خبرنامہ

فاتح اعظم جنرل اختر عبدالرحمن کی یاد میں .. اسداللہ غالب

فاتح اعظم جنرل اختر عبدالرحمن کی یاد میں .. اسداللہ غالب

سترہ اگست آیاا ور خاموشی سے گزر گیا، یہ دن تو پاکستان کی فتح عظیم کا دن ہے، چودہ اگست کو ہم نے آزادی حاصل کی، اس کا سترھواں جشن آزادی دھوم دھام سے منایا گیا، بچوں ، بوڑھوں ، عورتوںا ور جوانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اسی طرح کا ایک یادگار دن سترہ اگست ہے جب دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور سوویت روس کو شکست دینے والے جرنیل پر بزدلانہ وار کیا گیا، یہ اس کا یوم شہادت نہیں بلکہ سوویت روس کا یوم مرگ ہے۔اس روز بہاولپور کی فضائوں میں ایک سی ون تھرٹی طیارے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، اس میں دیگر شہید ہونے والوں میں جنرل اختر عبدالرحمن بھی تھے جنہیں دشمن میدان جنگ میں شکست نہ دے سکا مگر دشمن کو معلوم نہیں تھا کہ ہمارے لئے تو ہر کربلا اس امر کی نوید ہے کہ دشمن ہمارے جذبوں کو ، ہماری شجاعتوں کو ، ہماری معر کہ ا ٓرائیوں کو سامنے آ کر سہنے کے قابل نہیں اور پھر وہ چوروں کی طرح وار کرتا ہے، سترہ اگست 1988 کو بھی چوروں کی طرح وار کیا گیا مگر جنرل اختر عبدالرحمن کو جس کسی نے ابدی نیند سلایا ، وہ خود دنیا کے نقشے سے اس وقت تک مٹ چکا تھا، اس کی افواج کو افغانستان کی پتھریلی چٹانوں اور تپتے صحرائوں میں نیست و نابود کیا جا چکا تھا۔
یہ کہانی بڑی ہی دلچسپ اور بڑی ہی حوصلہ افزا ہے ،خون میںنئی حرارت پیدا کرنے والی، آنکھوں میں روشنیوں کی قوس قزح کے رنگ بکھیر دینے والی کہانی ہے۔
پاکستان ا ور سوویت روس کی طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہ تھا، جس روز پاکستان کی تخلیق ہوئی، اسی روز سے دو دشمن ہمار ی آزادی کے درپے ہو گئے، ایک طرف بھارت جسے دھرتی ماتا کی تقسیم گوارا نہ تھی، دوسری طرف سوویت روس جسے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں کی پیاس صدیوں سے ستا رہی تھی۔زار شاہی کے زمانے سے روس کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح بلوچستان کو روندتے ہوئے گوادر تک رسائی حاصل کر لے ۔ ان دو خطرات کا ہمیں بخوبی احساس تھا، بھارت نے اکہتر میں جزوی کامیابی حاصل کر لی اورا سکی وجہ بھی ایک نا اہل فوجی آمر بنا جس نے ملک کے عوام کے مینڈیٹ پر عمل نہ کیاا ور ستر کے الیکشن میں اکثریتی پوزیشن حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کیا۔ یہ ایک فاش غلطی تھی، بھارت نے ا سکا پورا پورا فائدہ اٹھایاا ور اندرا گاندھی کو اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے لئے ماسکو کی مکمل حمایت حاصل تھی، اس لئے حاصل تھی کہ روس سمجھتا تھا کہ پاکستان کو کمزور کر نے کے بعد اسے ہڑپ کرنا آسان ہو جائے گا مگر اسے کیا معلوم تھا کہ پاکستان لوہے کا چنا ثابت ہو گا۔
ادھر سوویت روس نے اپنی افواج دریائے آ مو سے پار کر کے افغانستان کے طول و عرض میں مورچہ زن کیں، ادھر پاکستان نے بھٹو دور کی ایک گرد سے اٹی ہوئی فائل جھاڑی، اور ایک ایسی جنگی حکمت عملی کو بروئے عمل لایا گیا جس کی مثال دنیا میں پہلے کہیںنہیں ملتی، ہاں ویت نام میں ہو چی منہ کے گوریلوںنے امریکہ کا بھرکس نکالا تھا مگر ایک تو یہ جنگ بڑی طویل تھی، دوسرے اس جنگ میں خود ویت نام خاکستر ہو گیا مگر پاکستان نے جو جہاد شروع کیا، اس نے سوویت ایمپائر کو ناکوں چنے چبوا دیئے، روس کے لئے نہ افغانستان میں ٹھہرنا ممکن تھا ، نہ پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نظر آتا تھا۔یہ ایک نیا منظر نامہ تھا، پاکستان نقشے پر ایک منحنی سی ریاست ، سوویت روس نقشے کی وسعتوں پر محیط، پاکستان کے مجاہدین کے پاس توڑے دار بندوقیں اور سوویت روس کے پاس ٹینکوں ، میزائلوں اور بمباروں کے جھرمٹ اور انبار۔
آج کی نسل کو یاد نہیں ہے مگر پشاور میں بیٹھا ہوا ایک پاکستانی سیاسی لیڈر خان عبدالولی خاں ہمیں ڈرا رہا تھا کہ سرخ آندھی خیبر کی چٹانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ سوویت روس کے گماشتے ہماری صفوں میں گھسے ہوئے تھے اور ہمیں سخت نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے۔
پاکستان جانتا تھا کہ سوویت روس کی افواج قاہرہ کے سامنے اپنی فوج نکالی تو مقابلہ نا ممکن ہو گا اور دنیا کی واحد اسلامی نظریاتی ریاست کا وجود مٹ جائے گا، اس لئے سوویت روس سے نبٹنے کا ٹاسک آ ٓئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر کے سپرد کیا گیا۔ آپ کو آئی ایس آئی سے چڑ ہو گی، ضرور اس کے خلاف بولئے اور لکھئے مگر یاد رکھئے کہ اس ادارے نے قومی تاریخ میں جن روشن ابواب کا اضافہ کیا ہے ، ان میں ایک کا عنوان جہاد افغانستان ہے۔
تحریک انصاف تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدا وار ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی جو افغان جہاد کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتی ہے، اسے یاد ہونا چاہئے کہ افغان جہاد کی بنیاد پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو ہی نے رکھی تھی جب اس نے افغان مجاہد لیڈر حکمت یار کو پاکستان مدعو کیا تھا اور پھر تو افغان مجاہدین تنظیمیں پاکستان آمد کے لئے قطار لگائے کھڑی تھیں ، بھٹو دور حکومت میں بڑے بڑے افغان مجاہد لیڈر پاکستان کو اپنی بیس بنا چکے تھے۔ پیپلز پارٹی ان حقائق کو جھٹلانہیں سکتی، افغانستان میں مجاہدین کے ذریعے انقلاب کا فلسفہ بھٹو نے ایجاد تو کر دیا مگر یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا، اسے ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے پایہ تکمیل تک پہنچایا جب ان کے وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر نے طالبان کے ٹینکوں پر بیٹھ کر قندھار کا رخ کیاا ور انہیں افغانستان کے تخت پر جا بٹھایا۔ اس پس منظر میںپیپلز پارٹی کے لئے آئی ایس آئی کے ا فغان جہادکے خلاف بولنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی مگر یہ لوگ اپنی عادت سے باز نہیں آتے ا ور آئی ا یس آئی اوراسکے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن کے خلاف ان کی گز بھر کی زبانیں کھلی رہتی ہیں، آپ آسمان پر نہیں تھوک سکتے، اس لئے جنرل اختر عبدالرحمن کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ ان کے فاتحانہ رول کی نفی نہیں کر سکتا۔
جنرل اختر کا شمار اسلامی تاریخ کے ان فاتحین میں ہوتا ہے جنہوںنے ایک طرف کسریٰ کو للکارا، دوسری طرف قیصر روم سے ٹکر لی اور تیسری طرف ایشیاا ور افریقہ میں کامیابی کے جھنڈے بلند کئے، محمدبن قاسم ، صلاح الدین ایوبی، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد اور عقبہ بن نافع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنرل اختر نے جدید دور کی ایک عالمی سپر پاور سوویت روس کو افغانستان میں شکست فاش سے دو چار کیا۔ اور پاکستان کو اس مغربی خطرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات دلا دی، اب افغانستان میں ایک ا ور سپر پاور کے لشکر پرے جمائے بیٹھے ہیں، ان کا منہ موڑنے کے لئے ہمیں ایک اور جنرل اخترعبدالرحمن کی ضرورت ہے مگر ا سکے لئے ضروری یہ ہے کہ جس طرح افغان جہاد کے پیچھے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی تھی، اسی طرح آج بھی ہم قومی ا تحاد کامظاہرہ کریں، جنرل اختر کی کامیابی کا راز یہی قومی اتحاد تھا جس کا آج فقدان نظر آ رہا ہے ، بہرحال سوویت روس کی اس ہزیمت کا جب بھی ذکر ہو گا تو ساتھ ہی مؤرخ جنرل اختر عبدالرحمان کو خراج عقیدت پیش کئے بغیر نہیں رہ سکے گا، بلاشبہ وہ فاتح اعظم تھا کہ ا س نے ایک عظیم سپر پاور کو دنیا کے نقشے سے مٹا کے رکھ دیا تھا۔ قوم اس بہادر جرنیل کو سلام پیش کرتی ہے اور اس کی تابندہ روایات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اپنے مستقبل کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔