خبرنامہ

صحت عامہ میں بہتری کے لئے ایک تھنک ٹینک کی سفارشات…..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈاکٹر محمود شوکت ایک معروف اور قابل فخر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کالموں کے قارئین جانتے ہیں کہ وہ ملک برکت علی کے پوتے ہیں جو انیس سوتیس کی پنجاب اسمبلی میںمسلم لیگ کے واحد ممبر تھے اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے انہوںنے پنجاب میں مسلم لیگ کو منظم کیاا ور پاکستان کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔
ضرور پڑھیں: راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے یوم عاشور کیلئے صفائی پلان پر عملدرآمد شروع کر دیا

مگر ڈاکٹر محمود شوکت اپنی ذات میں ایک ممتاز شخصیت ہیں ، ایک بلند پایہ ڈاکٹر اور نوزائیدہ بچوں کی سرجری کے خصوصی ماہر۔ وہ میو ہسپتال، جناح ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال کے ایم ایس رہے اور حال ہی میں ہیلتھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ خلق خدا کی بھلائی ان کا مقصد حیات ہے اور شوکت خانم کے لئے عطیات جمع کرنے میں وہ سر فہرست ہیں۔اب بھی وہ ایک ایسی انجمن چلا رہے ہیں جو اعلی تعلیم کے لئے طلبہ کو میرٹ پر وظائف سے نوازتی ہے۔

انہوں نے کچھ دانشوروں اور ماہرین کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی کہ اس وقت ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جو تبدیلی کی خواہاں ہے اور اگر اسے صحیح مشورہ دیا جائے تو تبدیلی کا عمل تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے ۔اورا سکی سمت بھی صحیح رہ سکتی ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوںنے حال ہی میں پالیسی ریسرچ کونسل ( پی آر سی ) کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کیا ہے۔ وہ اس کے چیئر مین ہیں اور ڈاکٹر نعمان ظفر ڈائریکٹر جنرل کے طور پر ابتدائی پلاننگ میں مصروف ہیں۔ یہ تھنک ٹینک قومی مسائل پر خوب سوچ بچار کے بعد قابل عمل سفارشات پیش کرے گا اور حکومت اس سے مستفیدہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو کسی مخصوص شعبے میں ریسرچ درکار ہو تو پی آرسی کی اسپیشلٹ ٹیم مشاورت سے زیادہ وقت ضائع کئے بغیر سفارشات حکومت کے سامنے رکھ سکتی ہے۔

ابتدائی طور پر انہوںنے اپنے شعبے میں جامع سفارشات مرتب کی ہیں اور کچھ مشاہدات ا ور تجربات بھی بیان کئے ہیں جن سے حکومت استفادہ کر سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہسپتالوں پر پابندی عائد ہے کہ وہ سب سے کم قیمت پر دوائی خریدیں جس کی وجہ سے انتہائی گھٹیا دوائیں ہسپتالوں کے اسٹور تک پہنچ جاتی ہیں،یہ شرط فوری طور پر ختم کی جانی چاہئے تاکہ دوائی اعلیٰ معیار کی خریدی جا سکے۔ دوسری شرط ہسپتالوں پر یہ عاید کی گئی ہے کہ وہ اپنے سٹور سے ا س وقت تک دوائی نکال کر مریضوں کو نہیں دے سکتے جب تک اسے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری سے کلیئر نہ کروا لیا جائے اور یہ عمل کئی مہینوں پر محیط ہو جاتا ہے اورا س انتظار میں نہ مریضوں کودوائی دی جا سکتی ہے بلکہ کئی دوائیں ایکسپائر بھی ہو جاتی ہیں جس کی و جہ سے لاکھوں کے اخراجات ضائع چلے جاتے ہیں۔ اس دقت کو دور کرنے کے لئے مارکیٹ میںموجود تمام ادویہ کو ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری پہلے ہی کلیئر کر دے تاکہ اس کی خریداری کے بعد اسے فوری طور پر استعمال میں لایا جا سکے۔ ایک ضروری اقدایہ کیا جائے کہ نزلہ ، زکام، کھانسی،بخار،بلڈ پریشر، شوگر، گائنی اور بچوں کے حفاظتی ٹیکوں وغیرہ کے لئے میگا ہسپتالوں کا رخ نہ کیاجائے ، ان کے لئے گلی محلوں کی سطح پر جنرل پریکٹیشنرز کا جال پھیلایا جائے۔ اس طرح بڑے ہسپتالوں کا رش ختم کیا جا سکتا ہے۔ اور وہاںزیاد ہ پیچیدہ امراض میں مبتلا لوگوں پر توجہ د ی جا سکتی ہے۔پہلے سے موجود ہسپتالوںمیں نئے ٹاور کھڑے کرنے یا نئی منزلوں کی تعمیر کا رواج ختم کیا جائے۔ لاہور میں میوہسپتال، جنرل ہسپتال اور جناح ہسپتال اپنی اوقات سے بڑھ کر ہی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس اصول کو اپنایا جائے کہ شہرا ور قصبے پھیل رہے ہیں ۔ اس کے پیش نظر میگا ہسپتال شہروں سے باہر کھلے علاقوں میں یا دور دراز کے علاقوں میں قائم کئے جائیں۔ اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں بجلی چو بیس گھنٹے رہے گی، ورنہ جنریٹر نصب کیا جائے۔ جدید ترین مشینری بھی وہاں فراہم کی جائے۔ ان ہسپتالوں میں بہترین عملہ متعین کیا جائے۔ا نہیں رہائش کی سہولتیں دی جائیں۔ اگر دور دراز علاقوں میں تھانیدار،پٹواری، تحصیل دار، ڈی پی او، ڈی سی او وغیرہ کام کر سکتے ہیں تو ڈاکٹروں کو بھی کوئی نخرہ نہیںکرنا چاہئے، ہاں ان کے بچوںکو اچھی تعلیم ضرور چاہئے۔اس لئے ایسے سکول قائم کئے جائیں جہاں اچھی تعلیم مل سکے۔ اسی کیساتھ ساتھ دور دراز کے مقامات سے مریضوں کو لانے کے لئے ایمبولینسوں کے نظام کو بھی تو سیع دی جائے، یہ 1122 کی گاڑیاں بھی ہو سکتی ہیں یا نجی ایمبولنسوں کو کام کرنے کی ا جازت دی جائے۔ بلکہ جب نئے ہسپتال بنیں گے تو ایمبولنسیں بھی خود بخود وہاںپہنچ جائیں گی۔ ہر ہسپتال میں سہہ پہر اور رات کے اوقات میں ماہرین کی ایک ٹیم آن کال موجود رہنی چاہئے۔جیسا کہ یورپ اور امریکہ میں یہ نظام کامیابی سے کام کر رہا ہے۔

ڈاکٹرمحمود شوکت نے کہا کہ وہ وقت کے ساتھ مزید اصلاحات بھی تجویز کرتے رہیں گے۔ سر دست انہوں نے ذاتی تجربات کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ جو چیف منسٹرز صاحبان کو عادت ہے کہ وہ ہسپتالوں پر اچانک چھاپے مارتے ہیں تو ان کے بجائے سیکرٹری ہیلتھ کو یہ چھاپہ مارنا چاہئے کیونکہ وہ مسائل کو صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے۔ ڈاکٹرصاحب بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ چلڈرن ہسپتال میں تھے جو چیف منسٹر کے گھر کے سامنے ہے اوراس پر دن رات چھاپہ مارنا آسان کام ہے تو وہ وہاں آئے اور میری لگے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کہ باہر ایک عورت شور مچا رہی ہے کہ ا سکے بچے کو داخل نہیں کیا جا رہا۔ میںنے بتایا کہ ہسپتال میں سارے بیڈ بھرے ہوئے ہیں اور یہاںمزید مریض کے داخلے کی گنجائش نہیں۔ چیف منسٹر نے حکم دیا کہ ایک بستر پر دو بچے لٹا دو، میں نے کہا یہ کام میں آپ کے حکم سے تو کر سکتا ہوں مگر میری پروفیشنل تربیت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ بعد میں ایک بار وہ میو ہسپتال آئے ۔ وہاں ایک بچی داخل تھی جس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ میں نے بڑی محنت سے ا سکی سرجری کی اور جب اس کی طبیعت سنبھل گئی تو میں نے ا سے ا ٓئی سی یو سے کمرے میں منتقل کر دیا مگر اس کا کوئی عزیز اخبار والا تھا جس نے خبر چلا دی کہ نازک کیس والی بچی کو توجہ نہیں دی جا رہی۔ چیف منسٹر سیدھے ا س بچی کے کمرے میں گئے ا ورا سکے سرہانے بیٹھی والدہ سے پوچھا کہ کیا شکائت پیدا ہوئی۔ والدہ نے کہا کہ ڈاکٹر تو رحمت کا فرشتہ ہے۔اس نے رات بھر بچی کا آپریشن کیا اور پھر اسے کمرے میں بھجوا دیا ، مجھے کوئی شکائت نہیں، چیف منسٹر اپنا سامنہ لے کر وہاں سے عام وارڈمیں چلے گئے اور پھر مجھ پر برس پڑے کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ ایک بستر پر دو دو مریض لٹا رکھے ہیں ۔ اب چیف منسٹر بھی وہی تھا ، میں بھی وہی تھا جسے وہ چلڈرن ہسپتال میں حکم دے چکے تھے کہ ایک بستر پر دو دو مریضوں کولٹائو اور ان کا علاج کرو۔ چیف منسٹر نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ شہر میں مزید بڑے ہسپتال بنائے جائیں تاکہ ایک بستر پر دو دو مریض نہ لٹانے پڑیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایسے واقعات صرف میرے ساتھ ہی نہیں ،ہر ایم ایس کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بسا اوقات چیف منسٹر سیدھے وا ش رومز کی طرف جاتے تھے اور صفائی کے فقدان کے باعث ایم ایس کو معطل کر دیتے تھے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ ڈاکٹر کا کام علاج معالجہ ہے یا جھاڑ وپھیرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے موجودہ نشست میں یہ آخری تجویز دی ہے کہ نئی حکومت کو یہ تماشہ نہیں لگانا چاہئے اور ایک تو نئے ہسپتالوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور دوسرے ڈاکٹر سے ڈاکٹر کا کام لیا جائے ، اسے واسا کاملازم نہ سمجھ لیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب سے بات چیت جاری رہے گی اور ان کے تجربات کی روشنی میں حکومت کو نت نئی تجاویز پیش کی جاتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب کی ہیلتھ منسٹر تجربہ کار ہیں مگر پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے بارے میں ان کی پالیسی درست نہیں، اس پر بحث آیندہ کے کالم میں۔ انشا اللہ۔