خبرنامہ

شہباز شریف جے آئی ٹی کے نشانے پر کیوں! اسد اللہ غالب….انداز جہاں

سعید احمد اور شہباز میاں کا نام کسی پانامہ پیپر میں نہیں ، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں، صرف عمران خان کی زبان پر ہے، کیا عمران خان اس ملک کا محتسب اعلی ہے۔اگر ہے تو کیسے!
یہ طعنہ سننے میں آرہا ہے کہ جے آئی ٹی نے نواز شریف کوطلب کیا ہے مگر مروڑکچھ صحافیوں کے مخصوص ٹولے کے پیٹ میں اٹھتا ہے ۔یہ طعنہ سو فی صد ٹھیک ہے مگرمروڑ میرے پیٹ میں بھی اٹھتا ہے، فرق یہ ہے کہ میں کسی مخصوص ٹولے میں شامل نہیں،۔ میری آزادانہ رائے ہے اور مجھے آزادی اظہار کا حق حاصل ہے جسے میں استعمال کرتا رہوں گا، لوگوں کی زبان دراز ی جتنی مرضی بڑھتی جائے، مجھے اس کی چنداں پروا نہیں۔
ایک اصولی بات پر قوم کا اتفاق ہے کہ اس ملک میں احتساب ہونا چاہئے، سب کاہونا چاہئے اور بلا امتیاز ہونا چاہئے۔لگاتار ہونا چاہئے۔بے حساب ہونا چایئے۔
مگر اسوقت جو ڈرامہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اسے احتساب کا نام کون دے سکتا ہے ، یہ انتقام کی کوئی شکل ہے اور انتقام بھی ایسا کہ حکمران خاندان کو بے بس کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ان کے افراد کو ذلیل و رسوا کرنے کی ایک مہم ہے جو جے آئی ٹی کی آڑ میں چلائی جا رہی ہے۔اور صاف نظر آتا ہے کہ عمران خاںنامی ایک فرد کے ہاتھ میں اس کی طنابیں ہیں۔یہ فرد سیاستدان ہر گز نہیں ، ایک کھلاڑی تھا، اب بلا تھامنے کی ہمت نہیں رکھتا، وہ گزشتہ انتخابات کے بعد ہی سے معاملات دگر گوں کرنے پر تلا ہو اہے۔ عمران ہر تیسرے سانس میں یہ کہہ رہا تھا کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے،کرکٹ کے کھیل کے دوران ایک امپائر انگلی ضرور اٹھاتا ہے مگر سیاست کے دنگل میںہر گز ہر گز کوئی امپائر نہیں ہوتا، اسی لئے کسی امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی مگر جب نیشنل بنک کے صدر سعید احمد کو جے آئی ٹی میں سمن کیا گیا تو کوئی شک باقی نہ رہا کہ یہ سب کچھ عمران خاں کی خواہش پر ہو رہا ہے۔ سعید احمد پچھلے چالیس برس سے پاکستان میں نہیں رہتا، اس کے ساتھ اگر کسی نے مل کر کرپشن کی ہے تو وہ شخص پاکستان میںہونا چاہئے اور پہلے اس سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے اورا س سے پوچھ گچھ مشرف کے فوجی جرنیل کر چکے ہیں، اس سے کچھ نہیں نکلا اور بعد میںاسے عدلیہ نے بھی تمام ا لزامات سے بری کر دیا۔اب اگر جے آئی ٹی اسے طلب کرتی اور وہ پھر وہی بیان دیتا جو اس سے منسوب ہے اور جسے وہ دباﺅ کا نتیجہ قرار دیتا ہے تو تب سعید احمد کو سمن کر نے کی وجہ سمجھ میں آتی تھی۔کسی کے اعترافی بیان کے بغیر اسے سمن کرنے کا صرف مطلب یہ ہے کہ عمران خان کے بار بار دہرائے جانے والے الزامات کے نتیجے میں اس کی دھلائی کی گئی۔ یہ اللہ لوک بندہ ہے، اس کو جس کسی نے تنگ کیا، اس نے پاپ کمایا۔ اس پر عمران خان کے علاوہ کسی نے لزام نہیں لگایا، یہ تاثر کیوں ہے کہ سارا تماشہ عمران کی خواہشات کی تسکین کے لئے رچایا جا رہا ہے ۔
میں یہ بھی نہیں جانتا کہ عمران خان کی شریف خاندان سے دشمنی ا ور عناد کا سبب کیا ہے، کسی کو اس راز سے پردہ اٹھانا چاہیے تاکہ یہ کھیل یہیں پر ختم ہو جائے۔ ستر اور اکہتر میں بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان عناد نے پاکستان کو دو لخت کر دیا،ا ب بقیہ نحیف و نزار، دہشت گردی سے لاچار پاکستان ایسے کسی سانحے اور صدمے کی تاب نہیں لا سکتا۔
دو دن پہلے شہباز شریف کی طلبی کی خبریں سنیں تو میں سٹپٹا کر رہ گیا، اس شخص پر چین آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتا ہے ۔ اس کا نام پانامہ کے جھوٹ کے پلندے تک میں بھی نہیں، پانامہ کا قضیہ وزیر اعظم کی تقریروں سے آگے بڑھا، سپریم کورٹ تک پہنچا، اس دوران بھی شہباز شریف کا کہیں ذکر تک نہیں آیا تو جے آئی ٹی میں شہباز شریف کی طلبی کی وجہ کیسے سمجھ میں آئے۔ معاملہ شہباز تک محدود نہیں، اس خاندان کی خواتین تک پھیلتا جارہا ہے، سرا سر ایک خاندان کوا نتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بلا امتیاز احتساب کرنا مقصود تھا تو جے آئی ٹی کو قذافی سٹیڈیم میں کچہری لگاناچاہئے تھی، لاکھ دو لاکھ لوگوں کو طلب کرتی اور اس وقت چھوڑتی جب وہ اپنی پاکیزگی اور امانت دیانت کا ثبوت فراہم کرتے بلکہ ثبوت فراہم کرنا جے آئی ٹی کا فرض تھا اور اگر یہ لاکھ دو لاکھ افراد ان ثبوتوں کے سامنے ہتھیارڈال دیتے تو انہیں وہیں اسٹیڈیم میں سر عام لٹکا دیا جاتا۔یہ تھا بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ احتساب، اب تو صرف انتقام کی شکل بنتی ہے اور وہ بھی صرف ایک خاندان کی،پانامہ میں ہزاروں پاکستانیوں کے اسمائے گرامی ہیں، ان میں سے شریف خاندان کے سوا کسی ایک کواف تک نہیں کہی گئی۔
ویسے پانامہ پیپرز بھی ایسا ہی ردی کا ڈھیر ہے جو یا تو کوڑے دان کی نذر ہو جاتا ہے یاا س میں پکوڑے بکتے ہیں۔پانامہ پیپرز کو تقدس کا درجہ کیسے مل گیا۔پوری دنیا نے پانامہ پیپرزکو جوتی کی نوک پر رکھا، ہمارے پڑوس بھارت کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگی مگر ہم نے پانامہ کو سرطان سمجھ کر اس کا علاج شروع کر دیا،یہ کیسا اتفاق ہے کہ اس ملک میں سرطان کا علاج بھی صرف عمران کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔
ہم کہتے تو ہیں کہ اسلام میں حکمران کو قاضی کی عدالت سے حاضری کاا ستثنی حاصل نہیں، اگر یہی اسلام کی تعلیم ہے تو نواز شریف اور شہباز شریف اسی پر عمل کر کے وہی تاریخ دہرا رہے ہیں جو خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ نے مرتب کی تھی۔ مگر کیا آج کے تفتیشی افسر خلفائے راشدین کے دور کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
لندن میں فلیٹ ہونا جرم ہے یا قابل تفتیش الزام ہے تو لندن یا بیرون ملک لاکھوں پاکستانیوں کے فلیٹ، اکاﺅنٹ اور کاروبار ہمیشہ سے چلے آ رہے ہیں۔ان کو جے آئی ٹی نے ابھی تک یاد کیوں نہیں کیا۔
جے آئی ٹی نے بھی اب واویلا شروع کر دیا ہے،پہلے کچھ لوگ کہتے تھے کہ شریف خاندان تفتیش سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے ، مگر شریف خاندان نے استقامت دکھائی تو اب تفتیشی عملہ راہ فرار کی تلاش کے چکر میں مبتلا ہے، کیا ہی بہتر ہو کہ جے آئی ٹی چند روز اعتکاف میں چلی جائے، عید کی خوشیاںمنائے ا ور ا سکے بعد عمران خان، جمائمہ خاں اور گولڈ اسمتھ ، مسز گولڈ اسمتھ اور ان کے بیٹے بیٹیوں کو بھی طلب کرے اور ان سے پوچھے کہ انہوںنے عمران کو بنی گالہ کا محل بنانے کے لئے پیسہ کب دیا، کس اکاﺅنٹ سے دیا، عمران بھی آج تک جو چندے اکٹھے کرتا رہا ہے، اس کا پورا حساب دے، آخر اس نے یہ پیسہ چھوٹے بچوں کی جیب سے نکلوایا ہے یا پھر یورپ اور امریکہ کے بڑے سیٹھوں سے اینٹھا ہے، اس نے یہ پیسہ کاروبار میں کیوں لگایا، لندن کا فلیٹ کس رقم سے خریدا، اپنی آف شور کمپنی کب اور کیوں بنائی، معاملہ عمران خان تک نہیں رکنا چاہئے ، جے آئی ٹی پھر کچھ دن آرام کرے ا ورا سکے بعد جہانگیر ترین کو طلب کرے اور پانامہ کے ردی کے ڈھیر میں جس جس پاکستانی کا نام پڑھا جا سکتا ہو، اسے بھی باری باری بلوائے ، اس سارے عمل میں کچھ برس لگ سکتے ہیں،انصاف توہونا چاہئے، ورنہ جے آئی ٹی کو انتقام کا کھیل مزید جاری نہیں رکھنا چاہئے، بہت ہو گئی، حسین، حسن، سعید احمد، طارق شفیع اورا ٓج وزیر اعظم، کسی کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔شہباز شریف ا ور اس خاندان کی خواتین تک کو جے آئی ٹی کی لپیٹ میں لینے سے پہلے عوامی خواہشات اور انصاف کے قدرتی تقاضوں کے پیش نظر اس عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ احتساب ہو تو سب کا ہو۔صرف شریف خاندان کا کیوں۔باقی خاندانوں کا کیوں نہیں۔