خبرنامہ

ضیا شاہد کی سوچ میں مرشد نظامی کا عکس.. اسد اللہ غالب….انداز جہاں

ضیا شاہد کی سوچ میں مرشد نظامی کا عکس.. اسد اللہ غالب….انداز جہاں
پہلے تو یہ مقولہ تھا ۔ پھر محاورہ بنا اور اب روز مرہ کی بات ہے کہ کسی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لئے اسے پڑھنا ضروری نہیں۔ یہ اصول مجھے فون کر کے ضیا شاہد نے یاد دلایا ہے، وہ مجھ سے سخت ناراض تھے۔ میںنے عذر کیا کہ ابھی آپ کی کتاب پڑھ نہیں سکا اور نہ مستقبل قریب میں اسے پڑھنے کے قابل ہوں گا کیونکہ آنکھوں کا علاج کروا رہا ہوں اور اللہ شفا عطا فرمائے تو پھر ضرور پڑھوں گا۔
کتابوں پر ایک اور مقولہ ہے کہ بعض کتابیں پڑھنے کے لئے ہوتی ہیں، بعض چکھنے کے لئے اور بعض ردی میں بیچنے کے لئے ، ضیا شاہد کی کتاب بہر حال اپنے موضوع کے اعتبار سے ہر پاکستانی کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔ کئی احباب ان کے اخبار کی ا قساط کی صورت میں پہلے ہی پڑھ چکے ہوں گے۔
کتاب کی نوعیت نظریاتی ہے، اورا س سے مجھے اپنے مرشد مجید نظامی بے طرح یاد آئے، ضیا شاہد نے بھی ایک تقریب میں انہیں اپنا صحافتی استاد اور نظریاتی رہنما تسلیم کیا ہے۔
جانے والے چلے جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے کہکشاؤں کے وسیع جہان چھوڑ جاتے ہیں۔ مرشد نظامی کا خلا ہے کہ پر ہو نہیں سکتا۔میں محترم مجید نظامی کو مرشد نظامی لکھتا ہوں تو بہت سوں کے پیٹ میں مرروڑ اٹھتا ہے۔ میںنے تو پندرہ برس قبل ان کے بارے میں لکھا جس کا عنوان تھا : صحافت کے مجدد الف ثانی، میں ان دنوں ان کے پاس کام نہیں کرتا تھا اور نہ میری صحت اجازت دیتی تھی کہ ان سے نوکری کی درخواست کروں۔ بس کوئی خواہش تھی تو یہ کہ ان کے کارناموں کوزندہ رکھوں ،سو وہ میرے نزدیک محض مرشد صحافت نہیں ، صحافت کے مجدد الف ثانی بھی ہیں۔
یہ باتیں مجھے ضیا شاہد کی کتاب دیکھ کر یاد آئی ہیں جس کا عنوان ہے پاکستان کے خلاف سازش۔اس میں ان لیڈروں کے کردار اور چہرے سے نقاب اٹھایا گیا ہے جنہوںنے پاکستان کی مخالفت کی اور بھارت کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اس کتاب پر میں نے گزشتہ ہفتے کے روز نوائے وقت میں دو اکٹھے کالم چھپے دیکھے، تیسرا کالم بھی چھپا جس سے اس کی بھر پور مقبولیت کا احساس ہوتا تھا، مجھے احساس ہواکہ میں پیچھے رہ گیا، ایک کالم سے پتہ چلا کہ اس کتاب کے سلسلے میں ایک تقریب بھی برپا ہوئی ہے، ظاہر ہے اسے شاہد رشید نے برپا کیا تھا اور وہ بھی نظریہ پاکستان کے دفتر میں،۔
میں کتابیں پڑھنے یا محافل میں شرکت سے قاصر ہوں، اس لئے کتاب پر کالم لکھنے میں سبقت حاصل نہ کر سکا، اجمل نیازی کی دوڑ تو میرے ساتھ کالج کے زمانے سے لگی ہوئی ہے مگر میں نے ان کے لئے ادب کا میدان خالی کر دیا تاکہ وہ اس میں اپنی جولانیاں دکھائیں اور ریکارڈ کی بات ہے کہ انہوںنے شاعری اور پھر کالم نویسی میں ایک انوکھااسلوب اپنایا۔ انہیں مرشد نظامی کی رہنمائی میسرا ٓئی تو وہ نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لئے ننگی تلوار بن گئے۔
ضیا شاہد بھی نوائے وقت میں رہے، مجھ سے چند ماہ قبل وہ اس کے میگزین ایڈٖیٹر تھے ، پھر وہ کراچی آفس میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنا دیئے گئے۔ ان دو چار برسوں میں انہوںنے مرشد نظامی کے مکتب علم و فکر سے فیض حاصل کیا، پاکستان سے محبت، پاکستان کے دشمنوں سے نفرت، تحریک پاکستان ا ور بانیان پاکستان کے لئے دل میں عزت واحترام۔ افواج پاکستان کی قربانیوں کے مداح،پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محافظ۔ اور جمہوری نظام کے لئے تڑپ۔ یہ خوبیاں انہیں مرشد نظامی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے نتیجے میں ملیں۔
مرشد نظامی سے فیض یاب ہونے والوں کے سامنے ایک مشن ہے، یہ مشن انہیں نوائے وقت کی تربیت سے ملا ہے۔ ہر کوئی نوائے وقتیا نہیں ہوتا، نوائے وقتیا ہونا ایک اصطلاح ہے جسے ہم لوگ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں، اور ایک اعلی اعزاز سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ نوائے وقت اور مرشد نظامی کے قریب رہے مگر نظامی صاحب کی فکر سے اس قدر دور ہو گئے اور دنیا داری میں اس قدر الجھ گئے کہ مرشد نظامی انہیں علی الاعلان بھارت کے شردھالو کہتے تھے۔ان لوگوں کا دل پاکستان کے ساتھ ہے اور پیٹ بھارت کے ساتھ، وہ رہتے پاکستان میں ہیں اور گن بھارت کے گاتے ہیں۔نظامی صاحب کے دل میں ان لوگوں کے لئے کوئی عزت نہ تھی۔
وہ کیا چیز ہے جس نے مرشد نظامی کو دوسرے صحافیوں سے ممتاز اور منفرد بنایا۔ پہلی صفت تو یہ تھی کہ وہ دنیا دار ہر گز نہ تھے، وہ صحافتی اقدار کے لئے اشتھاروں کو قربان کر دیتے تھے۔ حکومت ان کے اشتھار بند کر تی تو واویلا ہر گز نہ مچاتے ۔ نہ کسی کے سامنے جھولی پھیلاتے،نہ در در درخواستیں لے کر پھرتے۔وہ صحافت کو مقدم جانتے تھے اور تجارت کو فوقیت نہیں دیتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے صحافتی مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔ان کے تعلقات حکمرانوں سے ضرور تھے اور بے حد قربت کے تھے مگر جہاں اصول کا مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ تعلقات کو خاطر میںنہ لاتے۔ ایٹمی دھماکے میں انہیں تاخیر کا تاثر ملا تو انہوںنے برملا دھماکے کے حق میںمطالبہ کیا، کسی نے بھارت کے ساتھ سرحدی لکیر کو بے معنی کہا تو مجید نظامی نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا، بھارت کوموسٹ فیورڈ نیشن کا رتبہ دینے کی بھی ا نہوںنے مخالفت کی اور وہ اپنی بات منوا کر رہے۔علیحدگی پسندوں کے سخت خلاف رہے۔ دہشت گردی کے کٹڑ مخالف ،اس قدر دشمن کہ انہوںنے امریکہ سے کہا کہ اگر وہ انہیں دہشت گرد سمجھتا ہے تو بے شک اٹھا کر گوانتا نامو لے جائے، کشمیر کے لئے ان کی جان بھی حاضر تھی، انہوںنے حریت پسندوں کی کھل کر مالی، اخلاقی مدد کی اور یہاں تک پیش کش کی کہ انہیں ایک میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں میں بھارتی چھائونی پر داغ دیا جائے، جابر حکمران کے سامنے وہی کہہ سکتے تھے کہ ان کے دماغ میں جمہوریت کا کیڑا ہے۔
معافی چاہتا ہوں کہ مرشد نظامی کا قصہ طویل ہو گیا مگرا سکے بغیر آپ کو سمجھ نہیں آ سکتی تھی کہ ضیا شاہد نے یہ جو کتاب لکھی،ا س کا چشمہ کہاں سے پھوٹا ہے۔باچا خان ، ولی خان ا ورا سفند یارولی کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں تھے، اسی طرح جی ایم سید بھی پٹری سے ا ترے اور پاکستان کی کھلی مخالفت شروع کر دی تو مجھے یاد ہے کہ ہم نے نوائے وقت کے اداریوںمیں لکھا کہ موت کا فرشتہ اس پیر فرتوت کی زندگی کی فائل کیوں بھول گیا ہے۔باچاں خان کو نوائے وقت نے ہمیشہ سرحدی گاندھی لکھا، ان کی وفات پر انہیں افغانستان میں لے جا کر دفنا یا گیا تو نوائے وقت نے اس پر بھر پور تنقید کی، ولی خان نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی تو اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا، عبد الصمد اچکزئی اور الطاف حسین کو بھی نوائے وقت نے کبھی معاف نہیں کیا۔ ضیا شاہد نے ان تمام شخصیات کے بد نظریات کو اپنی کتاب میں تفصیل سے پیش کیا ہے ا ور ان کا مدلل جواب بھی شامل کیا ہے،ا س سے پہلے ضیا شاہد ولی خان جواب دو کے نام سے ایک کتاب لکھ چکے ہیں، اب بڑھاپے ا ور بیماری میں نئی کتاب کی تدوین اورا شاعت کٹھن کام تھا، مگر مجید نظامی کے معنوی پیرو کار اس مشقت سے جان نہیں چراتے ۔ضیا شاہد نے اپنی طرف سے اپنے تجربے کانچوڑ پیش کیا ہے جسے اس کتاب کے قارئین سراہے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔