خبرنامہ

شہدا کے خون کے صدقے پاک فوج کے خلاف بغض ختم کر دیں،،،اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاک فوج اپنا امیج بہتر کرنے کے لئے جتن کرتی رہتی ہے، آج چھ ستمبر کو یوم شہدا کے طور پر منانے کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاک فوج نے قوم سے اپیل کی ہے کہ اپنے گلی محلے میں کسی شہید کے گھر جائیں، گھر والوں کو پھول پیش کریں اور ہو سکے تو ان کے قدموں میں عقیدت کے چند آنسو نچھاورکریں۔
پاک فوج اپنی عزت بنانے اور بچانے لئے بہتیرے جتن کرتی ہے۔ ایک چھ ستمبر کیا۔ اس کا ہر لمحہ چھ ستمبر کی طرح قربانیوں سے عبارت ہے۔ مگر کیا مجال کہ قوم اس کی ذرہ بھر قدر کرے،جب میں یہ کہتا ہوں تو پوری ذمے داری سے کہتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آج وہ لوگ شہدا کے گھروں میں نہیں جائیں گے جو کسی بھی وجہ کے بغیر پاک فوج سے بیر رکھتے ہیں۔ اور اپنے بغض کے اظہار کے لئے کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ میں سوشل میڈیا کا ذکر نہیں کرتا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سینکڑوں حوالے دے سکتا ہوں کہ حالیہ الیکشن کے دوران پاک فوج کو کس طرح رگیدا گیا۔ ن لیگ نے اسے کھلم کھلا خلائی مخلوق کا طعنہ دیا۔ فوج کے ترجمان کے سامنے بیٹھے ہوئے ایک درجن صحافیوںنے ا س الزام کو دہرایا اور ان کی زبان پر بل نہیں پڑا۔ وہ ایسا طعنہ بھارتی فوج کو نہیں دے سکتے۔ افغانستان میں موجود نیٹو اور امریکی فوج کو نہیں دے سکتے کیونکہ ان سے ان کی روزی روٹی اور کئی طرح کے مفادات وابستہ ہیں پاک فوج یہ نخرے نہیں اٹھا سکتی ، صرف اپنا خون بہاتی ہے۔ اور دشمن کو پاک وطن کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیتی۔یہی پاک فوج کا قصور ہے کیونکہ عالمی طاقتیں پاک فوج کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس کے لئے وہ ایک خوشنما سبق پڑھاتی ہیں کہ پاک فوج کو سول حکومت کے تابع ہونا چاہئے، اس کے اندر بھی ترقی اور تبادلے احسن جمیل گجر کے حکم سے ہوں، اور کسی نصراللہ دریشک کے حکم پر علاقے کا کور کمانڈر یا پریگیڈیئر تبدیل کیا جا سکے۔
مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا۔جنرل مشرف کے خلاف عدلیہ تحریک چلی۔ جھگڑا ایک جنرل سے تھا، ایک حکمران سے تھا، تنقید کرنے والوںنے ساری فوج کونشانے پر رکھ لیا۔ کالموں پر کالم لکھے گئے کہ جب ایک فائٹر طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تو اغوا کرنے والا بنگالی ہوا باز مطیع الرحمن ہیرو تھا یا جہاز کو اغوا سے بچانے والا اور شہادت پانے والا راشد منہاس قوم کا ہیرو تھا، کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے کالم نویسوں نے قومی ہیرو کو بھی متنازع بنا دیا۔کیا نناوے میں ہم نے نہیں دیکھا کہ آرمی چیف غیر ملکی سفر پر تھاا ور اسے برطرف کر کے ایک نیا آرمی چیف مقرر کرنے کی کوشش کی گئی اور دانش ورں نے دلیل دی کہ حضرت عمر ؓ اگر اپنے آرمی چیف خالد بن ولید ؓ کو تبدیل کر سکتے ہیں تو نواز شریف کو ایسا اختیار کیوںنہیں۔ یہ بھی عجب بات ہے کہ ہر کام کے لئے ہمیں حضرت عمر یاد آ جاتے ہیں ، مگر ہم میں سے حضرت عمر ؓ کی خاک پا کے برابر بھی کوئی نہیں۔کیا قصور تھا جنرل گل حسن کا کہ اسے لاہور سے ایک کار میں بٹھا کر دو جیالوںنے قابو کر لیاا وراس اثناء میں بھٹو نے نیا ا ٓرمی چیف بنا لیا، یہی آرمی چیف ریٹائر ہو کر پیپلز پارٹی کا سیکرٹری جنرل بھی بنا اور پنجاب کا گورنر بھی اورا سی نے مشرقی پاکستان میں فوجی ا ٓپریشن کر کے ملک کو دو لخت کرنے کی بنیاد رکھی۔جنرل آصف نواز نے کیا گناہ کیا تھا کہ نواز شریف کیمپ نے اسے اس قد ر ذہنی دبائو کا شکار کیا کہ وہ ورزش کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔میںنے ان کی موت پر دو انسانوں کو زور دار قہقہے لگاتے ہوئے دیکھا۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ ہم فوج اور فوجی حکومت کے درمیان تمیز نہیں کرتے ، ایک ہی سانس میں دونوں کو گالی دیتے ہیں ۔ ضرب عضب شروع ہونے سے چند ماہ قبل فوج کو گالیوں کی قوالی کی گئی۔ کسی نے کہا کہ کتا شہید ہوتا ہے۔ آج جلال الدین حقانی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ۔ کون ہے جو ان کا غائبانہ جنازہ پڑھے گا۔ اس شخص نے سوویت روس کی افواج کے چھکے چھڑا دیئے اور امریکی فوج کو بھی لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر دیا، ہم صلا ح الدین ایوبی کا تذکرہ پڑھتے ہیں مگر ہم نے انہیں دیکھا نہیں، جلا ل الدین حقانی بھی صلاح الدین ایوبی،خالد بن ولید اور طارق بن زیاد کی ایک روشن مثال تھا۔ امریکہ ا سکے نام سے کانپتا ہے۔
اور پاک فوج نے تو جرات اور بہادری کے جھنڈے گاڑے۔ کہیں عزیز بھٹی کا لہو بہا،کہیں میجر طفیل نے شجاعت کے جوہر دکھائے اور کہیں سوار محمد حسین نے جوانی کے لشکارے مارے۔ اسکوڈرن لیڈر رفیقی نے جان پر کھیل کر پاک فضائوں کی حفاظت کی ، ایم ایم عالم، نذیر لطیف اور سیسل چودھری ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اے میرے میڈیا کے دوستو اور میری قوم کے سیاستدانو! جب فوج کو گالیاں دینے لگو تو ان دلیروں کو بھی ذہن میں رکھ لیا کرو۔ کیا کوئی اپنے ماں باپ کوبھی گالی دے سکتا ہے مگرسی آئی کے ایک سربراہ نے کہا کہ پاکستانی ڈالر کے عوض اپنی ماں تک کوبیچ دیتا ہے۔ یہ میمو گیٹ کیا تھا۔ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے اور کچھ غیرت بھی ہوتی ہے۔حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔
میں کیا کھٹی میٹھی باتیں چھیڑ بیٹھا ہوں۔ آیئے آج سلیمانکی کا رخ کرتے ہیں جہاں میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر نے دشمن کے چھکے چھڑائے۔ حسینی والہ کا رخ کرتے ہیں جہاں کرنل غلام حسین شہید ہلال جرات نے بہادری کا شاہنامہ اپنے خون سے لکھا۔ آگے کھیم کرن کا پڑائو ہے جہاں بریگیڈیئر شامی شہید نے دشمن کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کیا اور یہ لاہور کا ہڈیارہ کا نالہ ہے جہاں تین دن اور چار راتوں سے میجر شفقت بلوچ کی محدود سی نفری نے لاہور کے جم خانے میں جام فتح نوش کرنے کی خواہش کرنے والے بھارتی جرنیل کو نالے کا گندہ پانی بھی نہیں پینے دیا۔( یہ الفاظ میجر صاحب نے میری ایک فون کال پر منگلا سے کہے۔ میرے کانوں میں یہ سریلی آواز ہمیشہ گونجتی رہے گی) اور جنرل سرفراز خان کو مت بھولئے جو محافظ لاہور کے خطاب سے سرفراز ہوئے۔ اگر کبھی جاننا چاہو کہ باٹا پور کا پل اڑانے کے لئے کس نے دلیری کا مظاہرہ کیا تو الطاف حسن قریشی کی کتاب چھ ستمبر کی یادیں پڑھئے، رات کی تاریکی اور برستی گولیوں میں یہ آپریشن کرنا دل جگرے والوں کا کام تھا۔ اور چونڈہ کا وسیع میدان جہاں دونوں عالمی جنگوں سے بڑا ٹینکوں کا معرکہ ہوا، اس معرکے میں گوشت پوست کے انسان سینے پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے ۔ میںنے اپنی آنکھوں سے چونڈہ اور ظفر وال میں بھارتی ٹینکوں کا مرگھٹ دیکھا تھا۔ تو پخانے کے بریگیڈیئرا مجد علی چودھری نے مجھے وہ شعلہ بار کہانی سنائی اور اپنی خود نوشت بھی تحفہ کی جب پاکستانی توپ خانہ بھارتی ٹینکوں سے لڑ بھڑ گیا تھا۔ دنیا میںایسامقابلہ آج تک نہیں ہوا اور آزاد کشمیر کی سیز فائر لائن کو پار کرنے والے جری دلیر جوانوں اور افسروں کی لازوال کہانیاں بھی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ کارگل کے ہیروز لالک جان اور کرنل شیر خاں کو کون بھولے گا۔یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوںنے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا۔ یہ الفاظ میرے نہیں مدیر ماہنامہ حکائت جناب عنائت اللہ کے ہیں جنہوںنے وطن کے شہدا کے لازوال تذکرے لکھے۔ قوم ان کو بھول گئی۔ صفدر میر کو بھی بھول گئی جس نے لاہور کی مال روڈ پر ادیبوں اور شاعروں کے ایک جلوس کے آگے آگے چلتے ہوئے اپنا رزم نامہ پڑھا : چلو واہگہ کی سرحد پر ۔ وطن پہ وقت آیا ہے ، وطن پہ کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے۔ قوم آج لاہو ریڈیو کے نظام دین اور تڑاخ تڑاخ خبریں پڑھنے والے شکیل احمد کو بھول گئی جو ہر شام قوم کو بتاتا تھا کہ آج ہمارے شاہینوںنے نیچی نیچی پرواز کرتے ہوئے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے۔
اور یہی وہ لمحات تھے جب میںنے اپنی پہلی نظم لکھی تھی: مرحبا میرے مجاہد اے مرے زندہ شہید۔ میری ساری زندگی ان مجاہدوں اور شہیدوں کے تذکرے پر قربان۔
کیا آپ اپنے دل کا بغض ان شہیدوں کے لہو کے واسطے دور کر سکتے ہیں۔ پینسٹھ میں فوجی گاڑی پاس سے گزرتی تھی تو بوڑھی مائیں بھی اسے روک لیتی تھیں اور دودھ کا گلا س پلائے بغیر آگے نہیں جانے دیتی تھیں، آج آپ بھی کسی چھائونی کا رخ کریں اور فوجی گاڑیوں میں سوار قوم کے ہیروز کو دودھ نہ سہی، کسی ٹھنڈے مشروب کاایک گلا س ہی پیش کریں،تو کیا مزہ آ جائے۔
مجھے آج صرف ایک خبر کا انتظار رہے گا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ملک کے ہونے والے صدر عارف علوی کس شہید کے گھر جاتے ہیں اور کس ماں یا کس بیوہ یا کس یتیم کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہیں۔