خبرنامہ

علیم خان کے عید کیک سے محرومی…کالم اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

علیم خان کے عید کیک سے محرومی…کالم اسد اللہ غالب

صحافیوںکے لئے نوابزادہ نصراللہ خان کی آموں کی پیٹیاں ایک مستقل روایت کی حیثیت رکھتی تھیں، یہ سلسلہ نوابزادہ صاحب کی رحلت کے ساتھ ختم ہو گیا، میں نوابزادہ کے برے دنوں کا ساتھی تھا مگر مجھے ان کی پیٹی کبھی نہیں ملی۔ مگر چودھری منیر کی طرف سے آموں کے دو خوبصورت ڈبے مجھے کئی برس سے مل رہے ہیں۔ میں مکان بدلتا رہا ہوں مگر ان کا اسٹاف میرا نیا ٹھکانہ تلاش کر لیتا تھا۔چودھری منیر سے تعلقات صحافیانہ بنیاد پر نہیں تھے، مگر میرے ان سے تعلقات کی وجہ سے اپریل انیس سو پچاسی کی ایک دو پہر کو میں نے نواز شریف اور چودھری منیر کی پہلی ملاقات کرائی۔ یہ وہی گھر ہے جس سے ملحقہ پلاٹ پر ایک نیا گھر بن گیا ہے، وہاں نوازشریف کی نواسی مہر النسا آباد ہیں۔مگر دونوں گھروں کے اس رشتے کا کوئی تعلق اس ملاقات سے نہیں جو میںنے اول ا ول کرائی تھی۔
نوابزادہ کے آموں سے تو میں ہمیشہ محروم رہا مگر علیم خان نے پچھلے کئی برس سے صحافیوں میں عید کیک بانٹنے کی رسم شروع کی تو مجھے اپنی اس فہرست میں شامل رکھا۔ شاید اسی کیک کی تاثیر ہے کہ میںنے اپنے کالموں میں مجموعی طور پر نواز شریف کی حمایت کی ہے مگر پچھلے ایک ضمنی الیکشن میں علیم خان نے ن لیگ کے قائد نواز شریف کی بیگم کلثوم کا مقابلہ کیا تو میںنے علیم خان کے حق میں لکھا۔ اس کی وجہ صرف کیک نہیں تھا بلکہ علیم خان کی انسان دوستی تھی۔ انہوںنے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لاہور کینٹ میں دو ہوسٹل دکھائے جہاں یتیم بچیاں مقیم تھیں۔ ان کی رہائش، خوراک کے جملہ اخراجات علیم خان کے ذمے تھے اور سکولوںمیں تعلیم کے اخراجات بھی وہی برداشت کرتے تھے، ان بچیوں کا انتخاب ان کی بیگم کے ذمے تھا،علیم خان نے مجھے معذرو بچوں کا ڈیفنس میں ایک عالی شان ا سکول بھی دکھایا جس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سابق گورنر جنرل خالد مقبول بھی شامل تھے۔ اس اسکول کی مالی امداد میں علیم خان بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ علیم خان نے ایساہی ایک ادارہ اور بنایاا ور اس کے افتتاح کے لئے اپنے پارٹی لیڈر عمران خان کو مدعو کیا تومجھے اس تقریب میں شمولیت کی نیکی سے اس لئے محروم رکھا کہ کہیں عمران کی نظر مجھ پر نہ پڑ جائے اور ان کا عالی قدر مزاج برہم نہ ہو جائے ۔ بہر حال یہ ان کاوطیرہ تھا، میں نے ان کی نیکی کی ستائش کے لئے اگلے ہی روز ایک کالم لکھا جس پر علیم خان کا شکریے کا فون آیا۔
اس عید پر میرے پوتے رات گیارہ بجے تک علیم خان کے کیک کے انتظار میں جاگتے رہے، میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ ا ب علیم خان کیک نہیں بھیجا کریں گے کیونکہ ہم ان کی بلند پروازی کا ساتھ نہیں دے سکتے، ان کے تصرف میں ایک پرائیویٹ جیٹ طیارہ ہے جس کا جلوہ انہوںنے یوں دکھایا کہ اپنے لیڈر عمران خاں کو عمرے پر لے گئے اور ساتھ ہی ایک نام نہاد بلیک لسٹ میں شامل شخص کو بھی زبردستی ملک سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس قدر طاقتور لیڈر شپ کا میں، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ کی مثال کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں۔ یہ کیک تو نہ آنا تھا اور نہ آیا مگر ہو ایہ کہ ایک تو بچے کیک کھانے سے محروم رہے ، دوسرے عید کے روز مہمانوں کے سامنے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑی کہ اس کیک کی امید پرگھر والوں نے بازار سے کوئی اور کیک بھی نہیں خریدا تھا۔ ہم نے ہمیشہ ہی علیم خاں کے اکلوتے کیک پر اپنا ٹوہر بنایا اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا۔
بات کیک کی بھی نہیں، ایک رویے کی ہے کہ جیسے ہی پی ٹی آئی کو امید دلائی گئی ہے کہ بس وہ اقتدار میں آیا ہی چاہتی ہے تو اس کے لیڈروں کی آنکھیں بدل گئی ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ الیکشن کی ضرورت ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کی پنجاب میں تو حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اب اسے الیکشن کے جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے، وفاق کی سطح پر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ تڑیوں سے کام چلا سکتی ہے۔
آ نکھیں بدلنے کی روش ایک علیم خان تک محدود نہیں، پنجاب کے وزیر اطلاعات جن سے میرے اٹھارہ برس کے تعلقات ہیں، وہ بھی ہر چھوٹے بڑے صحافی کے گھر یا دفتر جا رہے ہیں، کسی کو سحری کھلائی، کسی کو افطاری پر مدعو کیا اور ان کی ڈبل کالمی تصویریں صفحہ اول پر چھپ رہی ہیں لیکن وہ نہیں ملے تومجھے ہی نہیں ملے۔ اور شاید اگلے دو ماہ تک ملیں گے بھی نہیں۔ اب وہ وزیر اطلاعات ہیں اور اخبارات اور اخباری کارکنوں پر حکم چلا سکتے ہیں۔ انہیں میری دوستی سے کیا لینا دینا۔ لوگ تو تعلقات کو ترازو میں تولتے ہیں اور نفع نقصان کا پورا حساب رکھتے ہیں۔
میں نے علیم خان کو پیسے والوں میںسب سے زیادہ شریف پایا ہے۔ کیک کا کوئی مسئلہ نہیں ، اگلی عید سے انشا اللہ ہم بازار سے لے ہی لیں گے مگر مجھے علیم خان کی انسان نوازی کبھی نہیں بھولے گی۔ سردیوں کی ایک نصف شب انہوںنے مجھے ایک ہسپتال کی انتظار گاہ میں اپنے ایک بیٹے کے ساتھ برے حالوں دیکھا تو میری ہیئت کذائی کے باوجود پہچان کر میری طرف بڑھے اور حال چال معلوم کرنے کے لئے دیر تک میرے پا س کھڑے رہے جبکہ ان کے گھر والے بھی پیچھے ان پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ شاید وہ اپنی والدہ محترمہ کو دکھانے گئے تھے۔
آنکھیں پھیرنا سیاست دانوں کا معمول ہے مگر سرتاج عزیز کی عظمت کا میں قائل ہوں، ایک بار انہیں کوئی بیس برس بعد ملاتو پوچھنے لگے کہ بھائی کہاں غائب ہو گئے۔سن پچاسی ہی میں میری ملاقات چودھری غفور سے ہوئی۔ بعد میں ان کے ساتھ جب بھی ملا تو ایسے لگا کہ بس ایک روز پہلے ملے تھے۔ اب ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ڈاکٹر مظہر چودھری یہ رشتہ نبھا رہے ہیں۔ایک زمانے میں مجھے عید کی صبح خواجہ افتخار پہلا فون کیا کرتے تھے، دوسرا فون نوائے وقت کے سرراہے نگار پروفیسر سلیم میر کی طر ف سے موصول ہوتا تھا، اب ڈاکٹر مظہر چودھری نے یہ معمول اختیار کر رکھا ہے۔
تعلقات نبھانے کی ایک اور مثال جو مجھے یاد ہے کہ میاں نواز شریف اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے چین کا دورہ کرنے گئے، واپسی پر انہوںنے میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا۔ مرحوم انور قدوائی مجھے بھی ساتھ لے گئے حالانکہ میںمدعو نہیں تھا۔ ماڈل ٹاﺅن کا ڈرائنگ روم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، صرف ایک سیٹ خالی تھی ۔ سہیل ضیا بٹ کہیں سے دو کرسیاں گھسیٹ لائے اور خالی کرسی کے پیچھے رکھ دیں۔نواز شریف آئے ، اپنے لئے مخصوص خالی کرسی پر بیٹھے، کسی سے علیک سلیک تک نہیں کی ، بس یہ کہا کہ میں آج نفل پڑھوں یا مٹھائی بانٹوں کہ غالب صاحب نو برس بعد یہاں آئے ہیں ۔ میںنے سمجھا کہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں مگر میںنے جلدی سے انگلیوں پر گنتی کی کہ پچاسی کے بعد یہاں اب آنا ہوا تھا اور واقعی یہ نو سال ہی بنتے تھے ۔میں نہیں سمجھتا کہ آج بھی میرے بارے میں نواز شریف کے یہی خیالات ہوں گے کیونکہ کارگل پر میرے کالموں اور پھر میری ٹانگ ٹوٹنے کے واقعے کے بعد میںنے جو کچھ لکھا، اس پر ان کی ناراضی بجا ہے، مگر وہ ناراض ہیں تو کیا ہوا۔ اپنے مرشد مجید نظامی سے میری آخری ملاقات ہوئی تو انہوںنے بھی دو انگلیاں کھڑی کر کے مجھے بتایا کہ وہ کبھی ان سے ملنے نہیں آئے اور نہ کوئی دوسرا رابطہ رہ گیا ہے۔ کہاں مجید نظامی جنہیں وہ میاں شریف کی طرح باپ کا درجہ دیتے تھے، ان سے یہ رویہ ہو سکتا ہے تو میں کیا میری اوقات کیا۔ علیم خان جلدی بدل گئے، آج نہیں تو انہوںنے کل بدلنا ہی تھا۔ کہ وہ پنجاب کے چیف منسٹر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی الیکشن میں جیت جائے تو اللہ ان کی یہ خواہش پوری کر دے گا۔ مجھے کیک ملے یا نہ ملے‘ اس سے کیا فرق کیا پڑتا ہے۔علیم خان کو ان کی محنت کا پھل ضرور ملنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭