خبرنامہ

عدلیہ اور فوج، کچھ حیا بھی ہوتی ہے ، کچھ شرم بھی ہوتی ہے………………..اسدالللہ غالب

عدلیہ اور فوج، کچھ حیا بھی ہوتی ہے ، کچھ شرم بھی ہوتی ہے………………..اسدالللہ غالب

ویر اعظم کو آخر خیال آ ہی گیا کہ کچھ حیا بھی ہوتی ہے، کچھ شرم بھی ہوتی ہے اور انہوںنے اپنی کابینہ کے ارکان کو فوج ا ور عد–لیہ کے خلاف بیان بازی اور ان اداروں کی تضحیک سے روک دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوںنے دانیال اور طلال کو ہدایت کی ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے معافی مانگ لیں۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیراعظم کی طرف سے نواز شریف کو بھی ہدایت کر دی جائے کہ وہ بھی عدلیہ اور فوج کی کردار کشی کا سلسلہ بند کر دیں۔ شاید ایسا کرنا وزیراعظم کے بس میں نہ ہو کیونکہ وہ نوا زشریف کو اپنا وزیراعظم کہتے چلے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے و زیراعظم کو کیسے ڈانٹ پلا سکتے ہیں مگر آئینی طور پر یہ وزیراعظم کی ذمہ داری کہ وہ ملک کی سیاسی فضا کو مکدر نہ ہونے دیں، خاص طور پر اپنی پارٹی کو کھل کھیلنے کی اجازت نہ دیں۔ بجائے اس کے کہ عدلیہ یا فوج اپنی تضحیک کا نوٹس لیں اور نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کوئی ایکشن لینے پر مجبور ہو جائیں، ایسی صورت حال پید اہونے سے پہلے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ نواز اور مریم کو اخلاق ، تہذیب، قانون ، آئین اور شائستگی کی حدود میں رہنے کے لئے کہیں اور اگر یہ دونوں وزیراعظم کی بات نہ مانیں تو انہیں جلسے کرنے سے روک دیا جائے اور ان کی تقاریر کو نشر کرنے سے منع کر دیا جائے اس لئے کہ آج نوازشریف یہ کہہ رہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کو نہیں مانتے کل کو قصور کے درندے عمران کے خلاف کوئی فیصلہ آ گیا تو وہ بھی عوامی جلسے کرے گا اور فیصلے کو ماننے سے انکار کر دے گا اور درجہ بدرجہ ا س ملک کا ہر مجرم عدالتوں کا مذاق اڑائے گا اور ان کے فیصلوں کو جوتی کی نوک پر رکھے گا۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عباسی اپنے حکم پر کس حد تک عمل کروا پاتے ہیں یہ ان کے منصب کی رٹ کے لئے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔
وزیراعظم نے عدلیہ اور فوج کے خلاف بیان بازی کا نوٹس لیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آخر ہو گئی ہے۔ سابق وزیراعظم کی طرف سے جس طرح عدلیہ کی تذلیل کی جا رہی تھی وہ موجودہ وزیراعظم کے لئے بھی ناقابل برداشت ٹھہری۔ آپ اندازہ لگائیں کہ خود عدلیہ ا ور فوج کے غم و غصے کا کیا عالم ہو گا اور اگر یہ ادارے رد عمل میں کچھ کر گزریں اور اس پر حکمران پارٹی کے شدت پسند عناصر ہنگامہ کھڑ اکر دیں گے کہ ا ن کے لیڈر اور ان کی بیٹی کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نواز شریف وزیراعظم تھے، عدلیہ نے انہیں منصب سے ہٹا دیا اور نااہل کر دیا۔ اس فیصلے پر جب عمل ہو گیا تو پھر یہ کہے چلے جانا کہ کیوں نکا لا۔ کیوں نکالا، تو اس شور و غوغا کی کوئی منطق نہیں بنتی۔
ایسا ہی فیصلہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی آیا تھا۔ انہوں نے تو کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا نہ ان کی پارٹی نے کوئی واویلا مچایا۔بس آرام سے نیا وزیراعظم نامزد کر دیا اور گیلانی صاحب نے بڑے وقار کے ساتھ نااہلی کا عرصہ گزار بھی لیا ہے۔ اس سے بھی سخت فیصلہ ایک سابق وزیراعظم بھٹو کے خلاف عدلیہ نے کیا اور انہیں ایک قتل کے جرم میں پھانسی کی سز دے ڈالی۔،اس حکم پر راتوں رات عمل بھی ہو گیا۔ بھٹو کی بیٹی یا ان کی پارٹی نے نواز اور مریم کی طرح کیوں نکالا کی مثال پر کیوں پھانسی دی کی گردان نہیں کی۔ وزرائے اعظم کے خلاف صرف عدلیہ کے فیصلے ہی نہیں آئے، انہیں دیگر طریقوں سے ہٹا دیا گیا۔ محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو صدر مملکت نے اٹھاون ٹو بی کے تحت اقتدار سے نکالا۔ ان فیصلوں کوکسی نے پسند کیا یا نہیں کیا مگر یہ حقیقت ہے کہ اقتدار سے رخصت ہونے والوںنے کوئی مہم نہیں چلائی۔ امریکہ میں صدر نکسن کو ایک سکینڈل میں ملوث ہونے پر مستعفی ہونا پڑا ۔ وہ وائٹ ہاﺅس چھوڑ کر گھر چلے گئے مگر کیا مجال کہ ان کے لبوں پر کوئی حرف شکایت آیا ہو۔
نواز شریف وزیراعظم تھے، وزیراعظم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ہر قانون ، آئین اور ضابطے سے آزاد ہیں۔ خلفائے راشدین بھی احتساب سے بالاتر نہیں تھے۔ انہیں عوام نے بھرے مجمع میں للکارا، وہ قاضی کے سامنے پیش بھی ہوئے ، کسی نے عوام کو سوال کرنے پر بُرا بھلا نہیں کہا بلکہ اپنی صفائی میں شہادت پیش کی اور قاضی کے احترام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہاں عالم یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے خلاف فیصلے کو اپنی توہین سمجھ لیا ہے اور وہ جواب میں عدلیہ کی تضحیک، توہین اور تنقیص کے لئے عوامی جلسے کر رہے ہیں اور عوام کو بھی عدلیہ کی توہین اور تضحیک کا درس دے رہے ہیں۔ تین بار وزیراعظم رہنے والا اگر ادراوں کا احترام کرنا نہیں جانتا تو کسی نئے سیاست دان کی زبان آپ کیسے پکڑ سکتے ہیں ، یہی وطیرہ عمران خاں نے اختیار کر رکھا ہے کہ وہ ہر کسی کے خلاف الزام اچھالنا شروع کر دیتے ہیں ، اسی لیئے لوگ انہیں الزام خان کا نام دیتے ہیں، کیا نواز شریف بھی اپنے لئے یہی نام پسند کریں گے۔ کیوں نکالا سوشل میڈیا پرجو غلیظ تبصرے ہو رہے ہیں ، میں کم از کم اپنے سابق وزیراعظم کے لئے ایسے تبصرے پسند نہیں کر سکتا۔ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ پاکستان اس صورت حال کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ یہاں بہر حال آئین اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنا پڑے گا، اور یہ جو نیا شوشہ سامنے آیا ہے کہ سینیٹ کے لئے کاغذات میں امیدوار سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ آپ ڈیفالٹر ہیں یا نہیں ، کسی بنک کا قرضہ معاف کرا چکے یا نہیں ، کسی عدلت سے سزا یافتہ ہیں یا نہیں ، ان شرائط کو حذف کر دینے سے ہر چور لٹیرا، ڈاکو، قاتل ، غاصب اور کرپٹ پارلیمنٹ میں بلا روک ٹوک پہنچ جائے گا۔ ہم ایک نواز شریف کو روتے ہیں کہ وہ قانون کا احترام نہیں کرتے یہاں ہر شخص کو نواز شریف کے مرتبے پر فائز کر دیا گیا کہ ان سے کوئی باز پرس نہ کر سکے پاکستان کو ایک فری فار آل اسٹیٹ بنانے کی یہ کوشش عدلیہ کو از خود نوٹس لے کر ناکام بنا دینی چاہئے ، پاکستان کوئی بنانا ری پبلک نہیں کہ یہاںمافیا کا راج قائم ہو جائے۔ خدا را ! آئین اور قانون کاحترام کیا جائے ، اور آئینی اور قانونی اداروں کا حترام ملحوظ رکھاجائے۔ اگر آپ دوسروں کی عزت نہیں کریں گے تو آپ کی عزت کون کرے گا۔
ویر اعظم عباسی نے جس منصب کا حلف اٹھایا ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ آئین کی بالا دستی کو یقینی بنائیں اور اداروں پر کیچڑ اچھالنے کی روش ختم کریں۔اس منصب کے لئے انہوںنے جو حلف اٹھایا ہے، اس میں وہ کسی اور کو شریک نہیں کر سکتے، اس ملک کا ایک ہی وزیراعظم ہو سکتا ہے۔، کوئی دوسرا وزیر اعظم نہیں ہو سکتا۔ عباسی صاحب سردو گرم چشیدہ ہیں، کل کے بچے نہیں۔ انہیں سب معاملات کی سوجھ بوجھ ہے، اس لئے وہ نواز شریف کو اپنا وزیراعظم کہنا بند کریں اور جو تلقین انہوںنے دانیال اور طلال کو کی ہے، وہی نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کو بھی کریںکہ وہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ بند کر دیں۔