خبرنامہ

ضیا شاہد کی قوس قزح…………..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ضیا شاہد کی قوس قزح…………..اسداللہ غالب

یہ عملی صحافت کے ایک استاد کی تقریب تھی مگر وہ خود کو امام صحافت مجید نظامی کے شاگرد کے طور پر پیش کر رہے تھے۔
گورنر رفیق رجوانہ نے کہا کہ ضیا شاہد صحافت یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔یہ تقریب گورنر ہاﺅس میں ہوئی، یہ ایک اچھا شگون ہے کہ اب کتابوں کی تقاریب رونمائی گورنر ہاﺅس میںمنعقد ہونے لگی ہیں، اس سے قبل مجھے یاد پڑتا ہے کہ اخوت کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب نے یہاں ڈیرہ سجایا تھا، گورنر ہاﺅس میں کسی کتاب کی افتتاحی تقریب کے تین فائدے ہیں۔ ایک تو حاضری بڑھ جاتی ہے، دوسرے خرچہ جیب سے نہیں کرنا پڑتا، تیسرے گورنر ہاﺅس کی سج دھج میں اضافہ ہو جاتا ہے، ایک وہ گورنرہاﺅس جو مصطفی کھر کا تھا اور دوسرا وہ جو رفیق رجوانہ کا ہے، فرق ہے زمین اورا ٓسمان کا۔بلکہ کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا، رفیق رجوانہ لکھنے والوں کی عزت افزائی کرتے ہیں تو اس سے خود ان کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ادب و صحافت کا چرچا اونچے ایوانوںمیں ہونے لگے تو یہ ہم لوگوں کے لئے بھی بلند بختی کی علامت ہے ۔
ضیا شاہد ان دنوں دھرا دھڑ کتابیں چھاپ رہے ہیں،وہ روز بھی ایک کتاب چھاپ سکتے ہیں ، کیونکہ روز ایک تازہ اخبار تو چھاپتے ہیں، سارا دن پریس فارغ رہتا ہے تو کتابیں چھاپتا رہے مگر کتاب چھاپنے سے پہلے کتاب لکھنا ضروری ہے، تقریب میں ایک صحافی نے کہا کہ اب ان کو بھی لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ وہ بھی کچھ لکھنا شروع کریں۔ اگر وہ اس انگیخت میں آ گئے تو ُبھی انہوںنے پچھلے پچاس برس میں جو لکھا ہے، اسے جمع کر لیں تو ڈھنگ کی ایک کتاب نہیں بنتی، کتاب کے لئے مغز ماری کی ضرورت ہے، الہام کی ضرورت ہے، اور ٹک کر بیٹھنے کی ضرورت ہے، یہ صاحب لکھنے پہ آئیں تو شاہنامے تخلیق کر سکتے ہیں مگر یہ تو تب ہو گا جب وہ لکھنے تو بیٹھیں ، ایسی فرصت ان کے پاس نہیں کہ صحافت کے علاوہ بھی ان کے مشاغل بہت سارے ہیں۔ اور اب تو سیاست کو انہوں نے اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے اور مارچ کے انتظار میں ہیں۔ ضیا شاہد کی نئی کتاب آئی ہے، نام ہے قلم چہرے۔ تو یہ کچھ بزرگوں کے خاکے ہوئے، بدقسمتی سے میں نے یہ کتا ب دیکھی تک نہیں ، اس لئے کتاب پر تبصرہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ پطرس بخاری تو کہتا تھا کہ کتاب پر تبصرے کے لئے اسے پڑھنا ضروری نہیں، صرف ا س کی دو جلدیںمنگوانے کی ضرورت ہے۔ یہ نوٹ ہر اخبار میں کتابوں پر تبصروںکے کالم پر ضرور لکھا ہوتا ہے اور اس میں جو تبصرے ہوتے ہیں وہ پطرس بخاری کے معیار کے ہی ہوتے ہیں۔
مگر یارو! گورنر ہاﺅس کی تقریب میں کوئی پچاس سے زائد اہل صحافت جمع تھے اور ان میں قدر مشترک یہ تھی کہ سب کے سب ضیا شاہد کے شاگردان رشید مگر ضیا شاہد انہیں کولیگ اور رفیق کار کہتے ہیں،فی زمانہ اچھے شاگردوں کی دستیابی ممکن نہیں۔ شاگرد اپنے ا ستادسے اوپر نکل کر استاد کو آ نکھیں دکھانے لگ جاتے ہیں مگر اس تقریب میں سب وفادار، ہونہار، تابع دار اور مخلص شاگرد جمع تھے، ضیا شاہد پہلے اور آخری خوش نصیب ہیں جن کو اتنے شاگرد ملے اور وہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد بھی کرتے ہیں۔یہ ضیا شاہد کے شاگردوںکی قوس قزح تھی ، اس قوس قزح کے اتنے رنگ کہ آنکھیں چندھیا کر رہ جائیں، اتنے سارے، پیارے رفیق کار اکٹھے بھی ہو جائیں اور چند جملے بولیں تو وہ بھی کمال توصیف سے بھرے ہوئے۔ تحسین سے اٹے ہوئے ، یہ ضیا شاہد کی خوش نصیبی ہے۔ضیا شاہد کو صحافت میں پچاس برس ہو گئے، اس عمر میں انسان پر بڑھاپے کا ضعف طاری ہو جاتا ہے ، ہاتھوںمیں تسبیح ، لمبی ڈاڑھی اور ہمہ وقت مسجد کا رخ مگر لگتا ہے کہ ضیا شاہد نئے سرے سے جوان ہو گئے ہیں، جوان بھی ایسے کہ جوان رعنا کہنے کو جی چاہے۔ یہ رعنائی ان کی لکھائی سے مترشح ہے۔
میںمقررین کا ایک ایک جملہ لکھنے بیٹھوں تو کالم کی وسعت تما م ہو جائے، بہر حال مجھے یاد پڑتا ہے کہ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ قلم چہرے صحافت ا ور سیاست کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ ہے،خوشنود علی خاں نے کہا کہ کتاب میں ہم عصروں کا تذکرہ بھی ہونا چاہئے اور ہم اس کے دوسرے ایڈیشن کا بے تابی سے انتظار کریں گے۔سعید آسی نے انکشاف کیا کہ جب انہوںنے بطور صحافی قلم ہاتھ میں تھاما تووہ ضیا شاہد کے اخبار صحافت میں شامل ہوئے جو ان دنوں صبح کے وقت شائع ہوتا تھا۔ کتاب کے بارے میں انہوںنے کہا کہ پوری صحافی کمیونٹی قلم چہرے سے مستفید ہو سکتی ہے۔ اس کتاب میں بزرگ صحافیوں کے قصے ہیں جو یوسف زلیخا کے قصے سے زیادہ دلچسپ ہیں۔امیر العظیم خود صحافی نہیں لیکن صحافت ان کی کانسٹی چیونسی ہے، انہوںنے کہا کہ ضیا شاہد نے تاریخ کا قرض چکایا ہے اور قلم چہرے کے مطالعے کے دوران ہمارے سامنے مختلف شخصیات کی فلم چلنے لگتی ہے جس میں ہر فلم کی طرح کچھ ٹوٹے بھی شامل کر دیئے گئے ہیں،بشریٰ اعجاز کی تحریر میں بھی تازگی اور فرحت محسوس ہوتی ہے، انہیں بولتے سنا تو یہ دونوں اوصاف بصد کمال دیکھنے میں آئے، انہوںنے سحر بیانی کے ریکارڈ مات کر دیئے اور یار لوگ سانس روکے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ضیا شاہد نے تاریخ کی دھند میں کھو جانے والوں کو ایک مسیحا کی طرح زندہ کر دکھایا ہے۔ سلمٰی اعوان دھیمے مگر مٹھاس بھرے لہجے میں بولتی ہیں، کہنے لگیں کہ قلم چہرے قابل قدر کاوش ہے۔شاہد رشید ادارہ نظریہ پاکستان کی جان اور روح رواں ہیں ، ان کا فرمان تھا کہ یہ کتاب طالب علموں کی راہ نما ہے اور اس کا قبلہ بھی درست ہے۔توصیف احمد خان نے ضیا شاہد کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ وہ ایک سچے ا ور کھرے پاکستانی ہیں اور مجید نظامی کی شاگردی کا حق ادا کر رہے ہیں،کالم نگار صغریٰ صدف نے کہا کہ قلم چہرے ایک خوبصورت تخلیق ہے۔ثوبیہ خان کا کہنا تھا کہ قلم چہرے میں جن شخصیات کا تذکرہ شامل ہے وہ ہماری تاریخ کا قیمتی اثاثہ ہیں۔صوفیہ بیدار نے کہا کہ خاکہ نگاری میں ضیا شاہد نے بڑا نام کمایا ہے۔دوستوں کے دوست سید سجاد بخاری جو خود درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں ضیا شاہد کے لئے سراپا سپاس گزار تھے، انہوں نے کہا کہ تاریخی شخصیات کا تذکرہ نئی نسل کے ساتھ نیکی اور فیض کا وسیلہ ہے۔ نوجوان کالم نویس اور تجزیہ کار سلمان عابد نے کہا کہ ان کی نسل پر ضیا شاہد نے بڑا احسان کیا ہے کہ صحافت کے نامی گرامی افراد کے بارے میں ساری تفصیلات فراہم کر دی ہیں۔اسی بات کو برادرم قیوم نظامی نے یوں کہا کہ ضیا شاہد نے تاریخ کو نئی نسل تک منتقل کر دکھایا۔ ایثار رانا نے انوکھا نکتہ نکالا کہ ضیا شا ہد بادشاہ گر نہیں ، خود بادشاہ ہیں۔ایاز خان نے کہا کہ ضیا شاہد کا قلم تعصب سے پاک ہے۔سہیل وڑائچ نے یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ قلم چہرے نے ایک بھولی بسری تاریخ کی یادیں تازہ کر دیں۔حافظ شفیق الرحمن نے تو شورش کاشمیری کے لب ولہجے میں گفتگو کر کے کمال کی باتیں کہیں۔حافظ صاحب آج کی صحافت کے شورش کاشمیری ہیں۔ سلمان غنی نے ضیا شاہد کو اہل صحافت کے لئے مشعل راہ قرار دیا۔میرے بھائی اجمل نیازی طبیعت کی خرابی کے باوجود تقریب میں شامل ہوئے اور خوبصورت تقریر کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کتاب اور خواب سے رشتہ جوڑنا ہو گا، کتابیں ہمارے خوابوں کی تعبیر کا دوسرا نام ہیں۔
تقریب کے دو گھنٹے لمحوں میں گزر گئے مگر یہ صدیوں پر محیط تھے۔یہ ایک بے تکلف تقریب تھی۔میں پہلے ہی ضیا شاہد کا حاسد ہوں، اب ان کی تعریفیں سن کر جل بھن کر رہ گیا، پتہ نہیں یہ کیفیت اور کس کس کی تھی، میں مختصر یہ کہوں گا کہ یہ دبستان ضیا شاہد کا ایک اکٹھ تھا۔ اس میں سبھی اہل صحافت تھے اور اپنے ہنر سے مالا مال اور اپنے اپنے شعبے میں باکمال۔ ان کی اکثریت ضیا شاہد کے ساتھ نوائے وقت میں تھی یا ڈیلی پاکستان اور اسکے بعد ان کے اپنے ا خبار خبریں میں، فی زمانہ کون کسی کو یاد رکھتا ہے مگر یہاں تو ایک چمن تھا، رنگا رنگ پھولوں کی مہک تھی ۔میں ایک بار پھر گورنر رفیق رجوانہ کا اس تقریب کے انعقاد اور دوستوںکے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں، وہ خاطر جمع رکھیں، میرا ارادہ نہ کتاب لکھنے کا ہے اور نہ اس کی تقریب رونمائی کی نوبت آئے گی مگر رفیق رجوانہ کی سجائی ہوئی یہ محفل دہلی کے یادگار مشاعرے کی طرح ہمیشہ ذہنوں کو تازگی اور روحوں کو بالیدگی عطا کرتی رہے گی۔