتا ہے۔ چینی سفیر نے پاکستانی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ معترضین کو شافی جواب دیں مگر عوام کو کچھ علم ہو گا تو وہ شافی جواب دیں گے، ناکافی جواب سے معترضین کے منہ کیسے بند ہوں گے۔
ایک تاریخ ساز منصوبے کو تاریخی کامیابی دلوانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مرحلے پر شفافیت سے کام لیا جائے۔اسی سے سی پیک ایک نئی تاریخ مرتب کر سکے گا۔