خبرنامہ

شہباز شریف عدلیہ فیصلوں کوما نتے ہیں ، ان پر عمل بھی کرتے ہیں…..اسد اللہ غالب

نیب نے خادم پنجاب

شہباز شریف عدلیہ فیصلوں کوما نتے ہیں ، ان پر عمل بھی کرتے ہیں…..اسد اللہ غالب

ماڈل ٹاﺅن میں شریف خاندان کے گھر کے سامنے سے دو مرتبہ رکاوٹیں ہٹائی گئیں۔ پہلی مرتبہ اس وقت جب میاںمنظور وٹو نے غلام حیدر وائیں کے خلاف نقب لگائی اور انہیں ہٹا کرخود وزارت عظمیٰ ہتھیا لی۔ میرا گمان یہ ہے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلا اقدام ہی انتقام لینے کے لئے کیا۔ یہ رکاوٹیں غیر قانونی ہو سکتی ہیں مگر اس پوری گلی میں شریف فیملی کے سوا کسی اور کا گھر بھی نہیں اورگز ر بھی نہ تھا اور یہ رکاوٹیں عام پبلک کے لئے کسی تکلیف یا تشویش کا باعث نہ تھیں۔
درمیان میں ایک کام اور ہوا۔ مشرف دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے شریف فیملی کے گھر کو سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اوراس میں بوڑھوں کے لئے عافیت کدہ قائم کرکے سیکرٹری سوشل ویلفیئر شعیب بن عزیز کی تحویل میں دے دیا مگر جس روز جلا وطنی کے بعد نواز شریف کا جہاز ائرپورٹ پر اترا تو اس عافیت کدے سے تمام بوڑھے شتابی سے فرار ہو گئے اور گھر کو صاف ستھرا کرکے واپس شریف فیملی کو لوٹا دیا گیا۔
اب عدلیہ متحرک ہوئی ہے، نواز شریف کو نااہل کر دیا گیا ہے اور وہ جلسوں میں پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوںنکالا۔ ایک بہت بڑی مہم ہے جو عدل کی بحالی کے نام پر چلائی جا رہی ہے، عدلیہ کی اس قدر تضحیک، تذلیل اور تحقیر کبھی دیکھنے میںنہیں آئی، پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف بھی فیصلے آتے رہے، بھٹو کو پھانسی بھی دے دی گئی، جیالوںنے اپنے ا ٓپ کو آگ بھی لگائی، عدالتوں کو کینگرو کورٹس بھی کہا گیا۔ مگر تضحیک، تذلیل اور تحقیر کی نوبت نہیں آئی، وزیراعظم گیلانی کو بھی بیک جنبش قلم فارغ کر دیا گیا اور وہ اپنی گاڑی خود چلا کر گھر چلے گئے جہاں پانچ سال کی نااہلی کا عرصہ وہ گزار چکے۔ مگر بڑے وقار کے ساتھ انہوں نے عدلیہ کے فیصلے کو قبول کیا۔
مگر اب عدلیہ سے ٹکراﺅکیوں ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فیصلے شریف خاندان کے حق میں ہوں تو عدلیہ اچھی ورنہ بری، اسی عدلیہ نے پہلی جے آئی ٹی بنائی تھی تو ن لیگ نے لڈو بانٹے تھے، اسی عدلیہ نے حدیبیہ کیس کو کھولنے سے انکار کیا تو اس کی تعریف کی گئی مگر نااہلی کا فیصلہ قبول نہیں کیا گیا اور عوامی عدالتیں لگا کر اس فیصلے کو مسترد کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔
اسی ماحول میں عدلیہ نے حمزہ شہباز کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم جاری کیا، مجھے اس نوجوان کے گھر کا اتا پتہ معلوم نہیں، اس لئے میں نہیںکہہ سکتا کہ اس فیصلے پر عمل اسی روز کیا گیا یا اس میں چند روز لگائے گئے، فیصلوں پر عمل درآمد میں ٹال مٹول کرنا انتظامیہ کی سرشت میں داخل ہے مگر اس کے بعد اس سے بھی بڑا فیصلہ آیا کہ چیف منسٹر کے گھر کے باہر سے بھی رکاوٹیں ہٹائی جائیں اور یہ بھی حکم جاری ہوا کہ سارے شہر سے سڑکوں پر قائم رکاوٹیں ہٹائی جائیں۔ عدالت نے فیصلے پر عمل کے لئے کچھ مہلت دی تھی مگر میں نے اسی شام دیکھا کہ ماڈل ٹاﺅن سے شہباز شریف کے گھر اور دفتر کے باہر سے ہر قسم کی رکاوٹیں یوں غائب ہو گئیں جیسے ان کاکبھی وجود نہیں تھا، اب اس فیصلے کی وجہ سے میں شہر جانے آنے کے لئے اسی راستے کو استعما ل کرتا ہوں، جبکہ اس سے پہلے یہ راستہ بالکل پبلک کے لئے بند تھا اور صرف وہی گاڑیاں یہاں داخل ہو سکتی تھیں جن کے بارے میں پہرے داروں کو پیشگی اطلاع دی گئی ہو۔
عدلیہ کے اس فیصلے کو من وعن قبول کیا گیا، فوری طور پر عمل بھی کر دیا گیا، کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، کسی لیت ولعل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، کوئی بہانہ سازی نہیں کی گئی، کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔
اب لاہور شہر میں اگر کہیں رکاوٹیں ہیں تو یہ چند سکیورٹی اداروں کے اردگرد یا کینٹ کے علاقے میں کورہیڈکوارٹر کے آس پاس۔ ورنہ پنجاب کا دارالحکومت اس وقت پبلک کے لئے شاہراہ عام بنا دیا گیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ فوج بھی ازخود اپنی رکاوٹیں ہٹا دے گی۔ تاکہ یہ تاثر ختم ہو سکے کہ فوج کسی خوف یا ڈر میں مبتلا ہے۔ فوج تو ہر وقت خطرے میں ہوتی ہے مگر اس کا اظہار نہیں کرتی اور خاص طور پر جب فوج میدان جنگ میں کودتی ہے تو اس کے سپاہی کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پر دشمن کے مقابل ڈٹ جاتے ہیں۔ مورچے کھودنے کا مرحلہ تو بہت بعد میں آتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اکتہر کی جنگ میں فیروزپور سیکٹر میں اکتالیس بلوچ کے کمانڈر کرنل حبیب کو آفنسو کا حکم ملا تو انہوںنے اپنے جوانوں سے صرف ایک بات کی تھی کہ جو گولی تمہارے لئے نہیں بنی، وہ تمہیں نہیں لگے گی اور تاریخ نے دیکھا کہ اکتالیس بلوچ نے سرحدی لکیر پار کی، دشمن کے مائن فیلڈز کے اندر سے ایڈوانس کیا اور سامنے سے مشین گنوں کی گولیوں کی پھوار اور بوچھاڑ سے بے خوف ہو کر قیصر ہند پر قبضہ کرکے دشمن کو دریائے ستلج کے دوسرے کنارے تک پسپائی پر مجبور کر دیا۔
میں فوج کو کوئی لیکچر نہیں دینا چاہتا۔ اسے سکیورٹی کی تو ٹریننگ دی جاتی ہے مگر میں یہاں فاضل جج کے ریمارکس پر ضرور تبصرہ کروں گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ سکیورٹی عملہ خواہ مخواہ وزیراعلیٰ کو خوف زدہ رکھتا ہے اور انہیں عوام سے دور کر دیتا ہے حالانکہ صوبے کے حاکم کو تو عوام میں گھل مل کر رہنا چاہئے۔ مجھے کئی برس پہلے اپنے صحافی دوست رحمت علی رازی کی ایک بات یادا ٓتی ہے کہ خفیہ والے اس قدر وزیراعلیٰ کو خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ وہ اگر واش روم میں بھی جائے تو کوئی سکیورٹی والا ساتھ لے کر جائے۔ آپ اسے مذاق مت سمجھیں، خفیہ والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم اپنے دفتر کے کمرے سے باہر قدم تک نہ رکھیں تاکہ خفیہ والوں کو کوئی تردد نہ کرنا پڑے۔خفیہ والوں کی فنکاری کے چند لطیفے سن لیجئے، جنرل مشرف پر دو حملے ہوئے۔ دونوں حملوں میں پل کے نیچے بارود لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے رواج ہی پڑگیا کہ ہر پل کے نیچے بے چارے سکیورٹی والے شب وروز ڈیوٹی پر مامور کر دیئے گئے حالانکہ ابتدائی دو واقعات کے بعد کوئی سانحہ ا یسا نہیں ہوا جس میں کسی پل کو اڑایا گیا۔ ایک زمانے میں دہشت گرد بہت اناڑی تھے، اچھرہ بازار میں ایک سائیکل پر کچھ بارود باندھ کر دھماکہ کیا گیا تو اس کے بعد سے ہر سائیکل سوار کی شامت آ گئی اور اسے ہر ناکے پر روکا جاتا، سائیکل کو خوب ٹٹولا جاتا۔پھر موٹر سائیکلوں کو دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جانے لگا، یہ سلسلہ تو عام ہی ہو گیا اور اسی لیے بے چارے موٹر سائیکل سوار سب سے زیادہ چیکنگ کا نشانہ بنتے ہیں اور سب سے زیادہ چالان بھی بھرتے ہیں۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد عقبی دیوار کو پھلانگ کر اندر داخل ہوئے تو اس کے بعد سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی دیواریں بارہ فٹ بلند کرنے کا حکم جاری ہوا، ان پر خاردار تاریں بھی لگیں اور سکولوں، کالجوں کے دروازوں پر مورچہ بند سکیورٹی متعین کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری سکیورٹی نے جو کچھ سیکھا، وہ دہشت گردوں سے سیکھا، حملوںکا انداز بدلا تو بعد میںان کو روکنے کی حکمت عملی سوچی گئی، ورنہ سمجھیئے کہ ہماری پولیس اور دیگر خفیہ ادارے اپنے پیشے میں عقل سے پیدل ہی تھے۔ بس دہشت گرد ہی ان کے استاد ثابت ہوئے۔ لال مسجد کو خالی کرانے میں ایک تھانیدار کا دبکا ہی کافی تھا، وہاں ہمیں دنیا کے انتہائی پیشہ ور ایس ایس جی کمانڈوز استعمال کرنے پڑے ا ور ان میں سے ایک کرنل صاحب نے شہادت بھی قبول کی۔
میں اس تھیوری کو نہیں مانتا، نہ اس کو خواہ مخواہ ہوا دینا چاہتا ہوں کہ نواز اور شہباز میں کوئی اختلاف ہے مگر عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے اورا ن پر عمل کرنے میں شہباز نے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کی، نہ وہ اور انکے بیٹے حمزہ عوامی جلسے منعقد کرکے یہ دہائی مچانے لگے کہ ان کے گھروں کی رکاوٹیں کیوں ہٹائی گئیں۔ میں چیف منسٹر پنجاب کے انتہائی مثبت اور معقول رویئے کی ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مجھے معلوم نہیں کہ احد چیمہ کی گرفتاری پر اعلیٰ افسر شاہی کی ہڑتال کو خادم اعلیٰ نے کیسے ہضم کر لیا۔ انہیں اس رویئے کی کھلے عام مذمت کرنی چایئے تھی، تاکہ احتساب اور عدل کے عمل کے لئے انہوں نے جس احترام کا مظاہرہ کیا ہے، وہ آگے بھی جاری نظر آئے اور اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ چیف منسٹر کئی بار پیش کش کر چکے ہیں کہ ان کا بھی احتساب کیا جا سکتا ہے ا ور وہ ہر فیصلے کو قبول کریں گے، ظاہر ہے اگر ہم عدلیہ کے فیصلوں کو ہی قبول نہیں کریں گے تو ہمیں میرے شہر قصور کے درندے اور وحشی عمران علی کو بھی چند روزہ سماعت کے بعد سنائے جانے والے فیصلے کو عوامی عدالتوں میں چیلنج کرنے کا حق دینا ہو گا۔