خبرنامہ

سی پیک پر چین بلیک میل ہونے کو تیار ہے……اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

باسٹھ ارب ڈالر کامنصوبہ، اس رقم کا خیال ذہن میں آتے ہی رال سی ٹپکے لگتی ہے۔ سی پیک چین کا منصوبہ ہے۔ ہمیں تو دو ہزار چھ میں یہ سونے کی طشتری میں رکھ کر پیش کیا گیا، یہ ہماری نہیں چین کی ضرورت ہے،اس لئے وہ پاکستان کے ہر قسم کے ناز نخرے اٹھانے کو تیار ہے۔ صدر زرداری چین سے نہال ہوئے۔ نواز اور شہباز کو چین نے خوش کر دیا۔ اب نئی حکومت آئی ہے۔ چین اسے بھی خوش رکھے گا۔ میرے پاکستانی بھائی دل چھوٹا نہ کریں کہ چین ہمیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ اسے تو بس نئے چہروں کو خوش کرنا ہے، ان کے مطالبے پورے کرنے ہیں ، جن کوٹھیکے نہیں ملے۔ انہیں انعام و اکرام سے نوازنے میں اسے کوئی انکار نہیں۔ وہ ا س کے لئے تیار ہے۔ ہم نے چین کے وزیر خارجہ کو پورا احترام نہیں دیا۔ جو پروٹوکول کتابوں میں لکھا ہے،اسے ملحوظ نہیں رکھا۔ ہمارے مشیر سیٹھ رزاق دائود نے فناشل ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا جس نے دنیا کے دارالحکومتوں پر لرزہ طاری کر دیا، نئی دہلی نے اس پر شادیانے بجائے۔ واشنگٹن کی باچھیں کھل گئیں، پاکستانی ڈر گئے کہ یہ کیا قیامت آ گئی کہ ان کے سہانے مستقبل کے سپنے ٹوٹ گئے۔ شہباز شریف گرجے برسے کہ سی پیک بائیس کروڑ پاکستانیوں کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ ہے۔ اسے کھلواڑ مت بنائیے۔ فنانشل ٹائمز کی نیت تھی کہ چین کو ایک پیغام دیا جائے۔ یہ پیغام لائوڈ اینڈ کلیئر تھا کہ آگے بڑھنا ہے تو نئے لوگوں کے نخرے بھی پورے کرو۔
رزاق دائود نے فنانشل ٹائمز کی خبر کی تردید جاری کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خبر کی جو سرخی جمائی گئی وہ سرے سے درست نہیں۔ انہوںنے کہا ہے کہ برطانوی اخبار نے ان کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا ہے۔ اور ان کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ مگر اس وضاحتی بیان میں مشیر وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کونسی غلط باتیں ہیں جو فنانشل ٹائمز نے ان سے منسوب کی ہیں۔
فنانشل ٹائمز نے اپنی خبر میں دعوی کیا کہ پاکستان ایک سال کے لئے سی پیک کو معطل رکھنا چاہتا ہے تاکہ ان معاہدوں پر غور کیا جا سکے جو پچھلی حکومت نے بلا سوچے سمجھے چین سے کر لئے تھے اور ان معاہدوں کے ذریعے چینی کمپنیوں کو ہی فائدہ پہنچایا گیا،۔ نئی حکومت ان معاہدوں پر نظرثانی کے لئے کہے گی۔
مگر فنانشل ٹائمز نے یہ بھی لکھا کہ رزاق دائود اور وزیر خزانہ اسد عمر دونوں کا کہنا ہے کہ وہ بیجنگ کو ناراض نہیں کریں گے اور خاص طور پر وہ نہیں کریں گے جو ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے چینی منصوبوں کے ساتھ کیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ مہاتیر نے چین کو ایک نیا استعمار قرار دیا ہے۔ چین اور ملائیشیا نے پائپ لائن کے تین معاہدے کر رکھے تھے، مہاتیر نے انہیں منسوخ کر دیا ہے اور ریل کے ایک معاہدے پر نظر ثانی کے لئے کہہ دیا ہے۔
ایک طرف یہ کلمات اور دوسری طرف اخبار نے رزاق دائود صاحب سے یہ بات منسوب کر دی کہ سی پیک کو ایک سال کے لئے معطل کر دیا جائے، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جناب مشیر کو نکتہ وار فنانشل ٹائمز کی خبر کی تردید یا وضاحت جاری کرنی چاہئے۔
یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ وزیر اعظم نے ایک بار سے زیادہ یہ کہا ہے کہ پاکستان سی پیک کو بے حد اہمیت دیتا ہے اور اس پروگرام کو تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے گا۔ میں نے اپنے کالموں میں وزیر اعظم کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ان کی تین ابتدائی تقریروں میں سی پیک جیسے اہم ترین منصوبے کا کوئی ذکر نہیں۔ بہرحال اب وہ پاکستانیوں کے دل کی بات کر رہے ہیں جو ملک کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔
یہ سب باتیں بجا اور سیٹھ دائود کی وضاحت بھی سرا ٓنکھوں پر مگر فنانشل ٹائمز نے جو نقصان پاکستان کو پہنچانا تھا، اس میں وہ کامیاب رہا۔ تردیدی بیانات پر کسی کی نظر پڑتی ہے کسی کی نہیں اور تردید کے پیچھے بھی بہت کچھ پڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ عملی کاروباراور صنعتکاری میں شامل ایک شخص کو اتنے زیادہ محکمے کیوں سونپے گئے۔ سیٹھ عبدالرزاق دائود اس وقت وزیرا عظم کے مشیر ہیں، ان کے سپرد محکموں کو ایک انگلی کی پوروں پر نہیں گنا جاسکتا۔ انہیں تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت، سرمایہ کاری اور پیداوار کے محکمے دیئے گئے ہیں، یہ تمام محکمے ان کے ذاتی کاروبار کے مقابل کھڑے ہیں، انہی سے ان کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں،۔ ایسے شخص سے سوشل ورک یا تعلیم پر مشاورت لی جانی چاہئے تھی تاکہ ان کے ذاتی مفادات کا ان کی حکومتی ذمے داریوں سے ٹکرائو نہ ہو سکے۔
موجودہ حکومت کو صرف زبان کھولنے پر پہلے ہی کئی دھچکے لگ چکے ہیں، پہلا دھچکا امریکی وزیر خارجہ کے ٹیلی فون کے متن پر لگا۔ امریکہ کاکچھ کہنا تھا اور ہم کچھ اور کہہ رہے تھے، دوسرا دھچکا نریندر مودی کے خط کے حوالے سے لگا جس کا ہمارے وزیر خارجہ نے کچھ مطلب نکالا اور نئی دہلی نے ترنت اس کی تردید جاری کر دی۔ اب چین کے وزیر خارجہ آئے تو ہم نے کچھ کا کچھ بنا دیا اور لگے ہیں صفائیاں پیش کرنے۔ میرا خیال ہے کہ بیجنگ نے پاکستان کی نیت بھانپ لی ہے اور پاکستان کے بدلتے تیوروں پر خفگی کے اظہار کے بجائے ایک سرکاری بیان میں یہ کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کی ترجیحات کے ساتھ چلنے کو تیار ہے،آپ بھی سفارتی زبان کے لفظ۔۔ نئی ترجیحات۔۔ کا مطلب آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہم سی پیک میں جو تبدیلیاں چاہتے ہیں، چین ان پر غور کے لئے تیار ہے۔ یاد رکھئے کہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا انشی ایٹو بہت بڑا ہے،۔ وہ ایشیا کو یورپ سے تجارتی روابط میں منسلک کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں اسے کئی سڑکیں، کئی شاہراہیں، کئی ریلوے لائنیں اور کئی سمندری راستے تلاش کرنے ہیں۔ مگر صدیوں پرانا تجارتی راستہ جو سلک روٹ کہلاتا ہے اگر وہی چالو نہ ہوا تو چین کا سب منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا، چین سے گوادر تک وہ مختصر سا زمینی راستہ ہے جس کے ذریعے وہ سمندر تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ یہ ون بیلٹ ون روڈ انشی ایٹو کے لئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین اس سے پیچھے ہٹنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا مگر ایک نکتہ اور محل نظر ہے کہ ہم نے جس زور وشور سے بھاشہ بھاشہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اس میں چین کے لئے ایک چیلنج پنہاں ہے اور وہ یہ ہے کہ بھاشہ ڈیم کی وجہ سے شاہراہ ریشم کا سو ڈیڑھ سو میل کا ٹکڑا پانی کی بھینٹ چڑھ جائے گا، اس کا متبادل حصہ تعمیر کرنے میں چین کو مزید ایک عشرہ لگ جائے گا اور یوں سمجھ لیجئے کہ چین کا سی پیک اگلے دس بارہ برس کے لئے از خود پیک ہو جائے گا، ہمیں اس خدشے پر غور کرنا چاہئے اور بھاشہ کی ضد کرنے کی بجائے کالا باغ ڈیم بنانے کی ضد پر اڑ جانا چاہئے۔ یہ مکمل بھی پانچ سال میں ہو جائے گا یعنی وزیر اعظم عمران ہی اس کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور وہی اس کے چالو ہونے کا بٹن دبائیں گے۔ اس سے پانی بھی ملے گا اور بجلی بھی۔ یعنی ایک پنتھ دوکاج، بس عمران خان کو فائٹر بننا ہو گا۔