خبرنامہ

شکریہ جنرل راحیل، قوم کو خوشیاں واپس مل گئیں۔۔۔اسداللہ غالب

بیس کروڑ عوام میں سے ضروری نہیں کہ جنرل راحیل شریف میرے نام سے بھی واقف ہوں مگر ہر پاکستانی جنرل راحیل شریف کے نام سے ضرور�آگاہ ہے ا ور انہیں اپنا محسن سمجھتا ہے، میں بھی ایک عام پاکستانی ہوں ا ور اسی طرح جنرل راحیل کو ملک و قوم کا محسن سمجھتا ہوں اورا سکاکھل کر اظہار بھی کر رہا ہوں، میں ایک عام �آدمی کے جذبات کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں، یہ عام آدمی میری ہی طرح جنرل راحیل شریف تک رسائی نہیں رکھتا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ہم میں سے کسی نے سیدناامیر حمزہؓ کو نہیں دیکھا ، شہید کربلا امام حسینؓ عالی مقام کو نہیں دیکھا، خالد بن ولید ؓ کو نہیں دیکھا، محمد بن قاسم کو نہیں دیکھا، عقبہ بن نافع کو نہیں دیکھا، طارق بن زیاد کو نہیں دیکھا ، محمود غزنوی کو نہیں دیکھا ، کسی غوری ا ور ابدالی کو نہیں دیکھا مگر ہم ان سب کو چاہتے ہیں، دل کی گہرائیوں سے ان سے انس رکھتے ہیں، ان کی جراتوں کو سلام کرتے ہیں، ان کے شاہنامے گاتے ہیں، وہ ہمارے ہیرو ہیں اورہماری تاریخ کے تابناک اور درخشندہ ستارے ہیں۔
وہ آیاا ور چھا گیا۔
یہ ایک محاورہ تھا جو ہم نے سن رکھا تھا مگر ا سکی عملی تعبیر نہیں دیکھی تھی۔جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی کمان سنبھالی اور خون میں نہائی ہوئی ، خوف کی ماری قوم کو حوصلہ بخشا،دہشت گردوں کو ان کی پناہ گایوں میں گھس کر ماراا ور ان پر پاک سرزمین تنگ کر دی، دیکھتے ہی دیکھتے جنرل راحیل شریف قوم کی امیدوں کامرکز بن گئے۔
وہ آیا اور چھا گیا۔
یہ محاورہ تھامگرا سے حقیقت بنتے ہم نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔
مجھے چند برس پہلے کی وہ نصف شب کبھی نہیں بھولے گی جب ہم نے چودہ اگست مکمل تاریکی میں منایا، یہ میری ہی نہیں میرے ملک اور میری قوم کی سیاہ تریں رات تھی۔ آزادی کی خوشیاں منانے کی ہمت ہمیں دن کی روشنی میں نہیں ہو سکی تھی، ا س قدر ڈری، سہمی ا ور خوفزدہ قوم کا تذکرہ میں نے تاریخ میں نہیں پڑھا ۔
مگر جب گزشتہ روز ہم نے دن کے اجالے میں ٹی وی کے لائیو کیمروں کے سامنے جشن یوم پاکستان منایا اور اپنی فوجی طاقت اور قومی جبروت کا مظاہرہ یکھا تو میرا سینہ فخر سے چوڑا ہو گیا۔ یقین مانئے میں سلطان میسور کے ا س قوم کا شیدائی ہوں کیی گیدڑ کی سو دن کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بدرجہا بہتر ہے۔ میں اپنی افواج سے بھی پوچھتا ہوں کی جب وہ میدان جنگ میں اترتی ہیں تو کیا انہوں نے سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے ہوتے ہیں، کیا انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے بوڑھے اور تھکن کا مارے سیکورٹی گارڈوں کی خدمات مستعار لی ہوتی ہیں، کیا ہماری فوج کے ہر جوان کو یہ نہیں بتایاجاتا کہ جو گولی تمہارے لئے نہیں بنی ، وہ تمہیں نہیں لگ سکتی اور کیا یہی بے خوفی ا سے مشین گنوں کی باڑھ کا سامنا کرنے کی جرات نہیں بخشتی۔مجھے امریکی صدر بش کی یہ بات اچھی لگی تھی جو اس نے نائن الیون کی خونریزی کے بعد اپنی قوم سے کہی تھی کہ نکلو، گھروں سے پارکوں کی طرف، ریتلے ساحلوں کی طرف اور فاسٹ فوڈ ریسٹورانوں میں جمگھٹا کرو۔
یوم پاکستان کی پریڈ میں سب سے آگے صدر پاکستان ، ان کے ساتھ وزیر اعظم ، اور آرمی چیف، ایئر چیف، نیول چیف ، ایئر چیف اور وزیر دفاع کھڑے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں خوش لباس بچے اپنی ماؤں کے پہلو میں پھولوں کی طرح بہار دے رہے تھے۔اور ہر گھر میں ٹی وی کے سامنے لوگ بیٹھے تھے، یہ تاریخ ساز لمحات تھے، خوف اور دہشت کا دور دور تک نام ونشان نہیں ملتا تھا۔ایک مسرت تھی جو ہونٹوں پر کھیل رہی تھی، ایک چمک تھی جو آنکھوں سے ٹپک رہی تھی اور قوم کی پیشانی خوشیوں سے دمک رہی تھی۔
مجھے لاہور کے ا س جرنیل پر فخر ہے جو واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کی اگلی شام اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پریڈ دیکھنے کے لئے جا پہنچا تھا اور لاہور کے شہریوں نے 1965 کی طرح زندہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے واہگہ بارڈر کا رخ کیا تھا، ایک شام پہلے جہاں لاشیں بکھری تھیں ، اگلی شام وہاں نعرے گونج رہے تھے اور ولولے ا ور جذبے انگڑائیاں لے رہے تھے، بارڈر کے دوسری طرف سناٹا تھا۔ ہم نے دو روز پہلے برسلز میں دیکھا، چند دھماکے ہوئے، ملک کا سارا نظام جام ہو گیا ، یورپی یونین کے نمائندے پارلیمنٹ کے اجلاس سے ا ٹھ کر گھروں کو سدھار گئے، بسیں ، ٹرامیں اور جہاز جہاں تھے، وہیں رک گئے۔
فوجی پریڈ دیکھ کرمجھے پاکستان پر دلی فخر محسوس ہوا، یہ تیرہ برس سے لہو میں نہا رہا ہے، ایک لاکھ افراد شہید ہو چکے ہیں اور ان میں ڈیڑھ سو پھول جیسے بچے آرمی پبلک اسکول پشاور کے بھی شامل ہیں جو چشم زدن میں گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت سے سرفراز ہو گئے ،مگرا س قوم کے حوصلے دیکھنے والے ہیں،اور یہ حوصلے ملے ہیں تو افواج پاکستان کے بے مثال ایثار اور دلیری سے، انہوں نے اپنا�آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا، ان کے بچے یتیم ہو گئے مگر ہمیں اپنے بچوں کے سر کا سایہ بنا دیا،ان کی ماؤں کی گود اجڑ گئی مگر قوم کی ماؤں کی گودیوں میں بچے ہمک رہے ہیں۔ان کی بیویاں اپنے سہاگ سے محروم ہو گئیں مگر گھر گھر کے سہاگ سلامت ہیں۔ان جوانوں، ایثار پیشہ افسروں کو سلام، ان کے جوان ، گرم خون کے قطرے ہمارے مستقبل کی راہیں اجال رہے ہیں۔
یہ معجزہ یونہی نہیں ہو گیا،ا س کے پیچھے جذبہ متحرکہ فوج کا وہ سپاہ سالار ہے جو دونشان حیدر حاصل کرنے والوں کو امانتدار ہے، امین وہ ہوتا ہے جو خیانت نہیں کرتا، جنرل راحیل نے اپنے فرض کی ادائیگی میں توقع سے بڑھ کر دلیری دکھائی، اس کی راہنمائی میں پاک فوج نے ملک کو دہشت گردی کے خونی شکنجوں سے آزاد کرایا۔
قوم نے یوم پاکستان کی خوشیاں لہرا لہرا کر منائیں۔شہر شہر منائیں، قریہ قریہ منائیں ۔ا ور اصل خوشیاں تو اپنی فوجی قوت کے مظاہرے نے عطا کیں۔جری جوانوں کا مارچ پاسٹ، توپوں ، ٹینکوں ، میزائلوں کی قطاریں،فضاؤں کو چیرنے والے ایف سولہ،میراج ا ورتھنڈر طیارے، ایس ایس جی کمانڈوز کے اللہ ہو کے فلک شگاف نعرے، بلندیوں سے کودنے والے چھاتہ بردار ۔ سبھی کچھ دیکھ کردل بلیوں اچھل رہا تھا۔
ملکوں ملکوں فضائی کرتب دکھائے جاتے ہیں، فرانس ا ور برطانیہ جیسے ملک میں جہاز سے جہاز ٹکرا جاتا ہے اور حاضرین پر موت بن کر گرتا ہے مگر ہم نے اپنے شاہینوں کے کرتب دیکھے، دل تھام کے دیکھے، لرزتے ہونٹو ں پر ان کی سلامتی کے لئے دعائیں تھیں۔اورزندہ باد کے نعرے تھے۔
جنرل راحیل! آپ کا شکریہ کہ قوم کو ان کی خوشیاں واپس مل گئیں۔یہ شکریہ ایک عام آدمی کی طرف سے ہے جسے آپ نہیں جانتے ہوں گے لیکن وہ آپ کو ایک بہادرا ور شیر دل سپاہ سالار کے طور رجانتا ہے۔اس کے ہیروز کی ایک لمبی قطار ہے۔ خالد بن ولیدؓ سے سلطان محمد فاتح تک۔اورا س قطار میں آپ بھی ایک قد�آور ہیرو کے طور پر نظر�آ رہے ہیں۔