خبرنامہ

سی پیک کا دفاع ،چین کی طرف سے۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
سی پیک کے دفاع میں چین بھی میدان میں آ گیا ہے۔چین کے قائم مقام سفیر نے ان تمام اعتراضات اور شکوک وشبھات کو مسترد کر دیا ہے جو پاکستان میں زبان زد عام ہیں۔
عام طور پر چیبی سفارت کار خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ تعجب کی بات ہے کہ قائم مقام چیبی سفیر نے ایک کھلی تقریب میں ایک ایک اعتراض کا ذکر کیاا ور ہر اعتراض کو دلائل کی بنیاد پر مسترد کیا۔
اعتراضات کیا ہیں ، خود چیبی سفیر کہتے ہیں کہ سی پیک کو پاک پنجاب منصوبہ کہا جاتا ہے ، حالانکہ اسے ہر ممکن طور پر متوازن بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اگر موازنہ ضروری ہو تو یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں بلوچستان کا زیادہ فائدہ ہے۔ اس لحاظ سے ا سے چین بلوچستان منصوبہ کہا جانا چاہئے۔دوسرا اعتراض بھی چینی سفارت کا رہی کی زبانی سنئے۔کہ سی پیک میں کرپشن کی جارہی ہے۔ موصوف نے جواب دیا کہ یہ کلی طور پر سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے،اسلئے اس میں کرپشن کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، دوسرے تما م معاملات کھلے عام طے کئے جا رہے ہیں اور کوئی ٹینڈر خفیہ طور پر جاری نہیں کیا گیا۔نہ کسی لین دین کا منصوبے میں کوئی عمل دخل ہے ۔
اگلاا عتراض۔ یہ ہر منصو بے پر کیا جاتا ہے ا ور فیشن ہی بن گیا ہے کہ اس منصوبے سے ماحولیات کا نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا۔قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک زمانے میں جی ٹی روڈ کو وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں وسیع کر رہے تھے تو یار لوگوں نے اعتراض کیا کہ برسوں پرانے درختوں کو بے رحمی سے کاٹ د یا گیا ہے۔ یہ سڑک فراخ تو ہوگئی مگر آج تیس سال بعد ضرورت کے مقابلے میں پھر تنگ پڑ گئی ہے۔ اسی طرح لاہور کی نہر کے دورویہ سڑک کو وسیع کیا جانے لگا تو ایک این جی او نے عدالت سے اس بنا پر حکم امتناعی حاصل کر لیا کہ سڑک چوڑی کرنے سے نہر کنارے سر سبز و شاداب درختوں کا قتل عام ہو گا۔یہ اسٹے کئی برس تک خارج نہ ہو سکا ، آج جب یہ سڑک چوڑی بھی کیا جاچکی ہے ا ور ا س پر ایک درجن انڈرپاس بھی تعمیر کئے جاچکے ہیں توپھر بھی اس پر ٹریفک کا اژدہام سفر کرنے والوں پر وحشت طاری کر دیتا ہے۔ سی پیک میں بعض کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے شامل ہیں جن پر اعتراض ہے کہ ان سے ماحول خراب ہو گا اور مہلک بیماریاں پھیلیں گی۔اس پرچینی سفارت کار نے یقین دلایا ہے کہ کوئلے کے ہر منصوبے میں اس امر کا بطور خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس سے دھوئیں اور مضر صحت گیسوں کااخراج نہ ہو۔ مجھے یادآتا ہے کہ پاکستان میں ماحولیات کے مسائل کا چرچا پہلی بارا سوقت ہوا جب محترمہ بے نظیر نے اپنے شوہر آصف علی زرداری کو ماحولیات کا وزیر بنا دیا، اور پھر مشہور ہو گیا کہ کارخانوں کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں اور پھر یہ نوٹس واپس بھی ہو جاتے ہیں، وہی کارخانے جن پر ماحولیات کوخراب کرنے کاا لزام عائد کیا جاتا تھا، انہی کو فٹنس سرٹیفیکیٹ بھی جاری کر دیا جاتا تھا، کیسے، اس کی وجہ جاننے کے لئے ذہن پر زور ڈالنے کی ضروت نہیں ۔
بہر حال چین سب کچھ کر سکتا ہے، ایک بات طے ہے کہ جھوٹ نہیں بول سکتا، وہ دو نمبری مال کو ایک نمبری کر کے فروخت نہیں کرتا، ہاں، آپ سستا مال بنواناچاہتے ہیں تو چین ایسا کر سکتا ہے اور آپ کی خواہش پر اورآپ کے صارفین کی قوت خرید کے مطابق سامان تیار کر دیتا ہے۔ چین میں مصنوعات ویسے بھی سستی ہیں کیونکہ ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں چین کے ہاں لیبر سستی اور وافر ہے مگر اب چین کو لیبر کی دستیابی میں مسائل کا سامنا ہے تو وہ سی پیک کے ذریعے اپنی فیکٹریوں کا جال اپنے ملک سے باہر پھیلانا چاہتا ہے، چین کا ارادہ ہے کی سی پیک کے روٹ پر جگہ جگہ صنعتی زون قائم کئے جائیں گے اور ان میں مقامی افراد کو تربیت دے کر بھرتی کیا جائے گا، ذرا تصور کیجئے کہ جب خنجراب سے لے کر پورے کوہستان، گلگت، خیبر پی کے اور فاٹا میں روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے تو کیا یہ ان علاقوں کی خوشحالی میں اضافے کا سبب نہیں بنیں گے۔ یہ مواقع پنجاب اور، سندھ کو بھی میسرآئیں گے ا ور بلوچستان میں تو گوادر کی ہماہمی سے ایک ایسا انقلاب آئے گا جس کا ابھی سے پوری طرح تصور بھ نہیں کیا جاسکتا۔
اس انقلاب کاراستہ روکنے کے لئے کئی قوتیں متحرک ہو گئی ہیں، ان میں بعض عناصر ملکی ہیں جو یا تو فیشن کے طور پر اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں، یا بے سمجھی کی وجہ سے اور زیادہ تر لوگ بھارت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، بھارت کو گوادر کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ میں اس کی اصل وجہ بتائے دیتا ہوں، آج بھارت کو سی پیک میں شامل کر لیجئے، ہر طرح کی مخالفت کرنے والے مینڈک ٹر ٹر بند کر دیں گے، بھارت کا سارا دباؤ ہی اس بات کے لئے ہے کہ اسے سی پیک کے فوائد کا حصہ دیا جائے، وہ سی پیک کے ذریعے وسط ایشیا کی منڈیوں تک پہنچنا چاہتا ہے، جس طرح روس کی صدیوں سے خواہش ہے کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچے ا ور دنیا سے رابطے کے لئے شارٹ کٹ سے فائدہ ا ٹھائے، اسی طرح بھارت وسط ایشیا تک رسائی کا خواہاں ہے۔
پاکستان میں ایک بیماری اور بھی ہے کہ فلاں کام کا کریڈیٹ فلاں پارٹی کیوں لے جائے، اب دیکھئے، پیپلز پارٹی برسہا برس سے اقتدار میں رہی ہے، وہ ایسامنصوبہ سوچ بھی نہیں سکی، زرداری صاحب نے چین کے بیسیوں دورے کیئے ہوں گے مگر جھولی میں کیالائے، تب لاتے جب ان کے اپنے ذہن میں کوئی منصوبہ، کوئی خیال، کوئی تصور ہوتا، ادھر مسلم لیگ ن کی دیوانگی کا حال یہ ہے کہ نواز شریف ا ور شہباز شریف دو نوں نے چین کے دوروں پر دورے کئے مگر خالی ہاتھ نہیں آئے اور جھولیاں نہیں منصوبوں کے ٹوکرے بھر کے لائے۔ شہباز شرئف کی چینی لوگ ایسے ہی تعریفیں نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں پنجاب ا سپیڈ درا صل شہباز اسپیڈ ہے، چینی حکام ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں ، وزیر اعظم سے بھی ملے ہیں ا ور اخبارات نے لکھا ہے کہ انہوں نے فرمائش کر کے مریم نواز سے بھی ملاقات کی۔ یہ لوگ بلاول یا عمران کے پاس کیوں نہیں گئے، فرق صاف ظاہر ہے۔
ایک بات یہاں ضرور کہوں گا، ا س کا اظہار چینی سفارت کار نے بھی کیا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ راز داری برتی جا رہی ہے، اور عوام کو اس منصوبے کی جزئیات تو کجا، تفصیلات تک کا علم نہیں ،ا گرچہ چینی سفیر نے ا س تاثر کو یہ کہہ کر جھٹلایا ہے کہ اگر تفصیلات مخفی رکھی گئی ہیں تو میڈیا میں اعداد وشمار کہاں سے لئے جا رہے ہیں۔ اور ان پر بحث بھی ہو رہی ہے، یہ دعوی کسی حد تک درست ہو سکتا ہے مگر کیا مناسب نہیں کہ ایک تفصیلی رپورٹ، نقشوں اور منصوبوں سمیت شائع کر دی جائے، یہ کام چینی حکومت کر دے، یا ہمارے منصوبہ سازاحسن اقبال کر دیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، یہ کوئی دفاعی پراجیکٹ نہیں ہے، ایک تجارتی روٹ کا مسئلہ ہے ا ور صنعتوں کے فروغ کا منصوبہ ہے، اس کی الف بے ہر ایک کو پتہ ہونی چاہئے۔ اس کے بعد کسی کے لئے اعتراضات اور شکوک و شبھات پھیلانے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔
ویسے چینی سفیر وک وضاحتوں کے لئے استعمال نہ ہی کیا جائے، پاکستان میں درجہ بدرجہ اس قدر حکام موجود ہیں جو یہ کام احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔