خبرنامہ

طلحہ سعید کے لیے مبارکباد….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

طلحہ سعید کے لیے مبارکباد…اسد اللہ غالب

اس نوجوان کا نام بہت کم لوگوں نے سن رکھا ہے، وہ ایک فرد نہیں ایک جدو جہد کی علامت ہے، ناانصافی کے نظام کے خلاف ایک توانا آواز ہے ۔ میں نے اس پر قلم اس لئے ا ٹھایا ہے کہ اس کے خلاف بھارت میں واویلا مچا رہا۔امریکی میڈیا نے آسمان سر پہ اٹھائے رکھا اور ہمارے میڈیا نے بھی دبی زبان میں اس پر طعنوں کے تیر چلائے مگر طلحہ سعید نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ وہ قانون کے دائرے میں رہا۔ اس لئے پاکستان کے ادارے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر سکے۔ طلحہ سعید ا سن نوجوان نسل سے تعلق رکھتا ہے جو پاکستان کے مستقبل کی وارث ہو گی۔
میرے گھر طلحہ سعید سولہ برس قبل آیا۔ اس کے والد گرامی کو قید تنہائی میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور ان کے خلاف اقوام منحدہ کوئی بڑی تلوار چلانے والی تھی۔ پاکستان میں طویل عرصے تک عدالتوں میں ا سکے خلاف مقدمے بھی چلے۔ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر طلحہ سعید نے نصف شب کے بعد میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، اس کے ہاتھ میں چند فائلیں تھیں، اس نے مجھ سے کہا کہ میں یہ فائلیں پڑھ کر انہیں اپنی رائے سے آگاہ کروں، یہ فائلیں درا صل اقوام متحدہ کے نام ایک پیٹیشن پر مشتمل تھیں۔

دوسری مرتبہ طلحہ سعید مجھے اپنی مسجد کے باہر ملا ، میں وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گیا تھا، اس نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈالی ا ور گاڑی میں سوار ہوتے ہوتے مجھ سے کہا کہ اسے میرے ان دنوں کے کالم پسند نہیں آ رہے ۔ شاید یہ کالم نواز شریف کے حق میں لکھے گئے تھے۔
اب میں نے میڈیا میں اس کا ذکر سنا کہ وہ سرگودھا کے آبائی علاقے سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ ا سکے پاس اللہ اکبر تحریک کا ٹکٹ ہے۔ یہ پارٹی قواعد کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ طلحہ سعید کی خواہش تھی کہ ان کی سیاسی پارٹی پاکستان ملی مسلم لیگ کو رجسٹر کیا جائے۔ ایک شہری کی حیثییت سے اسے پورا پورا حق حاصل تھا کہ وہ یا اس کے ساتھی کوئی پارٹی رجسٹر کریں مگر الیکشن کمیشن نے یہ پارٹی رجسٹر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ احس اقبال کا اعتراض یہ تھا کہ وہ کسی فرقہ ورانہ پارٹی کو سیاست میں دخیل نہیں کر سکتے مگر انہی دنوں فیض آباد دھرنے والوں کی پارٹی تحریک لبیک کو رجسٹر کیا گیا،اس سے پہلے جمعیت اہل حدیث کے لوگوں نے بھی مختلف ناموں سے پارٹیاں رجسٹر کروا رکھی ہیں، جے یو پی بھی شاہ۹ احمد نورانی صاحب کے دنوں سے رجسٹرڈ ہے اور جے یو آئی بھی ایک رجسٹرڈ پارٹی ہے، شیعہ مسلک کی پارٹیاں بھی رجسٹر کی گئی ہیں اور ایک مدت سے یہ تمام فرقہ ورانہ پارٹیاں الیکشن لڑ رہی ہیں،۔ ویسے آئین پاکستان ہر فرقے اور ہر مذہب اور ہر مسلک کے احترام کی یقین دہانی کراتا ہے ، اس کی رو سے اقلیتوں کی پارٹیاں بھی کام کر رہی ہیں مگر پاکستان ملی مسلم لیگ کا راستہ صرف اسلئے روکا گیا کہ بھارت ا ور اقوام متحدہ کو اس پر یہ اعتراض تھا کہ ان کا کسی طرح تعلق حافظ سعید سے بنتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک قانون تو ہے کہ کسی ممنوعہ پارٹی کو نام بدل کر سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی مگر اے این پی نے نام بدل کر سیاست کی ۔ پیپلز پارٹی نے نام بدل کر سیاست کی اور کس نے نہیں کی، ایسی ایک طویل فہرست ہے مگر دلیل وہاں دی جاتی ہے جہاں دلیل کی زبان کو سمجھا جائے، اگر محض طاقت ا ور جبر کی زبان ستعمال ہو رہی ہو تو پھر میں لاکھ دلائل دیتا رہوں ،کس کام کے۔

چلیئے ملی مسلم لیگ نہ سہیْ اللہ اکبر تحریک سہی۔ اس جماعت سے حافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید نے الیکشن میں حصہ لیا اور ان کے داماد بھی الیکشن کے میدا ن میں اترے، اس پارٹی نے کوئی دو سو کے قریب امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے۔ان امید واروں کو پتہ تھا کہ وہ جیت نہیں سکتے مگر وہ آج سیاست نہیں کریں گے تو آگے چل کر سیاست کے گر اور داؤ پیچ کس سے سیکھیں گے، تجربہ بہترین استاد ہے۔ حافظ سعید کے خلاف پروپیگنڈہ جاری رہا ، ان کے بر خورداروں کے خلاف بھی پروپیگنڈہ جار ی رہا مگر وہ کسی قانون کی زد میں نہیں آتے تھے،اس لئے ان نوجوانوں نے قسمت آزمائی کی۔ اور ووٹروں سے رابطہ استوار کیا، لاہور مین پہلی بارش ہوئی تو حامد میر نے نواز شریف کے حلقے کا دوراہ کیا جو کیچڑ اور کچرے سے لت پت تھا، اور اللہ اکبر تحریک کے رضاکار یہ کیچڑ اور کچرا صاف کرنے میں مشغول تھے ۔ حامد میر کے ا یک سوال کے جواب میں کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ الیکشن میں اللہ اکبر تحریک کو ووٹ دیں گے۔
یہ ایک نیٹ پریکٹس تھی، الیکشن کی اے بی سے سے واقفیت کا ایک راستہ تھا، سو طلحہ سعید نے حوصلے اور تحمل کے ساتھ انتخابی مہم جاری رکھی ، مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ طلحہ سعید نے زندگی کی پہلی ٹرائی میں دس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے ۔ میں اس کی کاوش پراسے مبارکباد دیتا ہوں،۔ ان کے والد گرامی حافظ سعید کو مبارکباد دیتا یہوں کہ وہ تمام رکاوٹوں کو خاطر میں لائے بغیر قومی دھارے میں شرکت کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ، کیا ہی بہتر ہوتا کہ اللہ اکبر تحریک کو ایم ایم اے میں شامل کر لیا جاتا۔ جماعت اسلامی ان کو ترازو کا نشان دینے کو تیار تھی ا ور ایم ا یم اے کے کوٹے سے کتاب کا نشان بھی دینے کو تیار تھی مگر سینیٹر ساجد میر اور مولانا فضل الرحمن کے تحفظات کی وجہ سے یہ بیل منڈے نہ چڑھ سکی، اگر کوئی اتحاد کا راستہ نکل آتا اور ان لوگوں کا ایک گرینڈ الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کوئی فارمولہ ن لیگ سے طے ہو جاتا تو ن لیگ اتنی بڑی تعداد میں سیٹیں نہ گنواتی اور کچھ ایم ایم اے کو بھی زیادہ حصہ مل جاتا۔سیاست کے اصول سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں، یہ کھیل کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں ، اس میں مفادات ا ور مصلحتیں چلتی ہیں۔ اس سے صرف دینی جماعتوں ہی کو نہیں، عام ملکی پارٹیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
میں طلحہ سعید کو ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتاہوں۔ اور اس کے حلقے سرگودھا کے شاہینوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ا س نوجوان کی قدر افزائی کی۔ اور پہلی ہی کاوش میں اسے حوصلہ بخشا۔طلحہ سعید مولوی نہیں ، ایک پروفیسر ہے اور ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔ اس کے الیکشن نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا خاندان ملک کے قومی دھارے میں شامل ہونے کی تڑپ رکھتا ہے۔
الیکشن میں ہارنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ طلحہ سعید بھی ا سی قطار کا حصہ ہے جس میں یوسف رضا گیلانی، شیر پاؤ،سراج الحق، مولانا فضل الرحمن،خواجہ سعد رفیق ، شاہد خاقان عباسی،فاروق ستار،مصطفی کمال،عابد شیر علی، اعجاز الحق جیسے بڑے برج بھی الٹ گئے۔ ان میں سے کئی ایک تو اتنے ووٹ بھی نہیں لے سکے جتنے پہلی بار ہی طلحہ سعید نے لے لئے۔ طلحہ سعید پر امید ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ انشا اللہ بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرے گاا ور دنیا ان کے خاندان پر انتہا پسندی کا لیبل نہیں لگا سکے گی۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب پاکستان نے احسان اللہ احسان کو گھر داماد بنا رکھا ہے اور اس کے ناز نخرے اور چونچلے برداشت کئے جا رہے ہیں جس نے فوجی جوانوں کی کٹے سروں کے ساتھ طالبان کو فٹ بال کھیلنے وڈیو بنائی اور جس نے فوجی جوانوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیاں مارنے کی وڈیو بنائی اور جس نے طالبان کے ہر دھماکے کی ذمے دارے قبول کی، اسی طرح پاکستان نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ بلوچستان کے دہشت گرد ،تشدد پرست اور انتہا پسند اور بگڑے ہوئے یا ناراض عناصر واپس قومی دھارے میں شامل ہونا چاہین تو ان کا کھلے بازووں سے استقبال کیا جائے گا، یہی پیش کش ٹی ٹی پی کے قاتلوں اور دہشت گردوں کو بھی کی گئی ہے تو پھر حفاظ سعید کا کیا جرم ہے جس پر اسے قومی دھارے مین شریک ہونے سے روکا جا رہا ہے،ا سکی پارٹی ملی مسلم لیگ کو رجسٹر نہں کیا گیا، پھر بھی انہوں نے عملی اقدام سے ثبات کیا ہے کہ وہ قومی دھارے کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہیں اور انہوں نے اللہ اکبر کے نشان پر کوئی دو سو ساٹھ ا میدوار کھڑے کئے اور جن میں خواتین کی بھاری تعداد شامل ہے، ان کے امیدواروں نے پہلی ہی کوشش میں چھ چھ ہزار سے زائد ووٹ لئے ہیں۔ اگر ملی مسلم لیگ کا اپنا پلیٹ فارم ہوتا یاا س کے ساتھ کسی کا تحاد ہوتا تو وہ بہیتر نتائج دکھا سکتی تھی۔ ساڑھے چار لاکھ ووٹ حاصل نکرناا سکا کریڈیٹ ہے، کوئی نئی پارٹی اتنے ووٹ حاصل نہیں کر سکتی۔پاکستان کو سوچناچاہئے کہ اگر اس نے امریکی دباؤ ہی قبول کرنا ہے تو خود امریکہ آج اپنے کٹر حریف حکمت یار کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ چکا ہے، یہی امریکہ اپنے ایک ا ور کٹر مخالف شمالی کوریا کے ساتھ ہاتھ ملا چکا ہے، امریکہ اور یو این او نے مودی کو دہشت گردی کی فہرست سے نکالا اور ساری دنیا نے یہ تماشہ بھی دیکھا کہ امریکہ تو نیلسن منڈیلہ کوبھی دہشت گرد سمجھتا تھ امگر اس کو نوبل انعام سے نوازا گیا، کیا حکومت پاکستان آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے !!