خبرنامہ

ضیا شاہد کی نئی کتاب ’’باتیں سیاست دانوں کی… | اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ضیا شاہد کی نئی کتاب ’’باتیں سیاست دانوں کی… | اسد اللہ غالب

یوں لگتا ہے، ہمارے نوائے وقت کے پرانے ساتھی ضیا شاہد نے کتابوں کی فیکٹری لگا لی، پچھلے تین ماہ میں ان کی تین کتابیںمنصہ شہود پر آ چکی ہیں۔پہلی کتاب نے پاکستان دشمن سیاستدانوں کو بے نقاب کیا، دوسری کتاب میں روٹین کے سیاستدان ہیں مگر ایک لحاظ سے وہ غیر معمولی لوگ تھے۔ تیسری کتاب ان کی ماں جی کے بارے میں ہے جو میں نے جاپان سے ا ٓنے والے شاعر عامر بن علی کی بغل میں دیکھی۔ ابھی ایک درجن مزید کتابیں کسی بھی وقت شائع ہو سکتی ہیں۔ اصل میں پچھلے دو تین برس میں ضیا شاہد نے اپنے اخبار میں ایک منظم ترتیب کے ساتھ اپنی یاد داشتیں تحریر کیں جنہیں اب الگ الگ کتابوں کی شکل دی جا رہی ہے، اسے کہتے ہیں ایک پنتھ دو کاج! ضیا شاہد ٹیڑھی انگلیوں سے بھی گھی نکال سکتے ہیں، مگر یہ یادداشتیںتو انہوںنے سیدھی انگلیوں سے لکھی ہیں اور ظاہر ہے کہ رنگ بھی چوکھا آئے۔
میرے سامنے ان کی کتاب باتیں سیاست دانوں کی رکھی ہے، میں اس کے پہلے باب سے آ ٓگے نہیں بڑھ سکا، کسی وقت باقی کتاب بھی ضرور پڑھوں گا،ا س طرح ایک کالم اور نکل آئے گا۔
زیر نظر کتاب کا پہلا باب کسی ڈان لیکس سے کم سنسنی خیز نہیں،۔ اس قدر انکشاف انگیز کہ قاری دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہو جاتا ہے، ایک ایک سطر ورطہ حیرت میںمبتلا کر دیتی ہے۔
ایوب خان زندہ ہوتے تو ضیا شاہد اس کتاب کی وجہ سے کہیں جیل بھگت رہے ہوتے، آج کی فوج کو اس گئے گزرے آرمی چیف سے کیا تعلق، صرف جنرل مشرف ہی کہہ رہا ہے کہ اسے جنرل راحیل نے پاکستان سے نکلنے میںمدد دی تھی مگر یہ جو ایوب خان کی داستان ہے، اس میں ضیا شاہد خود اقرار کرتے ہیں کہ ایوب خان نے انہیں اس کی اشاعت سے منع کیا تھا تو اب کس نے اس کی اشاعت کی اجازت دی، شاید ضیا شاہد کے ضمیر نے کہا کہ ان کے سینے میں ایک راز ہے، اسے منکشف کرناا ورقوم کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔یہ راز بھی ایک بلند بالا قانون دان ایم انور بار ایٹ لا کے بارے میں ہے، کسی زمانے میں وہ عدالتوں میں مظلوم اخبار نویسوں کا دفاع کیا کرتے تھے مگر اس راز کے منکشف ہونے سے انور بار ایٹ لا کا دفاع کون کرے گا۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ضیا شاہد نے اپنے ایک جریدے میں انور بار ایٹ لا کا انٹرویو چھاپا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایوب خان کو پھانسی دی جائے۔ یہ مطالبہ تو ہر فوجی ڈکٹیٹر کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ ضیا شاہد نے اسے مزید چٹپٹا بنانے کے لئے ایک پوسٹر چھاپاا ور لاہور اور دیگر شہروں کی دیواروں پر چسپاں کر دیا۔ ایوب خان کو خبر ہوئی تو اس نے ضیا شاہد کو ملاقات کے لئے بلا بھیجا، ان دنوں ایوب خان ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور کم و بیش گوشہ نشین تھے۔ ظاہر ہے گیارہ برس تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے کو مزید بولنے کی ضرورت کیا تھی جو کچھ بھی بولتے، اس کا حساب دینا پڑتا۔
ضیا شاہد لاہور سے اسلام آباد پہنچے، دل ہی دل میں وہ خوش تھے کہ ایک گوشہ نشین مگر سابق ڈکٹیٹر سے ملاقات اخباری اسکوپ ثابت ہو گی۔مگر ایوب خان نے اس وقت جو باتیں کیں ، ان کی اشاعت سے انہیں روک دیا، اور کم و بیش اگلے پچاس برس تک ضیا شاہد نے انہیں نہیں چھاپا۔اب چھاپ دیا ہے۔کہ ایوب خان نے ایک فائل دکھائی کہ ایم انور بارایٹ لا نے جج بننے کی درخواست کی تھی مگر ملٹری انٹیلی جنس نے خبر دی کہ ایم انور نے اپنے مکان کے تہہ خانے میں ایک بڑھیا کوقید کر رکھا ہے اور یہ بڑھیاا ور کوئی نہیں ، اس کی اپنی ماں ہے ۔ اس بڑھیا کو ملٹری ایجنسی کے ایک خفیہ چھاپے میں بر آمد کیا گیا ور اس سے پوچھ گچھ کی گئی کہ تمہیں کیوںبند کیا گیا ہے تو اس نے ایک لرزہ خیز کہانی سنائی۔کہانی یہ تھی کہ ایم انور اپنے شہید بھائی کیپٹن سرور کی اراضی پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں اور ان کی ماں اس کے راستے میں حائل ہیں، صرف ماں ہی نہیں ،ایم انور کی اپنی بیوی جو کیپٹن سرور کی بیوہ ریحانہ سرور کی سگی بہن تھیں۔ وہ بھی اس اوچھے ہتھکنڈے میںمزاحمت کر رہی تھیں۔یہ سب کچھ سامنے آنے پر ایوب خان نے ایم انور بار ایٹ لا کی فائل کو گندا کر دیاا ور یوں وہ جج بننے سے رہ گئے۔
شہید فوجی کی زمین پر قبضے کی یہ پہلی واردات تو ہوسکتی ہے مگر آخری نہیں تھی۔ ابھی پتہ چلا ہے کہ جنرل کیانی کے بھائی نے شہیدوں کے لواحقین کے لئے وقف ایک پوری اسکیم میں دھاندلی کی ہے اور وہ مقدمے سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔اخبارات میں اس فراڈ کی داستان چھپ چکی ہے۔
تاریخ اس بارے میںخاموش ہے ا ور ضیا شاہد نے بھی یہ نہیں بتایا کہ کیا ایم انور کو صرف یہی سزا دی گئی کہ انہیں جج نہیں بنایا گیا یا ان کے چنگل سے شہید کیپٹن کی اراضی بھی واگزار کروائی گئی، یا وہ قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے، اگر قبضہ نہیں کیا تو پھر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہی نہیں۔ میں قانون کا ماہر نہیں ہوں مگر ضیا شاہد کی کتاب صرف یہی بتاتی ہے کہ ایم انور نے شہید بھائی کی زمین پر قبضے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش میں انہوں نے یہ تو جرم کیا کہ اپنی ماں کو تہہ خانے میں بند کر دیا مگر شہید بھائی کے ساتھ کوئی ناانصافی کی یا نہیں، ضیا شاہد کی کتاب کی اشاعت کے بعد کسی صحافی کو اس امر کی تحقیق بھی کرنی چاہئے۔ خود ضیا شاہد بھی یہ کام اپنے اخباری عملے کی مددسے کر سکتے ہیں تاکہ کہانی اور چارج شیٹ مکمل ہو سکے۔
اسی باب میں ایوب خان نے بھٹو کو بے نقط سنائیں اور اسے سیکورٹی رسک قرار دیا، فوجی ڈکٹیٹروں کے لئے سارے سیاستدان سیکورٹی رسک ہوتے ہیں مگر وہ جنرل یحییٰ خان کو کبھی سیکورٹی رسک نہیں کہتے جس نے پاکستان کو دو لخت کر دیا، اسی طرح کوئی جنرل ضیا کو سیکورٹی رسک نہیں کہے گا جس نے معاشرے میںمذہبی تفریق کے بیج بوئے، اور کوئی جنرل مشرف کو بھی سیکورٹی رسک نہیں کہے گا جس نے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل کر ملک کو خون میں نہلا دیا۔فوجی ڈکٹیٹروں کے نزدیک صرف مخالف سول سیاست دان ہی سیکورٹی رسک ہوتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک حکومت تو اسی الزام میں توڑی گئی۔ مگر کسی فوجی ڈکٹیٹر کو کسی نے گھر نہیں بھیجا۔ ایوب خان بھی گھر جانے پر مجبور ہوا تو اس نے آئین سے غداری کرتے ہوئے اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خان کو نہیں دیا کہ وہ بنگالی تھے ا ور ایوب خان کے نزدیک سیکورٹی رسک تھے، ہم نے تو جنگ ستمبر کے ہیرو ایم ایم عالم کو بھی بنگالی ہونے کی سزا دی اور انہیں کونے کھدرے میں دھکیل دیا۔ہم نے سب سے سینئر بنگالی جج کو ملک کا پہلا چیف جسٹس بھی نہیں لگایا، اس میں برائی یہ تھی کہ وہ بنگالی تھا اور اس کی جگہ جسٹس منیر کا قرعہ نکالا جس نے فوجی ڈکٹیٹروں کو سند جواز دینے کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کیا۔ ضیا شاہد نے ایک دکھتی رگ کو چھیڑا ہے اور میرا قلم زخمی ہو گیا ہے۔ مزید لکھنے کا یارا نہیں۔