خبرنامہ

عمران کے بارے میں چند یادیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

عمران کے بارے میں چند یادیں

جب عمران کرکٹ میں آیا تو تب سے میری اس کی شناسائی ہے۔اس سے قربت کی وجہ یوسف صلی اور موبی کی مشترکہ دوستی ہے۔موبی کے ذکر سے عمران کی کتاب بھری ہوئی ہے۔صلی کے گھر میں نے عمران کا کرکٹ پر ایک انٹرویو کیا۔ میں کرکٹ کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھا۔ یہ گرمیوں کی ایک چلچلاتی دوپہر کا قصہ ہے، عمران خان ایکسر سائز سے واپس آیا تھا، پہلے تو اس نے مصلیٰ بچھایاا ور ظہر کی نماز ادا کی۔ اسی گھر میں میں نے بھی ایک بار نماز کے لئے مصلی مانگا تو یوسف نے ڈھٹائی سے کہا کہ ا سکی بیوی کو نمازی مہمان پسند نہیں ہیں مگر ان کی بیوی شاید عمران پر اعتراض کی جرات نہیں کر سکتی تھیں۔
ؑؑؑؑؑعمران کی والدہ محترمہ نے وفات پائی تو میں تین مرتبہ ان کے گھر زمان پارک گیا تاکہ اس سانحے پر ان کے تاثرات لے سکوں۔مگر ہر بار ان کے عزیزوں کا کہنا تھا کہ عمران صدمے کی حالت میں ہے، والدہ کے سرہانے سر جھکائے بیٹھا ہے۔ اور کسی سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ایک کڑے وقت میراا ور عمران کا رابطہ نہ ہو سکا۔
بانوے کا ورلڈ کپ رمضان میں ہوا، میں مسلم ٹاؤن میں ایک دوست کے گھر بیٹھا تھا۔ گھر کی خواتین چائے نوش کرر ہی تھیں مگر ہاتھ اٹھا اٹھا کردعا مانگ رہی تھیں کہ اللہ ورلڈ کپ جتو ادے۔ میں ہنس رہا تھا کہ بے روزہ داروں کی دعا کیسے قبول ہو گی۔عمران خان باؤلنگ کر رہا تھا۔ پاکستان میں افطاری میں چند لمحے باقی تھے کہ عمران نے وہ ا ٓخری وکٹ گرادی جس نے ا سکے سر پہ ورلڈ کپ کا تاج رکھ دیا۔
شوکت خانم ہسپتال میں دھماکہ ہوا، یہ دھماکہ میری قسمت کے ساتھ بھی ہوا اور میں اپنی ملازمت سے محروم ہو گیا۔اس طرح یہ دھماکہ مجھے زندگی بھر نہیں بھولتا۔
شوکت خانم ہسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک ون ٹو ون ملاقات میں جب پہلی بار عمران نے مجھ سے کہا کہ وہ سیاست کرنا چاہتا ہے تو میرا جواب تھا کہ ا ٓپ سیاست نہیں کر سکتے، ا سکی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں، اس نے اصرار کیا کہ آئین اسے سیاست کرنے کا حق دیتا ہے۔ میں برسوں تک اپنے نظریئے پر قائم رہا، دو ہزار دو کے الیکشن تک میرا یہی نظریہ تھا کہ سیاست ایک گندہ کھیل ہے، اس کے اپنے داؤ پیچ ہیں، عمران کی طبیعت ان سے لگا نہیں کھاتی مگر وہ اپنی دھن میں مست رہا اور جدو جہد کرتا رہا۔ بائیس برس گزر گئے، اب اسے پھل مل گیا ہے۔ ان بائیس برسوں میں،میں نے انیس برس اس کی یا تو حمایت کی یا مخالفت نہیں کی۔ دھرنے تک ہمارے درمیان انتہائی گرم جوشی کے تعلقات تھے،اس نے اپنی کتاب دستخط کر کے مجھے بھجوائی مگر دھرنا ہوا تو میری رائے بدل گئی، میں حکومت کو اس انداز سے ہٹانے کے حق میں نہیں تھا۔اس لئے میں نے عمران خان کی اس سیاست کی بھر پور مخالفت کی، میری یہ مخالفت اصولی تھی۔ ابھی تین ماہ سے میرے ایک قریبی دوست بلکہ برخوردار احمد وقاص ریاض میرے پاس بار بارآئے کہ میں عمران خان کے حق میں لکھنا شروع کر دوں، وہ مجھے عمران سے ملوانے کو تیار تھے مگر میں نے کہا کہ عمران کی حکومت بنتی ہے اور وہ اچھے کام کرتا ہے تو ضرور اچھا لکھوں گا۔
عمران خان سے اصل قربت پیدا کرنے والے مانچسٹر کے چودھری منظور اور چودھری محی الدین ہیں جنہوں نے پہلے تو یہ کہا کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کا نیک کام کر رہا ہے، اس میں اس کی مدد ضرور کرو،پھر انہوں نے کہا کہ وہ سیاست کرنا چاہتا ہے، اس کی مدد کرو۔ میں نے عمران سے ان کے ہسپتال میں کئی ملاقاتیں کیں۔ پہلی ملاقات میں اس نے سارا ہسپتال گھوم پھر کر دکھایا۔اس طرح دکھایا جیسے کوئی بچہ اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا کھلونا دکھاتاہے۔
مجھے عمران میں سادگی،عاجزی ا ور انکساری کی جھلک نظر آتی تھی مگر کوئی مقناطیسیت محسوس نہ ہوئی۔ چودھری منظور ہی کے کہنے پر میں ایک بار لاہور کے سینیئر ترین کالم نویسوں کو عمران کے گھر کھانے پر لے گیا۔ہمارا استقبال ان کے بہنوئی حفیظ اللہ نیازی نے کیا، عمران گھر پر نہیں تھے، ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، اس کی خستہ حالی بزبان خود عیاں تھی، چالیس واٹ کا بلب اس کے اندھیرے مٹانے میں ناکام تھا۔ مگر سامنے سیڑھیاں جگ مگ کر رہی تھیں۔سنگ مر مر لگا ہوا تھا۔عمران کمرے میں داخل ہوئے تو ہانپ رہے تھے، لمبی دوڑ سے واپس آئے تھے۔ ان کے پیچھے ان کا کتا بھی اندرا ٓگیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ گیا، عمران کو شاید یہ حرکت ناگوار گزری، اس نے زور کا تھپڑ کتے کو رسید کیاا ور اسے باہر جانے کو کہا، منو بھائی نے ان پر اعتراض کیا ایک کتے پر کیوں برس پڑے، عمران ہنسا کہ اس کی موجودگی میں میں آپ حضرات سے دل جمعی کے ساتھ بات نہیں کر سکتا تھا، کتا مجھے بے حد عزیز ہے۔ ساراوقت اسے پچکارتے گزر جاتا۔پھر آپ نے شکائت کرنا تھی کہ کتے کو اس قدر اہمیت دی، آپ لوگوں کو نہیں دی، ایک قہقہہ بلند ہوا اور طویل گفتگو شروع ہو گئی، انقلابی باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں جبکہ اوپر کی منزل سے کھانوں کی خوشبو بھی برداشت سے باہر تھی، ہم لوگ اوپر گئے، اسی منزل پر کہیں جمائما بھی موجود تھیں مگر مکمل مشرقی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ ہمارے سامنے نہیں آئیں۔ یہ تھی میری ان سے ایک ملاقات کی کہانی۔
میں ان دنوں گلاسگو میں تھا جب لیڈی ڈیانا کی موت واقع ہوئی۔ اس حادثے پر پوری دنیا اشک بار تھی۔ میں شوکت بٹ کے گھر میں ساری رات ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہا۔لیڈی ڈیانا کی آخری رسومات پر دنیا بھر سے اہم لو گ ا ٓئے،ا س مجمع میں کئی بار کیمرہ عمران خان پر مرکوز ہوا تو مجھے اس پر فخر محسوس ہوا کہ میرا ایک ہم وطن بھی دنیا کے اہم ترین افراد کی صف میں شامل ہے۔
ایک بار میں نے انہیں اپنے گھر مصطفی ٹاؤن بلایا۔ یہاں بھی سینیئر ترین کالم نویس جمع تھے۔ یہ بھی گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ عمران مقررہ وقت پر آیا،وہ ایک سوزوکی مارگلہ کارسے اترا۔ لگتا تھا کہ گاڑی میں اے سی نہیں تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا عمار چودھری اسی لمحے ا س کا فریفتہ ہو گیا اورآج تک اس کے گن گا رہا ہے۔اس کے بعدعمران اسلام آباد جا بسے۔ یہ میری پہنچ سے دور تھا۔
عمران اب حلف لینے کی تیاری کر رہا ہے۔اس نے اب سیاست کے وہی ہتھکنڈے آزمائے ہیں جو اس ملک کا خاصہ ہیں۔حکومت میں آنے سے بہت پہلے وہ اپنا پروگرام دے چکا ہے،اب اسے اپنے دعووں پر عمل کرنا ہے۔اسے سخت امتحان درپیش ہے۔