خبرنامہ

سی پیک پر غیر مطبوعہ کتاب کی رونمائی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سی پیک پر غیر مطبوعہ کتاب کی رونمائی

سب سے پہلے ایک بری خبر کہ دسمبر میں چین نے بتائے بغیر پانچ کھرب روپے سی پیک کے منصوبے سے نکال لئے ہیں، وجہ یہ ہے کہ منصوبے میں کرپشن پائی گئی ہے۔
میں اپنے پچھلے ایک کالم میں محترمہ زینب احمد کا تعارف کرا چکا ہوں جو پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی اسکالر ہیں اور آبی معاملات پر تحقیق کر رہی ہیں، انہوں نے بتایا تھا کہ وہ سی پیک پر ایک کتاب کی شریک مصنفہ ہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ کتاب تو چھپتی رہے گی، آپ ہمارے چند دوستوں کے ساتھ اپنی تحقیق کے نتائج شیئر کریں،انہوں نے اس کی حامی بھر لی، چنانچہ گزشتہ ہفتے کی شام ان سے ایک طویل نشست ہوئی۔
کتاب کا عنوان غیر معمولی طور پر لمبا ہے۔
:Strategic Implications on Political Economy of Pakistan
کتاب کے مصنفین کی فہرست کچھ یوں ہے:
زینب احمد
ظفر معین
ناصر رانا
اعجاز احمد
مریم احمد
انعام اللہ مروت
ریما مراد علی
مریم علی
سارہ سعید
سی پیک ایک بہت بڑے منصوبے کا بنیادی حصہ ہے جسے چین نے پہلے ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کا نام دیا۔پھر اس میں ترمیم کر کے اسے بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کا نام دے دیا ہے۔ نام کی اس تبدیلی کے محرکات کیا ہیں، ان کو چین نے واضح نہیں کیا۔
چین کی کوشش ہے کہ وہ کئی راستوں سے دنیا کے ساتھ تجارت کرے، اس کے لیے سی پیک کو آپ ایک راستہ تصور کریں، ایک راستہ چین سے میانمار تک جاتا ہے، دوسرا منگولیاسے ہوتا ہوا جرمنی پہنچتا ہے۔ایسے کئی متبادل راستے تجویز کئے گئے ہیں، ان میں سے سی پیک سب سی زیادہ چین کو مفید لگتا ہے کیونکہ اب وہ پورے بحیرہ ہند کو عبور کرکے اپنی کسی مشرقی بندر گاہ تک پہنچتا ہے، تو اسے گوادر سے ا ٓگے مزید ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے، اور چین میں تجارتی اشیا کو پھیلانے کے لئے اسے چار ہزار کلو میٹر کا زمینی سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ گوادر سے کاشغر صرف اڑھائی ہزار کلو میٹر زمینی سفر رہ جائے گا، یوں چین کو گوادر کے فعال ہونے اور سی پیک کی تکمیل سے چودہ ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے نجات مل جائے گی۔
مگر چین کسی ایک راستے پر انحصار نہیں کرنا چاہتا ہے، ا س لئے اس نے کئی راستے تراش لئے ہیں، جس طرح سی پیک کے راستے میں فاٹا، کراچی اور بلوچستان کے شورش زدہ علاقے آڑے آ رہے تھے، اس لئے پاک فوج کے ذریعے ان علاقوں میں امن بحال کیا گیا، حتیٰ کہ بلوچستان کے باغی عناصر سے بھی چین نے براہ راست گفتگو شروع کر دی ہے اور باغیوں کو سرنڈر کروایا جا رہا ہے۔ کراچی میں راوی ہر سو چین لکھتا ہے اور فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے بھی اقدامات تیزی سے جاری ہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چینیوں کو دہشت گردی سے خوف محسوس ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسانہیں، وہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں سینکڑوں جانیں قربان کروا چکا ہے اور اب مزید اموات سے اسے کوئی خوف لاحق نہیں، اس کے باوجود پاک فوج نے پیش کش کی ہے کہ وہ دو ڈویژن فوج صرف اس کی سیکورٹی کے لئے کھڑا کرے گا۔اس کا خرچہ کون دے گا، ابھی یہ مسئلہ طے نہیں ہوا۔
پاکستان میں تمام صوبے سی پیک پر اعتراضات کر رہے تھے، چین نے سب وزرائے اعلیٰ کو ایک میز پر بٹھایا اور پوچھا مانگو کیا مانگتے ہو، جس نے جو مانگا،چین نے اس کے صوبے کو دینے کی حامی بھر لی۔ اب ہر صوبے کو منہ مانگے منصوبے اور مراعات دی جائیں گی جس کے بعد سے پاکستان میں سی پیک کے خلاف صوبائی سطح پر شورو غوغا بند ہو گیا ہے۔مگر میڈیا کا ایک بڑا حصہ اعتراضات سے بھرا ہوا ہے،اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ بھارت کی طرف سے سی پیک کی مخالفت میں طوفان کھڑا کرنے کے لئے بھاری رقوم پاکستانی میڈیا میں بانٹی جا رہی ہیں۔
چونکہ نوازشریف کھل کر بھارت کے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہیں، اس لئے کچھ بعید نہیں کہ اس وقت انہیں حکومت سے ہٹانے کے پیچھے یہ فیکٹر شامل ہو کہ جو شخص بھی بھارت کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے، اسے راستے سے ہٹا دیا جائے۔ مگر یہ محض ایک اندازہ ہے، گمان ہے، حقیقی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ضرور ہے کہ چین ہر قیمت پر اپنے منصوبے کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لئے اس کا جو روٹ میانمار تک جاتا ہے، اس کے راستے میں روہنگیا مسلمانوں کا علاقہ واقع ہے۔ اگرچہ ان کی شورش کو ایک صدی ہو چلی ہے مگر ان دنوں ان کے قتل عام کی مہم میں تیزی آ گئی ہے اور چین واحد ملک ہے جس نے روہنگیا کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کی اور اندازہ یہ ہے کہ وہ ان کی حمائت کرے گا بھی نہیں، اسے اپنے منصوبے کے رواں ہونے سے دلچسپی ہے، خواہ اس کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ آہ! بے چارے روہنگیا مسلمان۔ جو چین کے تجارتی مفادات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
کتاب کے مندرجات کے مطابق چین نے پاکستان میں کوئلے سے بجلی پید اکرنے کے کار خانوں کی حوصلہ افزائی کی ہے، ان کارخانوں میں چین سے در آمد شدہ غیر معیاری کوئلہ استعمال کیا جائے گا جس سے ماحولیاتی مسائل جنم لیں گے، دوسری طرف خود چین میں کوئلے والے کارخانے ختم ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں چین کو گوادر سے ملانے کے لئے تین روٹ تعمیر کئے جائیں گے، ایک مغربی، دوسرا وسطی ا ور تیسرا مشرقی۔ان گزر گاہوں پر صنعتی زون تعمیر کرنے کے وعدے کئے گئے ہیں مگر پاکستانی عوام کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں، جب لاہور اسلام آباد موٹر وے بن رہی تھی تو نوا زشریف نے کہا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی زون قائم کئے جائیں گے، آج بیس بائیس سال بعد بھی ان صنعتی زونز میں سب سے بڑا کاروبار کھابہ گیری کا ہے یا دودھ نما محلول کو برقی مدھانی سے چائے کی شکل دے کر لوگوں سے پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ اور ان کے معدوں کو السر کے مرض کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
چین کے اس دیو ہیکل منصوبے کی مخالفت صرف بھارت ہی نہیں امریکہ بھی کر رہا ہے جس نے ایک اعتراض یہ داغا ہے کہ سی پیک کا روٹ متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے، اسی علاقے میں بھاشا ڈیم کی مخالفت بھی اسی وجہ سے کی جا رہی ہے۔مگر زیر نظر کتاب کی تحقیق کے مطابق چین نے اس منصوبے کو ترک نہیں کیا، بلکہ پاکستان نے چین کو فرار پر مجبور کیا ہے کیونکہ چین نے بھاشا کی سیکورٹی کے لئے جو سخت ترین شرائط رکھی تھیں، وہ پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔
امریکہ کے لئے ممکن نہیں کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی اثرو رسوخ کا راستہ روک سکے۔خود امریکہ کی انتہائی قیمتی مصنوعات چین میں تیار ہو رہی ہیں اور امریکہ کو یہ اپنی منڈیوں تک واپس لے جانے کے لئے آسان اور سستے روٹس درکار ہیں، چین تو اس کے لئے امریکہ کی مدد کر رہا ہے۔
پاکستان میں چینیوں کی تعداد میں اضافہ تو ہو گا مگر اس قدر نہیں کہ پاکستانی اقلیت میں بدل جائیں مگر یہ ضرور ہے کہ چین کے ساتھ میل جول بڑھے گا تو چینی ثقافت کے اثرات بھی ہمیں اپنی لپیٹ میں اسی طرح لیں گے جیسے امریکہ اور اہل مغرب کے ساتھ میل جول بڑھنے سے وہاں کا کلچر ہمارے اوپر حاوی ہو رہا ہے۔ ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا۔
یہ بھی پتہ چلا کہ چینیوں کو بڑی صنعتیں لگانے تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ وہ ہماری پرچون مارکیٹ پر بھی حاوی ہو جائیں گے، مثال کے طور پر برکی میں بہت بڑا رقبہ چینیوں کو دیا گیا ہے جہاں وہ ری ٹیل مارکیٹ بنائیں گے اور اس میں چھوٹی سے چھوٹی اشیا بھی فروخت کے لئے پیش ہوں گی، اس سے ہماری صنعت اور پرچون کے کاروبار پر منفی اثرات پڑیں گے مگر فائدہ یہ ہو گا کہ ہمیں مقابلے میں سستی اشیا خریدنے کو ملیں گی۔
ایک شبہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہماری حکومت کے تمام ادارے سی پیک پر یک جان اور متحد نہیں ہیں، محترمہ زینب احمد نے اس امکان کو مسترد کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اور یکساں سوچ کے حامل ہیں، اگر یہی بات ہے تو پاکستان کو سی پیک سے اپنی حالت بدلنے میں بے حد آسانیاں ہو جائیں گی۔اور اگلے بیس برس میں پاکستان کا ناک نقشہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔پاکستان میں اتنا بڑا انقلاب آئے گا کہ ہم اس کا آج تصور تک نہیں کر سکتے، سینکڑوں یونی ورسٹیاں بنیں گی، پیسے کی ریل پیل ہو جائے گی۔ خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ سی پیک میں ایک دنیا شامل ہونے کے لئے بے تاب ہے، بھارت بھی، ایران بھی، سعودیہ بھی مصر بھی اور جرمنی بھی۔ اور کئی افریقی ممالک بھی، وسط ایشیائی ریاستیں بھی۔ اور خدا جانے کیا سے کیا ہو جائے گا۔ ہماری اگلی نسلیں ا س سے نہال ہو جائیں گی۔