خبرنامہ

صبر، حوصلے اور برداشت کی ضرورت…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

صبر، حوصلے اور برداشت کی ضرورت
10 مئی 2018

میںکوشش کروں گا کہ یہ کالم محض وعظ نہ بن جائے جو لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اترتا اور جسے وہ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کا ماحول ایک جہنم کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ زبانیں شعلے اگل رہی ہیں، سر عام مغلظات بکی جا رہی ہیں، جلائو گھیرائو کی باتیں عام ہو رہی ہیں۔گھسیٹ دیں گے، جیلوں میں ڈال دیں گے کے اعلانات گلا پھاڑ کر کئے جا رہے ہیں، محاورہ تو یہ ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں مگر ہم نے سترا ور اکہتر میں دیکھا کہ گرجنے والے برسے بھی اور طوفان نوح بن کر قائد اعظم کے آدھے پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر گئے۔بھٹو نے کہا جو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا، ایک احمد رضا قصوری نے ا س فرمان سے سرتابی کی، اس پر گولی چلائی گئی اورا س کے والد شہید ہو گئے۔بھٹونے یہ بھی کہا کہ اقتدار میں آتے ہی زیڈ اے سلہری کو فکس اپ کر دوں گا، چنانچہ سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے پہلے حکم کے تحت سلہری صاحب کو پاکستان ٹائمز سے فارغ کر دیا گیا ، یہ تھی ایک جھلک پیپلز پارٹی کی آزادی صحافت اورا ٓزادی ا ظہار کے احترام کی۔ ساتھ ہی اردو ڈائجسٹ کے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، الطاف حسن قریشی اور مجیب شامی کو ایک فوجی عدالت کے سمری ٹرائل کے بعد دو دو کروڑ جرمانے اور عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔حسین نقی کو بھی حوالہ زندان کر دیا گیا ، سو یہ محاورہ غلط ثابت ہوا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں، بھٹو صاحب گرجے بھی بہت اور برسے بھی بہت۔
یہ پرانی باتیں ہیں ، تاریخ کا حصہ ہیں، محض طعنے نہیں۔ اب بھی پیپلز پارٹی گرجنے سے باز نہیں آئی، زرداری صاحب نے جنرل راحیل شریف کو للکارا کہ تم تین سال کے لئے آتے ہو۔ ہم سیاست دان ہمیشہ رہتے ہیں، انہی زرداری صاحب نے کہا کہ سینیٹ کی اعلیٰ ترین کرسی نواز شریف کو نہیں لینے دوں گا، انہوںنے اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا۔ درمیان میں ایک معجزہ اور بھی کیا کہ ن لیگ کی بلوچستان کی حکومت تڑوا دی اورا س کارنامے کا فخریہ اظہار کیا،اب کہتے ہیں کہ پنجاب پر بھی قبضہ کر لوں گا۔عوام کے ووٹ انہیں مل جائیں تو ضرور قبضہ کر لیں مگر یہ انہونی باتیں ہیں، ڈرائونے خواب ہیں،سیاسی ماحول کو صرف پراگندہ کیا جا رہا ہے۔
چلئے سیاست ا ور محبت میں سب کچھ روا سمجھا جاتا ہے،۔ مگر یہ جو احسن ا قبال پر پہلے جوتا پھینکا گیا، پھر نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا اور اب احسن اقبال پر فائر داغ دیا گیا تو یہ کس سیاست اور محبت میں جائز ہے، یہ تو جنون ہے، پاگل پن ہے کسی مجنوں نے یاکسی فرہاد نے ایسا نہیں کیا، ہاں میکاولی نے یہ سبق پڑھایا۔ اور ہم نے اسے حدیث کا درجہ دے دیا اور اپنا شعار بنا لیا۔
ملک میں الیکشن ہونے والے ہیں، سب کی خواہش ہے کہ اقتدار کا فیصلہ بیلٹ سے ہو ، بلٹ سے نہ ہو تو پھر ذرا حوصلہ بھی دکھایئے، برداشت کا مظاہرہ بھی کیجئے،صبر سے بھی کام لیجیے، ایسی آگ پر تیل نہ چھڑکیں جو آپ کے لئے چتا بن جائے۔
ہمارے سیاستدان پڑھے لکھے ہیں، برسوں کی سیاست اور حکومت کے تجربے سے لیس ہیں۔ وہ اپنا اور ملک کا برا بھلا جانتے ہیں۔ایک زمانے میں عدلیہ تحریک چل رہی تھی ، اس میں جج صاحبان بھی شریک تھے اور قانون کی پریکٹس کرنے والے جید وکلا صاحبان بھی مگر ا س قدر تعلیم یافتہ اور پروفیشنل حضرات بھی حوصلہ نہ دکھا سکے۔ دوسروں کی رائے کا احترام نہ کر سکے، تنقید کو برداشت نہ کر سکے اور احمد رضا قصوری کا منہ کا لا کر دیا گیا۔قانون اور آئین کی گتھیاں سلجھانے و الے الجھ کر رہ جائیں تو پھر عام پاکستانی کے ردعمل کو کون کنٹرول کر سکتا ہے۔دن رات ٹی وی چینلز پر نفرت، نفرت اور نفرت کے سوا اور کوئی سبق نہیں ملتا۔ اس سے بچوں تک کے ذہنوںمیں بھی زہر بھرا جا رہا ہے۔ اسلام کی علم بردار پاکستانی قوم کی لیڈر شپ سے ا س رویئے کی توقع تو نہ تھی مگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں، اور پتہ نہیں کب تک بھگتتے رہیں گے۔
کراچی میں ایک جلسے کی جگہ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لیڈر اور ان کے کارکن ایک دوسرے پر پل پڑے، جو ہاتھ میں آیا چلا دیا، فائرنگ تک کی نوبت آئی، شکر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر پسپائی اختیار کر لی ا ور کراچی کسی بڑے تصادم سے بچ گیا، ہماری سیاسی لیڈرشپ کو آنے والے دنوںمیں اسی فراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ الیکشن کی کشتی ساحل مراد سے ہمکنار ہو سکے اور عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں۔ آزدانہ، منصفانہ اور پر امن ماحول میں کر سکیں۔
الیکشن کے دنوںمیں عمومی طور پر عام آدمی کے جذبات کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ایسے ماحول میں ذرا سی چنگاری خرمن امن کو راکھ بنا سکتی ہے۔اس خطرے کا سد باب کرنا ہر سیاسی لیڈر کا فرض ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ تما م سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے خود رابطہ کریں اور کہیں مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق طے کر لیں تاکہ ماحول کو ٹھنڈا رکھا جا سکے ا ور ایسا میکزنزم بھی وضع کر لیا جائے کہ کسی غلط فہمی کی صورت میں کشیدگی کو ہوا نہ ملے اور مسئلہ بات چیت سے حل کر لیا جائے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے منشورکے پیش نظر ووٹروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانی چاہئے، دا دا گیری کر کے ووٹروں کوڈرا دھمکا کر اور ہراساں کر کے ووٹ لینے کی کوشش نہ کی جائے ۔ اس روش سے کسی فریق کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔یہ وقت بلیم گیم کا بھی نہیں ،دوسرے کے دامن پر چھینٹے اڑانے سے خود اپنا منہ کا لا ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ حمام میں سبھی ننگے ہوتے ہیں۔
پاکستان کے قیام کو اکہتر برس بیت گئے، ہم نے غلطیوں پر غلطیاں کیں مارشل لا بھی بھگتے اور سیاسی طوائف الملوکی کا بازار بھی گرم کیا۔ اب ہمیں بلوغت اور دانش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور پاکستان کو مہذب اور متمدن قوموں کی ص