خبرنامہ

عزیز ہم وطنو! اسد اللہ غالب….انداز جہاں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

-میں اخبارات کا مطالعہ انٹرنیٹ پر اور بستر پر لیٹے لیٹے کرتا ہوں، برادرم سعید آسی کے کالم۔ ویلکم عزیز ہم وطنو۔ سے ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا سوچا کوئی تو بات ہو گی جسے سعید آسی کی چھٹی حس اور وجدان نے محسوس کیا، اپنا ایک قصہ یاد آیا ، محمد خان جونیجو ایک بیرونی دورے پر گئے، مرشد نظامی بھی ساتھ تھے، میںنے ایک اداریئے میں لکھا کہ جونیجو حکومت کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ یہ چھٹی حس کا نتیجہ تھا یا ایک مخصوص ذہنی فریکوئینسی پر کوئی الارم سنائی دے رہاتھا، عارف نظامی صاحب نے میرا فقرہ کاٹ دیا، مگر میںنے انہیں کہا کہ حکومت آج کل کی مہمان ہے، اور یہ حکومت اسی روز سہہ پہر کو ٹوٹ گئی۔ ایک بار میں نواز شریف کے ساتھ ہم سفر تھا، ڈھاکہ میں سارک کانفرنس سے واپسی پر انہوں نے مجھے اپنی سیٹ پر مدعو کیا۔ حالات کے بارے میں ایک سوال پر میںنے کہا کہ آپ ایک ہفتہ اور نکال سکتے ہیں۔ انہوںنے کہا مذاق نہ کریں، میرا ان سے مذاق تو تھا مگر میںنے یہ ایک سنجیدہ بات کی تھی اور میری دلیل یہ تھی کہ جس روز ہم ڈھاکہ اترے، آپ کے وزیر دفاع نے استعفیٰ دے دیا تھا، یہ آنے والے طوفان کی آخری نشانی ہے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے تو ایک اور خبر سننے کو ملی کہ آصف نواز کی بیوہ نے ایک پریس کانفرنس کر دی ہے۔ ٹھیک سات روز بعد نواز شریف کی حکومت ٹوٹ گئی۔ میں کوئی نجومی نہیں تھا اور نہ میں سعید آسی میں ایسی کوئی صفت دیکھتا ہوں، ایک تجزیہ کار حالات کی نبض ٹٹولتا ہے اور مرض کی تشخیص کر لیتا ہے۔ سعید آسی کے اس کالم سے ایک روز قبل میںنے خبریں میں ضیا شاہد کی نئی کتاب کی افتتاحی تقریب کی تقاریر کاخلاصہ پڑھا۔ برادرم مجیب شامی کی سرخی دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج اور عدلیہ، وزیراعظم کھانے چھوڑ دے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شامی صاحب جیسے جہاندیدہ، سرد و گرم چشیدہ صحافی کو دال میں کہیں کالا نظر آرہا ہے۔ مگر خدا لگتی بات کہوں کہ مجھے ایساکوئی اندیشہ لاحق نہیں۔ اگرچہ حالات میں تلاطم بہت ہے، مگر یہ سونامی میں بدلتا نظر نہیں آتا۔
نواز شریف کے مقابلے میں زرد اری کے دور میں حالات کئی مرتبہ بگاڑ کا شکار ہوئے، ہمہ وقت فوجی بوٹوں کی چاپ سنائی دینے لگتی، کیری لوگر بل پر بھی اور اس سے بھی زیادہ حسین حقانی کے مسئلے پر۔ مگر پھر خدا لگتی بات کہوں گا کہ مجھے ایسا اندیشہ لاحق نہیں ہوا کیونکہ فوجی ٹیک اوور کے لئے حالات بالکل سازگار نہ تھے۔ رہا چیف جسٹس کا مسئلہ تو وہ کچھ بھی کر سکتے تھے اور انہوںنے جو دل میں آیا، وہی کیا۔ یہ کسی سازش کے تحت نہیں تھا بلکہ ان کی ذاتی ذہنی ساخت کا نتیجہ تھا۔
آج بھی عدلیہ ہی ایکٹوازم کا مظاہرہ کر رہی ہے اور یہ اسی ادارے تک محدود ہے۔
ایوب خان نے ٹیک اوور کے لئے برسوں تیاری کی، اس وقت سے کی جب وہ مشرقی پاکستان میں بریگیڈیئر تھے اور قائداعظم کو وہاں دورے میں ان کے بارے میں شکایات ملیں اور انہوںنے اپنے انداز میں ان کی ڈانٹ ڈپٹ کی تو جراثیم پیدا ہو گئے، جو پلتے رہے، پلتے رہے۔ اور موقع پا کر حملہ آور ہو گئے، یحییٰ خان کو مارشل لا پلیٹ میں رکھ کر ملا، انہوں نے اپنے کور کمانڈروں کے ساتھ مل کر خوب اودھم مچایا جو پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا۔ جنرل گل حسن کے لئے حالات سازگار نہ تھے، انہوں نے بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر پیچھے بیٹھ کر طنابیں کھینچنے کی کوشش کی اور دھر لئے گئے۔ ٹکا خان اور بھٹو کا قارورہ ملتا تھا، مگر ضیا الحق مختلف ثابت ہوا۔ بھٹو بھی ایک غلط فیصلہ کر بیٹھا جو اسے بھگتنا پڑا، اس کی حکومت بھی گئی اور جان بھی۔ اسلم بیگ‘ وحیدکاکڑ‘ آصف نواز، جہانگیر کرامت کو بھی سازگار ماحول نہیں ملا مگر پس پردہ وہ متحرک اور سرگرم رہے ہوں گے، جنرل مشرف سے تو نواز شریف کی براہ راست ٹھن گئی، ظاہر ہے اس میں فوج کا پلہ بھاری ثابت ہوا۔
نواز شریف نے حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے، وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ذاتی طور پر وہ مشرف کو معاف کرتے ہیں مگر ان کے ساتھی اور کارکن جنہوں نے مشرف سے مار کھائی، ان کاخون کھولتا رہتا ہے، ان کے ارد گرد ایسے عناصر بھی ہوں گے جو ہر حکمران کے دربار میں بکثرت پائے جاتے ہیں جن کی روٹی روزی کا سارا انحصار، محاذ آرائی کو بھڑکانے اور سازشیں پروان چڑھانے پر ہوتا ہے۔ میں ذاتی طور پر نوازشریف کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کسی تصادم کی راہ پر ہیں۔ ان کے بھائی شہباز شریف تو اکثر فوج کے ساتھ معاملات درست کرتے دکھائی دیتے ہیں، چودھری نثار بھی یہی نیک کام کرتے ہیں اور میرے راوین دوست اور بھائی اسحق ڈار تو کئی طوفانوں کا رخ پھیرنے میں کامیاب رہے، ویسے سچی بات یہ ہے کہ اس وقت کوئی ایسی چنگاری ہے ہی نہیں جسے بھڑکانے کے لئے اس پر تیل چھڑکا جائے۔
اگر کسی نے کو دیتا کی کتابیں پڑھی ہوں یا ایران کے کامیاب اور ترکی کے ناکام انقلاب کا تجزیہ کیا ہو تو وہ بھی دور در تک کسی تصادم کو نہیں دیکھ رہا، مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے کہ حکومت کو خوفزدہ رکھیں، وہ اپنے کام سے باز نہیں آتے، ان کے الٹے سیدھے تجزیئے بہرحال لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کو ابھار رہے ہیں۔ مگر آپ خود بتائیں کہ فوج اگر کوئی حرکت کرنا چاہے تو اس کے حق میں کون ہو گا، مسلم لیگ ن ، یا پیپلز پارٹی، یا اچکزئی یا اسفند یار اور تو اور سراج الحق بھی مٹھائی نہیں بانٹیں گے، ان کی جماعت فوج کا ساتھ دینے کے صلے میں بنگلہ دیش میں پھانسیاں بھگت رہی ہے۔
اس کے باوجود پانامہ کی وجہ سے وزیر اعظم اور ان کا خاندان سخت عذاب میں ہے اور یہیں سے سازشی تھیوریاں جنم لیتی ہیں۔ مگر پانامہ پیپرز ردی کا ایک ڈھیر ہے جس کے لفافوں میں پکوڑے تو بک سکتے ہیں مگر ان کی بنیاد پر وزیر اعظم کے خلاف کوئی کارروائی ممکن نہیں۔ اگر اس ایک نکتے کو ذہن نشین کر لیا جائے تو سارے خطرات پانی کا بلبلہ ثابت ہوں گے مگر وزیر اعظم کو کچھ لوگوں سے ضرور ہوشیار رہنا ہو گا۔ ان کے بارے میں سوشل میڈیا بھی خبردار کر رہا ہے۔ اور انیس سو چوراسی میں مجلس شوری کے اجلاس سے جنرل ضیا کے خطاب ا وراس پر پریس گیلری سے کسی نا معلوم فرد کی جذباتی تقریر کا حوالہ دیا جا رہا ہے، کاش، یہ سوشل میڈیا والے پوری تحقیق کر لیتے اور اس میڈیا پرسن کا نام بھی تلاش کر پاتے مگر یہ کہانی ہے بڑی دلچسپ، اگر سچی ہے تو اس سے عبرت پکڑی جائے، جھوٹی ہے تو سوشل میڈیا کو تالہ لگا دیا جائے جو ایسی بے پر کی اڑاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے مطابق۔مجلس شوری کا اجلاس تھا اور جنرل ضیا الحق نے اس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ عنقریب انتخابات کروائیں گے ا ور اسلامی جمہوری نظام متعارف کروائیں گے، اس کی برکات سے لوگ مغربی جمہوری نظام سے متنفر ہو جائیں گے، تقریر ختم ہوئی تو پریس گیلری سے ایک مڈل ایج نوجوان اٹھا، اس نے کہا کہ آپ کے دور کی فیوض و برکات پر لوگ خوش ہیں، آپ انتخابات کا خیال دل سے نکال دیں ورنہ شورش پسند اسمبلیوں میں آ جائیںگے اور اپنے لچھنوں سے آپ کے دور کی نیکیوں کو بہا لے جائیں گے، آپ کا فرض بنتا ہے کہ ایم آر ڈی کے گنتی کے چند فسادیوں کا سر کچل ڈالیں اور اپنے نیک پاک اقتدار کو جاری رکھیں۔
میںنے ضیا اور جوابی تقریر کا خلاصہ تحریر کیا ہے، کیا تاریخ کا کوئی گواہ اس جذباتی مقرر کا نام سامنے لائے گا، اس سے محلاتی سازشوں کی حقیقت سامنے آ جائے گی، جو ہر دور میں ایسے ہی کرداروں کے ہاتھوں پروان چڑھتی ہیں۔
میں ہر قسم کی مکدر فضا کے باوجود حسن ظن میں مبتلا ہوں، فوج کی طرف سے مجھے کوئی اندیشہ لاحق نہیں، اسے سازگار ماحول میسر نہیں ہے، نہ وہاں کسی کی نیت میں فتور ہے۔ جو بھی فساد برپا ہے، وہ سیاسی ماحول میں ہے اورا س کا ذمے دار عمران خان ہے، اس کو ملک کے اندر سے کسی کی شہہ نہیں، ملک سے باہر سے ہو تو میں نہیں جانتا۔ کوئی بیرونی طاقت بھی پاکستان کو آج کے لمحے میں عراق، شام، افغانستان‘ لیبیا اور یمن نہیں بنا سکتی، فی الحال شام کی طرح قطر کا محاذ گرم ہونے والا ہے، اس کے لئے دعا کیجئے۔