خبرنامہ

فاٹا پاکستان کا حصہ، ایک معجزہ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

فاٹا پاکستان کا حصہ، ایک معجزہ…اسد اللہ غالب

پارلیمنٹ نے فاٹا کو پاکستان میں ضم کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ اب یہ علاقہ مرحلہ وارخیبر پختون خواہ کے انتظامی کنٹرول میں چلا جائے گا۔ اس علاقے میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لئے ہر سال ایک سو ارب کا اضافی بجٹ بھی منظور کیا گیا ہے چنانچہ دس برسوں میں اس علاقے کی ترقی پر ایک ہزار ارب کی خطیر رقم معمول کے بجٹ سے ہٹ کر خرچ کی جائے گی۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ اس رقم کی مدد سے فاٹا کے پورے علاقے میں سڑکوں کا جال بچھ جائے گا، جگہ جگہ سکول ،کالج اور یونورسٹیاں کھل جائیں گی، ہسپتالوں کا نظام چل پڑے گا، تھانے، کچہری کا نظام بھی چل پڑے گا مگر اصولی طور پر اتنابڑا بجٹ انہی کاموں کی تکمیل کے لئے وقف کیا گیاہے اور توقع رکھنی چاہئے کہ اگرا س بجٹ میں گھپلا اور کرپشن نہ کی گئی تو لازمی طور پر یہ علاقے پاکستان کے ترقی یافتہ شہروں کے مقابل آ جائیں گے ۔ ویسے پاکستان میں بھی ایسے علاقے کثرت سے موجود ہیں جو فاٹا سے زیادہ بدحال ہیں، جہاں غربت بہت زیادہ ہے، پس ماندگی ہے اور احساس محرومی پایا جاتا ہے، ان علاقوں میں جنوبی پنجاب، تھر اور بلوچستان کو شمار کیا جاتا ہے مگر سی پیک کی وجہ سے بلوچستان کی تقدیر بدلنے کی ایک آس پیدا ہوئی ہے، تھر کو کیوں نظرانداز کیا گیا ہے اور کس نے کیا ہے، اس کی جواب دہی پاکستان پیپلز پارٹی کو کرنی ہے جو کم و بیش ہمیشہ یہاں برسراقتدار رہی ہے۔
فاٹا کی پس ماندگی کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی، یہ علاقے آئینی طور پر پاکستان میں ضم تو نہیں کئے گئے تھے مگر صدر پاکستان اور گورنر بلوچستان اس کی براہ راست نگرانی کے لئے ہمیشہ سرگرم رہے اور پاکستان کی افسر شاہی یعنی سی ایس پی کلاس کا ایک تجربہ کار افسر ہر ایجنسی میں پولیٹکل ایجنٹ کے منصب پر مامور ہوتا تھا۔اس طرح ملک کا ایک نظام بہرحال موجود تھا جس کے ذریعے بھاری رقوم ترقیاتی سکیموں پر خرچ کی جاتی تھیں، اگر یہ رقم صرف ملک صاحبان کی جیب میں چلی جاتی تھی تو اس علاقے کی پس ماندگی کی ذمے داری بھی وہی قبول کریں مگر جہاں تک خود ملک صاحبان کا تعلق ہے تو یہ دنیا کے امیر ترین لوگوںمیں شمار ہوتے تھے،اس کی کئی وجوہات ہیں جنہیںمیں یہاں اس لئے نہیں دہرانا چاہتا کہ یہ الزام تراشی نہ بن جائیں۔
ایک شہادت جو میں سینے پر ہاتھ مار کر دے سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ فاٹا میں دو رویہ سڑکوں کا بہترین اور جدید تریں نظام تشکیل پا چکا ہے اور یہ کام مشرف دور سے شروع ہوا، جنرل کیانی نے اسے مکمل کر دیا، یہ ٹھیک ہے کہ نئی بننے والی سڑکیں فراخ نہیں ہیں مگر یہ اس قدر مضبوط ہیں کہ ان پر وہ ٹرالے چل سکتے ہیں جو کسی موٹروے پر چلتے ہیں۔ مجھے یہ بات آئی ایس پی آر کے سابقہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی ایک بریفنگ کے ذریعے معلوم ہوئی جو انہوں نے لاہور کے ایڈیٹروں کو تین سال قبل دی تھی بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا کہ فاٹا کی ساری ایجنسیاں امن و مان کے لحاظ سے بھی جنرل کیانی ہی کلیئر کر چکے تھے، صرف شمالی وزیرستان کے تین یا چار مقامات ایسے تھے جن کے خلاف ضرب عضب کا آپریشن کیا گیا ور اب ان علاقوں میں بھی راوی ہر سو چین لکھتا ہے، رہ گئی اکا دکا واردات تو ٹیکساس جیسے ترقی یافتہ شہر میںبھی اسے روکا نہیں جا سکا، شرپسند اور قانون شکن عناصر کسی بھی علاقے میں موجود ہو سکتے ہیں اور پاکستان میں سیکورٹی ایجنسیاں ان پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں، اسی وجہ سے آج پاکستان کی وہ حالت نہیں جو دوہزار گیارہ میں تھی یا دو ہزار تیرہ میں تھی، کراچی بھی اب وہ شہر نہیں جہاں بھتے کی پرچیاں چلتی تھیں اورٹارگٹ کلنگ عام تھی۔ بلوچستان کی شاہراہوں پر بھی دن یا رات کے کسی حصے میں بے دھڑک سفر کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال قیام امن ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔
فاٹا میں جو معجزہ ہوا ہے وہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے، یہ علاقہ دنیا کے ہر قانون سے بالاتر تھا، آج سے نہیں صدیوں سے یہاں ظالمانہ قوانین کا راج تھا۔ انہیں ایف سی کا سیاہ نظام کہا جاتا تھا۔ اس نظام کے تحت کسی کو انصاف میسر نہیں آ سکتا تھا، بس اسے ظلم کی چکی میں پیسا جا سکتا تھا، اور سزا بھی ایسی کہ جرم کوئی ایک شخص کرتا، سزا سارے خاندان اور بسا اوقات سارے گاﺅں کو ملتی، ان کے گھر مسمار کر دیئے جاتے، انہیں روزی روٹی کمانے کے قابل نہ چھوڑ ا جاتا، یہ نظام نہیں ایک قہر تھا جو ہلاکو اور چنگیز نے بھی شاید ہی روا رکھا ہو مگر پاکستان کے قبائلی علاقے پتھر کے دور میں دھکیل دیئے گئے تھے، کوئی تھانہ، کوئی کچہری،کوئی عدالت، کوئی ہائی کورٹ، کوئی سپریم کورٹ ایسی کوئی سہولت میسر نہ تھی، بس جرگے کا حکم چلتا تھا اور انسانوں کا قیمہ بنا دیا جاتا۔ کہنے کو یہ لوگ اپنے آپ کو آزاد قبائل کہلاتے تھے، آزادی ہر ایک کو میسر ہونی چاہئے مگر مادر پدر آزادی کے حق میں کون ہو گا۔ اب پارلیمنٹ آف پاکستان نے جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، اس نے اس علاقے کو مہذب دنیا کا حصہ بننے کا ایک سنہری موقع عطا کر دیا ہے، یہ پارلیمنٹ شاباش کی مستحق ہے اور وہ فوجی جوان ا ور افسر جو اس علاقے میں قیام امن میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اپنا آج ، ہمارے کل کے لئے قربان کیا، اپنے بچے یتیم کئے، اپنی ماﺅں کا سہارا ختم کیاا ور اپنی گھر والیوں کو بیوہ چھوڑا، انہیں آج قوم سلام پیش کرتی ہے، ان کی قربانیوں کے بغیر ہم اس قابل نہیں ہو سکتے تھے کہ قبائلی علاقوں کو پاکستان میں ضم کر سکتے۔ ایسا خواب بھی دیکھنا ممکن نہ تھا اب یہ ناممکن کام ممکن ہو گیا اور قوم اس پر شادیانے بجا رہی ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے جاتے جاتے اپوزیشن کے اتحاد سے مل کر ایساکارنامہ انجام دیا ہے جس پر سیاست دان فخر سے سر اونچا کر سکتے ہیں۔