خبرنامہ

عمران کی سیاست پر ارکان پارٹی کی لعنت….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

عمران کی سیاست پر ارکان پارٹی کی لعنت

تبدیلی آ نہیں رہی، آ چکی ہے، یہ ہے تبدیلی جو پی ٹی آئی لا چکی ہے، پارٹی خود کہتی ہے کہ سولہ ارکان صوبائی اسمبلی نے چار چار کروڑ لئے۔ اب الیکشن کمیشن کے سامنے عمران خاں کو اس الزام کا ثبوت دینا ہو گا۔ نیب اور انٹی کرپشن کو بھی چاہئے کہ وہ عمران خان کو طلب کرے اور کرپشن کے ثبوت مانگے۔ عمران کے پاس کرپشن کا کھلا ثبوت یہی ہے کہ اس کے ٹکٹ ہولڈر چودھری سرور جو پنجاب میں پارٹی کے ووٹوں سے نہیں جیت سکتے تھے اور یہ بھی یقین نہیں کہ سبھی پارٹی ارکان نے سرور کو وٹ دیئے، اس لئے سرور کے الیکشن میں اتنی بڑی اور کھلی ہارس ٹریڈنگ ہوئی کہ اس کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں، سرور نے ن لیگ کے امپورٹڈ امیدوار زبیر گل کو ہرا کر سیٹ جیتی۔ سرور نے ٹی وی چینل پر، مجیب شامی سے کہا ہے کہ وہ ان ارکان کے نام تا قیامت نہیں بتائیں گے جنہوںنے ان پر ووٹوں کی بارش کی۔
عمران نے پارلیمنٹ پر لاہور کے خالی کرسیوں والے دھرنے میں لعنت بھیجی تھی۔ غصہ خالی کرسیوں پر تھا، مگر نکالا پارلیمنٹ پر۔ ایک کرسی تو پارلیمنٹ میں ہمیشہ خالی رہتی ہے اور یہ کرسی عمران خان کی ہے جس پر بیٹھنے کا سبق لندن کی پارلیمنٹ سے بھی نہیں سیکھا۔ خواب میں ایسی پارلیمنٹ دیکھ لی تھی جس میں وہ ایک شہنشاہ کی کرسی پر براجمان تھے، جب تک خواب کی تعبیر نہیں مل جاتی، وہ پارلیمنٹ کا رخ کرنے کو تیار نہیں، وہ پچھلے چار برسوں میں دھرنوں میں رہے، کنٹینروں پر رہے، لاک ڈاﺅن کی کوشش میں مگن رہے، گالی گلوچ میں مگن رہے جب موقع ملا تو شادی رچا لی اور جب دل اکتا گیا شادی پر بھی لعنت بھیج دی۔ ایک کام اور کیا، مکمل ہونے والا کام پشاور میں کینسر ہسپتال کی تعمیر کا ہے اور شروع کیا جانے والا کام کراچی میں کینسر ہسپتال ہے۔ ان دونوں ہسپتالوں پر جو خطیر رقم خرچ ہوئی، وہ کہاں سے آئی، الیکشن کمیشن، نیب اور انٹی کرپشن کے محکمے کو اس کا بھی حساب مانگنا چاہئے یا سٹیٹ بنک آف پاکستان یہ حساب قوم کے سامنے رکھے کہ انہوں نے ان دو ہسپتالوں کی تعمیر کے لئے اربوں روپے کس کس اے ٹی ایم مشین سے نکلوائے۔ بے چارے جہانگیر ترین کو اس نیکی میں کتنے کروڑ کا ٹیکا لگا۔ وہ سیاست سے بھی باہر ہو گیا ا ور اسے اپنے بیٹے کی شکست کا داغ بھی اس بڑھاپے میں سہنا پڑا۔


اگلے الیکشن میں جانے کے لئے عمران کے کھاتے میں دو تعمیراتی کام، چند دھرنے اور سینکڑوں گالیوں کے علاوہ اب ہارس ٹریڈنگ کی کمائی بھی ہے جس سے ان کے سولہ پارٹی ارکان نہال ہوئے ہیں۔ پیسے عمران بٹور لیں چاہے بنی گالہ کا شاہی محل چلانے کے نام پر، چاہے شادی پر تحفوں کی شکل میں، چاہے کینسر ہسپتال کے چندے کے پردے میں‘ اس پیسے پر کوئی اعتراض نہیں مگر ان کے ارکان اسمبلی نے بہتی گنگا میں اشنان کر لیا تو انہوں نے کرپشن کرپشن کا شور مچا دیا، کرپشن کے خلاف جہاد تو وہ شروع ہی سے کر رہے تھے مگر اب اس کرپشن کی آگ نے ان کے اپنے دامن کو لپیٹ میں لے لیا ہے تو وہ چلا اٹھے ہیں۔ وہ اس لئے بھی کہ پارٹی تتر بتر ہو گئی ہے، بحیثیت چیئرمین پارٹی پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ وہ یوسف بے کارواں ہیں۔ جو صوبہ حکومت کے لئے ملا، اس کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور دھرنوں، نعروں، گالیوں میں وقت ضائع کرتے رہے۔


عمران سیاست میں نیا تھا، اس کا دامن داغدار نہیں تھا، اس کی ٹوپی میں کرکٹ کی فتوحات کی کلغی تھی۔ وہ چاہتا تو اپنے صوبے کو جنت کا نمونہ بنا دیتا مگر پانچ سال گزرنے کے بعد دنیا کو پتہ چلا کہ عمران میں کوئی صلاحیت نہیں، نہ گورننس کی، نہ پارٹی کو چلانے کی، نہ ترقی و تعمیر کی، نہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کی۔
کیا ن لیگ نے اپنے سارے ٹکٹ ہولڈر کامیاب نہیں کروائے۔ یہ ہوتا ہے پارٹی نظم کا کمال، کیا بلوچستان کے اتحاد نے ساری سیٹیں نہیں جیتیں، کیا ایم کیو ایم کے انتشار کا فائدہ پیپلز پارٹی نے نہیں اٹھایا، عمران نے کیا کمایا، یہ کہ وہ خود بھی کسی کو ووٹ دینے گھر سے باہر نہیں نکلے، یہ ہے عمران کے نزدیک ووٹ کی اہمیت اور سینیٹ کا احترام۔ اپنا ووٹ کسی کو دینے میں کوئی دلچسپی نہیں تو پھر ان کے ارکان پارٹی شتر بے مہار کیوں نہ ہو تے۔ عمران نے شادی کے بعد خانہ داری میں اس قدر مصروف ہو جانا تھا تو وہ پارٹی کی لگام کسی فارغ ساتھی کے سپرد کر دیتے، خود سیاست سے ریٹائرمنٹ لے کر شوق سے گھر بساتے۔ انہوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کو ہارس ٹریڈنگ کے لئے کھلا چھوڑ دیا۔ ایسے میں وہی نتیجہ سامنے آنا تھا جس پر خان صاحب سیخ پا ہو رہے ہیں، ان کے قریبی مشیر شیخ رشید بھی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے میں پیش پیش ہیں، وہ بھی سینیٹ کے لئے ووٹ دینے پارلیمنٹ ہاﺅس نہیں پہنچے لیکن ہارس ٹریڈنگ پر شور مچانے میں وہ سب سے آگے ہیں۔ رٹوں پر رٹیں کر رہے ہیں، ویہلا شخص اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ عمران خان کا مینٹور اگر شیخ رشید ہے تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ابھی اور گل کھلیں گے، ابھی اور تماشہ لگے گا۔ ابھی تو چودھری سرور نے سینٹ چیئرمین بننے کے لئے عمران کو پیپلز پارٹی سے اتحاد کی طرف دھکیلنا ہے۔ وہ خود پیپلز پارٹی کے لئے انتہائی قابل قبول ہیں اس لئے کہ وہ بھٹو کے جیالے رہے ہیں اور برسہا برس تک اسکاٹ لینڈ پیپلز پارٹی کے منصب صدارت پر فائز رہے، انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی بڑھ چڑھ کر خدمت کی، سمجھ لیجئے کہ وہ محترمہ بے نظیرکے زبیر گل تھے۔ مگر زرداری کی خدمت کا انہیں کوئی شرف نہیں ملا۔ خدمت تو انہوں نے نواز شریف کی بھی بہت کی مگر وہ خود نواز شریف کو چھوڑ گئے۔ اب تاریخ نے انہیں ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے متفقہ امیدوار برائے چیئرمین سینیٹ بن جائیں، بظاہر ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے مگر بلوچستان سے نعرہ اٹھا ہے کہ اس بار چیئرمین سینیٹ ان کے صوبے سے ہو گا۔ یہ نقصان محض چودھری سرور کا ہے۔ عمران خان کو جو نقصان پہنچ چکا، اس سے زیادہ اور کیا پہنچے گا۔ سینیٹ کے الیکشن نے ان کے سارے خواب چکنا چور کر دیئے۔
پی ٹی آئی کے سولہ ارکان نے عمران خان کی سیاست کا وہ حشر کر دیا ہے جو محمد علی کلے نے جو فریزیئر کا کیا تھا۔ وہ رنگ میں گرا پڑا تھا اور اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں تھی۔ عمران خان اب کف افسوس ملیں یا نئی شادی کی مہندی ہاتھوں پر ملیں، اللہ انہیں ہر حال میں خوش رکھے۔ نقشہ ان کے گھر کا منظور شدہ نہیں، عدالت کو بھی ان کے حال پہ رحم کھانا چاہئے۔ قانون کی رو سے تو غیر منظور شدہ گھر مسمار ہونا چاہئے مگر عمران خان کے پاس باقی سب کچھ مسمار ہو گیا۔ ایک گھر سے تو محروم نہ کیا جائے۔