خبرنامہ

شکریہ پاک بحریہ!،تمہاری ایک جنبش نظر کا نام موت ہے۔اسداللہ غالب

بسم اللہ
ٹھیک ایک ماہ پہلے میری ملاقات پاک بحریہ کے پچھلے سربراہ ایڈمرل آصف سندھیلہ سے ہوئی۔ان کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ا ورآپ سب کو بھی یا دہوں گے، انہوں نے کہا تھا کہ یہ اکہتر نہیں ہے، آج پاک بحریہ کی آنکھیں بھی ہیں، کان بھی ہیں،اور جسم میں قوت بھی ہے۔ہماری نظر دشمن کی ایک ایک نقل و حرکت پر ہے۔ہم اس کی سرگوشیوں کو سن سکتے ہیں، اور وقت سے پہلے جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔
خدا لگتی کہئے کہ جب آپ نے بھارتی آبدوز کی در اندازی کی ناکام کوشش کی خبر سنی یاپڑھی تو کیا آپ کو ایڈمرل آصف سندھیلہ ایک سچ بولنے والے انسان نظر نہیں آئے، کیا ان کا ایک ایک لفظ حقیقت پر مبنی نہ تھا۔
میں تو اپنے محافظوں کی یقین دہانیوں پر آ نکھیں بند کر کے ایمان لانے کا عادی ہو گیا ہوں، آخر وہ کیوں جھوٹ بولیں گے،ان میں سے کسی کا نام جنرل یحی خان نہیں،، نہ کسی کے حرم میں جنرل رانی ہے نہ کوئی یحی خان کے دوسرے جرنیلوں کی طرح کا کوئی جنرل نیازی یا جنرل عمریا جنرل پیر زادہ یا کوئی جنرل حمید ، آج جنرل راحیل شریف ہیں جو کہتے ہیں تو سچ کہتے ہیں کہ وہ روایتی اور غیر روائتی جنگ کے لئے تیار ہیں ،کولڈ اسٹارٹ ہو یا ہاٹ اسٹارٹ، وہ ا ن کے لئے بھی تیا رہیں ، جنرل عاصم باجوہ جوٹویٹ کرتے ہیں وہ وقت کی مزان پر سچ ثابت ہوتے ہیں۔ جنوبی ا ور شمالی وزیرستان میں کئی جرنیل آئے ، ہر ایک نے اپنے حصہ کا کام کامیابی سے مکمل کیا، کراچی میں جنرل رضوان اختر ہیں،جنر ل نوید مختار، ہر ایک شجاعتوں کے شاہنامے کا ہیرو ہے، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہ کم بولتے ہیں مگر کام ڈنکے کی چوٹ پر کر کے دکھاتے ہیں۔
پاک بحریہ پہلی آزمائش سے دوچار ہوئی اور اللہ کے فضل سے اس میں سرخرو ہوئی۔ آصف سندھیلہ نے جو پیش گوئی کی تھی وہ محض دل بہلاوے کے لئے نہیں تھی، وہ کسی نازی جنرل گوئبلز کا جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں تھا بلکہ قوم کے سامنے ایک سچ بولنے کا مظاہرہ تھا، ایڈمرل سندھیلہ کے الفاظ نے قوم کوحوصلہ بخشا۔
بھارتی آبدوز کہیں چودہ نومبر کے ارد گرد پاکستانی سمندری حدود میں دیکھی گئی، مگر اس کو مار بھگانے کی خبر اٹھارہ نومبر کو سامنے آئی، ان چار دنوں میں کیا آ نکھ مچولی ہوتی رہی،اس سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پاک بحریہ نے اسے چار روز تک حراست میں رکھاا ور بھارت نے خفت کے مارے زبان بند رکھی۔بھارت تو کنٹرول لائن پر سرگباش ہونے والے اپنے فوجیوں کی تعداد یاا انکے نام بھی ظاہر نہیں کرتا ، بس اسے اوڑی ڈرامے کی اٹھارہ لاشیں درکار تھیں، وہا سے مل گئیں اورا سنے سمجھ لیا کہ ا سکی رسی دراز ہو گئی، اس نے روزانہ کنٹرول لائن پر گولہ باری شروع کرد ی، ایک سرجیکل اسٹرائک کا بھی دعوی کیا، جنرل عاصم باجوہ نے ملکی ا ور غیر ملکی نامہ نگاروں کو پوری کنٹرول لائن دکھا دی اور ثابت کیا کہ کہیں خراش تک نہیں آئی۔
بھارت نے چو مکھی جنگ کے محاورے پر حرف بحرف عمل شروع کر دیا ہے، دہشت گردی ،جاسوسی، انتشار،اور ورکنگ باؤنڈری سے لے کر پوری کنٹرول لائن پرفائرنگ اور گولہ باری،پاک فوج کے جوان بھی شہید ہوتے ہیں اور نہتے شہری بھی جن میں ببچے بھی شامل ہو گئے۔ ننھے شہید اللہ کے حضور پہنچے ہوں گے تو خدائی بھی عش عش کر اٹھی ہو گی۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی روایت آج بھی زندہ ہے۔
اب بھارت نے پاکستان سے چھیڑ چھاڑ میں اضافہ کر دیا ہے، وہ اشتعال دلانا چاہتا ہے ، یا پاکستان کی قوت اور تیاریوں کاجائزہ لینا چاہتا ہے، وہ دونوں کام کر رہا ہے۔بحیرہ عرب میں ایک عرصے سے مشترکہ مشقیقں جاری ہیں ، کبھی امریکی بحریہ کے ساتھ اور اب شاید چینی بحریہ کے ساتھ، اسی بحیرہ عرب میں گہرے پانیوں کی بند رگاہ گوادر فعال بنا دی گئی ہے، بھارت اسے ہضم نہیں کر پا رہا ، یہ سب کچھ اس کی برداشت سے باہر ہے ، وہ پاکستان کی قوت برداشت کا بھی امتحان لے رہاہے مگر پاکستان اس کی طرح ایک غیر ذمے دار ریاست نہیں ہے، پاکستان میں کوئی روگ آرمی نہیں ہے ، گو بھارت نے روگ آرمی کے اشتھار 1999 میں غیر ملکی اخبارات میں چھپوا دیئے تھے مگر روگ آرمی کون ہے، شتر بے مہار فوج کونسی ہے، یہ بھارت ہے جس کا اپنی رو گ آرمی پر کچھ کنٹرول نہیں ، شروع سے نہیں ، اس روگ آرمی نے حیدرآباد دکن پر قبضہ کیا ، جونا گڑھ پر کیاا ور پھر کشمیر پر کیا اور اکہتر میں کارگل پر کیا ، چوراسی میں سیاچین پر کیا اور اکہتر میں اس روگ آرمی نے مشرقی پاکستان کو الگ کرو ا دیا۔
بھارت کسی ایک محاذ تک محدود نہیں، زمین کے بعد اس نے سمندری محاذ گرم کر دیا مگر منہ کی کھائی، اس کی آبدوز جرمن ساختہ اور دنیا کی مانی ہوئی جدید تریں آبدوز ہے ، مگر اسے دم دبا کر بھاگنا پڑا، اگلے روز بھارت نے ڈرون طیارہ کشمیر میں گھسیڑ دیا، وہ ہماری حدود میں تھا، ا سلئے ہم نے اسے مار گرایا،ا س کا ملبہ ہمارے قبضے میں ہے اور دنیا بھر کا میڈیا اس کا تماشہ کر سکتا ہے۔
پاک بحریہ نے جوکارنامہ انجام دیا، اس پر ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے، پاک بحریہ میڈیا سے دور دور رہتی ہے مگر اسکی ایک ہی ضرب نے اسے شہہ سرخیوں کی زینت بنا دیا۔
خدا نخواستہ اگر پاک بحریہ کی کوئی کشتی یاآبدوز بھارتی سمندری حدود میں غلطی سے بھی گھسی ہوتی یا ممبئی کے قرب وجوار میں دیکھی جاتی توکیاہوتا، ایک طرف بھارتی میڈیا نے آسمان سر پہ اٹھا لینا تھاا ور دوسری طرف ہمارے میڈیا نے پاک بحریہ کے لتے لینے تھے ا ور اسے روگ ثابت کرنے کے لئے خصوصی تجزیاتی میراتھون نشریات کاآغا کر دینا تھا، مگر کیامجال کہ ہمارا نام نہاد میڈیا بھارتی آبدوز کی در اندازی پر ذرو بھر چونکا ہو یاا سنے کسی ہنگامی تجزیاتی ٹاک شو کا اہتمام کیا ہو۔یہ بھی نہیں ہوا کہ ہماری پارلیمنٹ میں کوئی اچکزئی یا کوئی خورشید شاہ پوائنٹ آف آرڈر پر یہ کہنے کے لئے اٹھاہو کہ ہم اپنے ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، اگر جمہوریت کو فرضی اور مبینہ خطرہ لاحق ہوتوان لیڈروں کے بیانات سننے کے لائق ہوتے ہیں، مگر یارو! پاکستان کی خیر تو مانگو، پاکستان قائم ہے تو پھر کہیں اپنی یہ جمہوریت بھی چلا پاؤ گے۔
انیس سو اسی میں میرے نوائے وقت میں آنے قبل محمود شام اس کے میگزین ایڈیٹر ہوتے تھے مگر پاک بحریہ کیلئے انہوں نے ایک نغمہ پینسٹھ میں لکھا ، ان دنوں وہ گورنمنٹ کالج میں مجھ سے سینیر تھے۔ محمو د شام کا ایک ترانہ ،پاک بحریہ کی نذر۔ ،لاحظہ فرمایئے!
سمندروں کے پانیو بہوتو تیز تر بہو
تمہارے سینے پر ہمارے نوجواں ہیں تیز رو
سنو ! اے ساحلوں پہ گھومتی ہواؤ رک پڑو
چلوعدو کے مورچوں کی طرف باگ موڑ لو
بہو توتیز تر بہو، بہو تو تیز تر بہو!
یہ ساحلوں کے پاسبان، یہ ساحلوں کے راز داں
سمندروں کی تہہ میں بھی رہے ہیں یہ رواں دواں
جلا کے خاک کر دیا غنیم کادوارکا
نہاں ہیں ان کے بازووں میں کیسی کیسی بجلیاں
سمندروں میں ان کے دم سے امن کا قیام ہے
انہی کے بازووں سے آج موج موج رام ہے
مگر یہ دشمنوں کی سمت جب بھی آ نکھ پھیر لیں
تو ان کی ایک جنبش نظر کا نام موت ہے
تو ان کی ایک جنبش نظر کا نام موت ہے
تو ان کی ایک جنبش نظر کا نام موت ہے۔